رؤف
خیر
22 مئی 2023
اردو زبان و ادب پر جان
گل کرائسٹ کا بڑا احسان ہے ۔ انہوں نے اپنے ہم وطنوں کو اردو سکھانے کے جو جتن کئے
تھے وہی ہندوستانیوں کے کام آئے ۔ اس طرح اردو ادب عالمی شاہکاروں سے مزین ہوتا
گیا ۔ رالف رسل نے بھی اردو سکھانے کیلئے ایک عام فہم قاعدہ For
Learners in Britain ترتیب دیا جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ
’’ یہ کورس ہندوستان اور پاکستان میں اردو سیکھنے والوں کیلئے استعمال میں لایا
جاتا تو ذخیرہ الفاظ کے باعث کافی مفید ثابت ہوتا۔ ‘‘
رالف رسل
-------
معروف و ممتاز ادیب و
نقاد محمود ہاشمی سے بھی انہوں نے ’’ اردو
کا ایک قاعدہ‘‘ لکھواکر ہی دم لیا جو ‘‘ گنج گراں مایہ ‘‘ ثابت ہوا ۔
۲۱؍مئی
۱۹۱۸ء کو پیدا ہونے اور ۱۴؍ستمبر
۲۰۰۸ء کو انتقال کرجانے والے
رالف رسل کی نوے سالہ زندگی کا دو تہائی حصہ اردو کی خدمت میں گزرا ۔
رالف رسل اصول پسند زندگی
گزارتے تھے ۔ ان کے کھانے ، پینے ، لکھنے ، پڑھنے اور سونے کے اوقات متعین تھے ۔
وہ اپنی ڈائری دیکھ کر ملنے کا وقت دیا کرتے تھے یا ملنے کیلئے وقت لیا کرتے تھے ۔
بعض اردو ادیبوں شاعروں کے ساتھ ان کے قریبی روابط تھے جیسے کرشن چندر ، علی سردار
جعفری ، احمد ندیم قاسمی ، فیض احمد فیض ، شوکت تھانوی وغیرہ۔ ایک دن اپنے ایک دوست احمد بشیر احمد سے فون پر
کہا کہ وہ دوپہر کا کھانا کھاکر سوا دو بجے ان کے گھر پہنچیں گے ، قیلولہ ان کے
ہاں کریں گے ، پانچ بجے
بیٹھک ہوگی ، رات دس بجے سونے کیلئے چلے جائیں گے ۔ صبح سات بجے اٹھیں گے ، آٹھ
بجے ناشتہ کریں گے اور دس بجے اپنے گھر واپس روانہ ہوجائیں گے ۔ وہ پسند نہیں کرتے
تھے کہ کوئی ان کا استقبال کرنے کیلئے اسٹیشن پر آئے یا وداع کرنے کی خاطر اسٹیشن
تک جائے ۔
رالف رسل ۱۹۸۰ء سے تادم آخر پابندی کے
ساتھ روز نامچہ لکھا کرتے تھے ۔ وہ کبھی گوارا نہیں کرتے تھے کہ کوئی پبلشر ان کا
ایک لفظ بھی بدل دے ۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی تحریر اسی صورت میں شائع ہوجیسی کہ
انہوں نے لکھی ہے ۔ ردوبدل کے وہ سخت مخالف تھے ۔
رالف رسل کسی سے مرعوب
کبھی نہیں ہوتے تھے ۔ حتیٰ کہ وہ اپنے اساتذہ کو بھی ’’ سر ‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں
کیا کرتے اور نہ گفتگو میں بے جا تکلفات سے کام لیتے تھے ۔ ’’ میں نے عرض کیا ‘‘
کی جگہ ’’ میں نے کہا‘‘ اور ’’ راقم الحروف ‘‘ کے بجائے سیدھے سادے لہجے میں ’’
میں ‘‘ کہا اور لکھا کرتے تھے ۔
رالف رسل نے بعض ممتاز
قلم کاروں کے بارے میں بھی اپنی بے لاگ رائے
کا اظہار کیا ہے ۔
مثال
کے طور پر کرشن چندر کے بارے میں رسل کہتے ہیں :’’ اگر آپ ان کی تخلیقات کا تین
چوتھائی حصہ ضائع بھی کردیں تو اردو ادب کا کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔ جو حصہ بچے گا
اس میں ان کی بہت عمدہ تخلیقات یقیناً شامل ہوں گی ۔‘‘جب کبھی رسل ممبئی جاتے تو
کرشن چندر ہی کے ہاں قیام کرتے تھے ۔ اس کے باوجود انہوں نے ان کے فکر و فن پر کھل
کر اپنی رائے کا اظہار کیا ۔ رالف شاؤنزم
(اپنی بالادستی کا رجحان) کے سخت خلاف تھے ۔ انہوں نے کرشن چندر کی ایک
مقبول عام کہانی ’’ کالوبھنگی ‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا تھا جو انہیں بہت
پسند تھی ۔
انہوں نے اردو کے تنقید
نگاروں کے بارے میں بھی اپنی آزادانہ رائے دی ۔ بین السطور ترقی پسند نقطہ نظر پر
چوٹ کرتے ہوئے صنفِ غزل کے حق میں کہا :’’ تیس کی دہائی سے بہت سے لوگوں نے کہنا
شروع کیا کہ غزل کا کوئی مستقبل نہیں ہے ۔ مگر میں اس خیال سے متفق نہیں ہوں ۔ میں
سمجھتا ہوں اردو غزل ایک توانا صنف ہے اور اس کو باقی رہنا چاہئے ۔‘‘رالف رسل نے
علامہ اقبال کے فکر و فن پربھی کھل کر لکھا ہے ۔
اردو
زبان و ادب کے ارتقاء کے تعلق سے ایک سوال کے جواب میں جو کچھ رالف رسل نے کہا اس
کو جھوٹ ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ رسل کا
خیال ہے کہ ’’ انڈیا میں اردو زوال پزیر ہے۔‘‘پاکستان میں اردو کے تعلق سے جو رویہ
اختیار کیا گیا ہے اس پر بھی چوٹ کرتے ہوئے نظام دکن کی مساعی جمیلہ پر بھی سخت
گرفت کرتے ہیں: ’’میرے خیال میں پاکستان کا حکمراں طبقہ انگریزی کو اولیت دینا
چاہتا ہے لیکن چونکہ اردو پاکستان کی قومی
زبان قرار دی گئی ہے اس لئے دکھانے کیلئے اردو کی سرپرستی کرتا ہے جس کی ایک مثال
’ مقتدرہ قومی زبان ‘ کا قیام ہے …‘‘
وہ اردو والوں کے مزاج
میں شامل مبالغے کو پسند نہیں کرتے تھے۔
ان کا خیال تھا کہ ’’ آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا ‘‘ کی جگہ ، آپ کا خط ملا ،
اور ’’ کتاب زیور طبع سے آراستہ ہوئی ‘‘ کے بجائے ‘‘ کتاب چھپی ‘‘ کہنا کافی ہے ۔
میرے خیال میں ہر زبان کی
ایک تہذیب ہوتی ہے۔ یہ روایت تو انگریزی میں بھی ہے مگر اسے وقت کا زیاں سمجھا
جانے لگا ہے ۔ اردو والوں کی ایک کمزوری پر رالف رسل نے گرفت کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں
:
’’ جب میں اردو کی دنیا میں کچھ مشہور ہوگیا
، اکثر یہ ہوتا رہا ہے کہ ہندوستانی مصنف اپنی تصانیف میرے پاس اس خواہش کے ساتھ
بھیجتے رہے ہیں کہ میں اپنی قیمتی رائے سے ان کو سرفراز کروں ۔ عام طور پر یہ بہت
جلد معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ میری قیمتی رائے کی توقع نہیں کرتے بلکہ اپنی تعریف
سننا چاہتے ہیں ۔ بعض یہ کہ جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ میری رائے ان کے حق میں
نہیں تو ان کی نظر میں میری رائے کی کوئی قیمت باقی نہیں رہتی۔ ‘‘
مجھے یاد آیا شاعروں
ادیبوں کے اسی رویے سے تنگ آکر گیان چند جین نے ایک مضمون ہی لکھا تھا ’’ میری
تعریف کرو ۔ ایک مذموم مطالبہ ‘‘ (ذکر و فکر ۱۹۸۰ء)۔
مختصر یہ کہ رالف رسل
اپنی صاف گوئی کیلئے شہرت رکھتے تھے اصول پسند تھے اور اپنی شرطوں پہ جیتے تھے ۔
22 مئی 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------------
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism