غلام رسول دہلوی، نیو ایج
اسلام
31 اگست 2023
[سچے] مسلمان بھائی (بہن) ہیں
پس اپنے بھائیوں (اور بہنوں) میں ملاپ کرا دیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر
رحم کیا جائے۔
(قرآن 49:10)
بھائی بہن کا رشتہ ہی منفرد ہے۔
اس میں بے لوث محبت، غیر مشروط حمایت، دوستی، لڑائی جھگڑے اور ہمدردی سب کچھ پایا جاتا
ہے۔ رکشا بندھن جیسے خوبصورت ہندوستانی تہوار کا مقصد بھائیوں اور بہنوں کے درمیان
رشتے کو مضبوطی عطا کرنا ہے۔
رکشا بندھن شراون کے پورے چاند
کے دن یعنی قمری شمسی کیلنڈر کے پانچویں مہینے میں منایا جاتا ہے۔ پورے برصغیر میں
اسے کافی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ یہ جنوبی مغربی مانسون کی آمد سے جڑا ہوا ہے۔ شراون
کو اپواس یا روزے کا مہینہ بھی سمجھا جاتا ہے۔
رکشا کا مطلب ہے "تحفظ"
اور بندھن سے مراد بھائی بہن کا مضبوط "رشتہ" ہے۔ اس طرح، یہ تہوار بھائیوں
اور بہنوں کے درمیان مضبوط رشتوں کی علامت ہے جو باہمی تحفظ، معاونت اور مفاہمت سے
عبارت ہے۔ رکشا بندھن پر بہنیں اپنے بھائی کی کلائی پر راکھی نامی دھاگہ باندھتی ہیں۔
مانا جاتا ہے کہ یہ خوبصورت دھاگہ اس کے بھائی کو زندگی میں ہر طرح کی آفات و بلیات
سے محفوظ رکھتا ہے۔ بدلے میں، بھائی حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ خوشی اور غم، دکھ اور سکھ
ہر حال میں اپنی بہنوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
یہ بات صلہ رحمی کے اسلامی تصور
سے ملتی جلتی ہے۔ پیغمبر اسلام محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے خاندان کے تمام افراد
اور خاص طور پر بھائیوں اور بہنوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے پر کافی زور دیا۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی ایک روایت میں ہے کہ: "غریبوں کو دیا جانے والا صدقہ
نیکی ہے، لیکن ایک عام عمل ہے۔ تاہم، کسی رشتہ دار (خاص طور پر بھائی اور بہن) کو صدقہ
دینے سے، دو عظیم مقاصد حاصل ہوتے ہیں: صدقہ اور صلہ رحمی۔
تاہم، پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ
علیہ وسلّم نے بہن بھائیوں کی دشمنی یا حسد سے خبردار کیا ہے جو بعض اوقات قطع الرحم
کا باعث بنتی ہے جس کا نتیجہ تباہ کن ہوتا ہے۔ درحقیقت، بہن بھائیوں کی دشمنی ایک قلبی
انسانی جذبہ ہے جس اخلاقی خامیاں جنم لیتی ہی، جب اس کا سبب والدین کی شفقت، توجہ یا
برتری یا دوسرے بہن بھائیوں پر ترجیح حاصل کرنا شامل ہوتا ہے۔ اس قسم کا رشک ایک فطری
خصلت ہے جسے اس وقت تک نظر انداز کیا جا سکتا ہے جب تک کہ یہ حسد کی بدترین شکل اختیار
نہ کر لے جو کسی بھی اعتبار سے اچھی بات نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کا
فرمان ہے: "حسد سے بچو؛ کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی
کو کھا جاتی ہے۔"
لیکن ساتھ ہی ساتھ نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے والدین کو اپنے بچوں یعنی بیٹوں اور بیٹیوں کو مساوی حقوق دینے اور
یکساں شفقت سے پیش آنے کی تعلیم فرمائی ہے۔ بالعموم بہن بھائیوں کی دشمنی والدین کی
جانب سے بیٹوں اور بیٹیوں پر مساوی توجہ، شفقت، محبت اور دیکھ بھال کے فقدان کا نتیجہ
ہے۔ اگر بیٹیوں یا بیٹوں کو یہ محسوس ہو کہ ان کے والدین انہیں ایک نظر سے نہیں دیکھتے
اور دوسرے بہن بھائیوں کا ان سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے تو یہ ان کے لیے پریشانی کا
باعث ہو سکتا ہے۔ اکثر، بڑے بہن بھائی سے اچھے رویے کی زیادہ توقعات بھی دشمنی کا سبب
بنتی ہیں، جیسا کہ ایک نامور ماہر نفسیات کائیلا بوائز کا کہنا ہے۔
بہن بھائیوں کی دشمنی کے برعکس،
رکھشا بندھن پر، بھائی دن دن بھر اور کبھی کبھی ایک ایک ہفتے تک راکھی پہن کر اپنی
بہنوں سے اپنی محبت اور لگاؤ کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ بہنوں کو تحفے میں نقدی، کپڑے،
پرفیوم وغیرہ پیش کرتے ہیں۔ بہن بھائیوں کے ساتھ تحائف کا تبادلہ تعلقات کو مضبوط بنانے
اور بہن بھائیوں کے درمیان دشمنی کو کم کرنے کا ایک حیرت انگیز طریقہ ہے۔ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک دوسرے کے ساتھ تحفے تحائف کا تبادلہ کیا کرو، تمہارے
درمیا محبت اور خیر خواہی پیدا ہو گی۔"
رکھشا بندھن کا خوبصورت تہوار ہمارے
ملک میں صدیوں سے بڑے جوش و خروش اور بھائی بہن کی محبت سے منایا جاتا ہے۔ اس تہوار
سے متعلق ہندو مسلم بھائی چارے کی کئی کہانیاں بھی مشہور ہیں۔ یہ کہانیاں ہمیں جدید
ہندوستان میں دو مختلف برادریوں کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد کی ایک شاندار داستان
بیان کرتی ہیں، جس سے ان کے درمیان بھائی چارے اور خیر سگالی کے رشتے کو تقویت ملتی
ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب اکثریتی اور اقلیتی برادریوں کے درمیان خوشگوار تعلقات
پولرائزیشن اور سیاسی صورتحال کی وجہ سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، رکشا بندھن تہوار
سے متعلق بے شمار کہانیاں جو باہمی احترام اور افہام و تفہیم کو فروغ دیتی ہیں۔ ان
میں سے ایک درج ذیل ہے۔
1905 میں جب ہندوستان کے وائسرائے
لارڈ کرزن نے بنگال کی تقسیم کا اعلان کیا تو اس فیصلے نے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
یہ فیصلہ لارڈ کرزن اور دو قومی نظریہ کے حامی کچھ مسلم رہنماؤں کے درمیان ہونے والی
ملاقات میں بات چیت کے بعد لیا گیا۔ اجلاس میں مسلمانوں کی شناخت کی بنیاد پر الگ ملک
کی ضرورت و اہمیت کو بیان کیا گیا۔ کرزن کا خیال تھا کہ آسام میں مسلمانوں کی بڑی آبادی
کی وجہ سے، اسے مغربی بنگال، بہار اور اڈیشہ کے ہندو اکثریتی علاقوں سے الگ کر دینا
چاہیے۔ اس طرح یہ حکم اگست 1905ء میں منظور کیا گیا۔ جو 16 اکتوبر 1905ء سے نافذ العمل
ہوا۔
ہندوستان کے مجاہد آزادی اور شاعر
و فلسفی رابندر ناتھ ٹیگور نے برطانوی حکومت کے 'پھوٹ ڈالو راج کرو' کے ارادے کو بھانپ
لیا اور اس کی شدید مخالفت کی۔ انہوں نے ہندو مسلم تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے راکھی
کی روایت کو ایک خوبصورت امتزاج کے طور پر استعمال کیا۔ ان کی پہل پر، انہوں نے ایک
دوسرے کو قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کے جذبے سے راکھی باندھنے
کی ترغیب دی۔ ہر ہندو ہر مسلمان کو راکھی باندھ رہا تھا اور مسلمان اپنے ہندو بھائیوں
کو راکھی باندھ رہے تھے۔ یہ تاریخی منظر یقیناً کافی دلفریب تھا۔
بھائیوں اور بہنوں کے طور
پر، ہم ہندوستانی مسلمانوں اور ہندوؤں کو اس مشکل ترین وقت میں ایک دوسرے کی مدد کرنی
چاہئے اور مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر اپنے بھائیوں اور بہنوں کو کبھی تکلیف
نہیں پہنچانا چاہئے۔ جس طرح بہن بھائی اپنے دکھ درد اور مسائل کو آپس میں بانٹتے ہیں
اور مل جل کر اپنی زندگی کو آسان بناتے ہیں، ہم بھی ایک مضبوط اور صحت مند ہندو مسلم
بھائی چارے کی مثال قائم کر سکتے ہیں۔ بہن بھائی ہمیشہ غلطیاں کر سکتے ہیں لیکن پھر
بھی وہ ان سے سیکھتے ہیں اور ان کی اصلاح کرتے ہیں۔ ہمیں راکھی پورنیما کے اس موقع
پر ایک دوسرے کو معاف کرنا چاہیے جو کہ بھائیوں اور بہنوں کے درمیان غیر مشروط محبت
اور اعتماد کی علامت ہے اور آپسی تعلقات کو بہتر بنانا چاہیے، اگر وہ خراب ہو رہے ہوں۔
English
Article: When Raksha Bandhan Was Celebrated as Beautiful
Tradition to Strengthen Hindu-Muslim Ties!
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism