New Age Islam
Tue Apr 22 2025, 03:30 PM

Urdu Section ( 17 March 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Rahmatullah Kairanawi: Pioneer of Interfaith dialogues in the Indian Subcontinent and Educationist in the Modern Arab World رحمت اللہ کیرانوی: برصغیر پاک و ہند میں بین المذاہب مکالمے کے علمبردار اور جدید عرب دنیا کے ماہر تعلیم

 گریس مبشر، نیو ایج اسلام

 06 فروری 2023

 اہم نکات

1.      ہندوستان کی سرزمین نے کسی ایسے مسلمان حکمران کو جگہ نہیں دی جس نے زبردستی مذہب کی تبدیلی کا حکم جاری کیا ہو۔

2.      ڈیڑھ صدی قبل عرب قوم میں شروع ہونے والے قابل ذکر تعلیمی انقلابات کے پیچھے رحمت اللہ کیرانوی نامی ایک ہندوستانی اسکالر کا ہاتھ تھا۔

3.      کیرانوی کی مشہور کتاب ’اظہار الحق‘ کو برصغیر پاک و ہند میں اسلام اور عیسائیت کے معروضی تقابلی تجزیہ پر لکھی جانے والی پہلی جدید کتاب تصور کیا جاتا ہے۔

4.      تاریخ میں درج ہے کہ رحمت اللہ کیرانوی بے باک تھے اور انہوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ کی اور اہل ایمان کو اس کے لیے تیار کیا۔

5.      مدرسہ الصولتیۃ کو کیرانوی نے قائم کیا تھا جس میں ایک منظم طریقے سے درس نظامیہ کے نمونے پر مذہبی تعلیم دی جاتی تھی جو ہندوستان میں رائج تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 لکھنؤ شہر کو مغل دور میں ہندوستان میں کورڈووا کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ تاریخ میں کورڈووا کو علم کا شہر مانا گیا ہے۔ ہندوستان نے بہت سے مسلم اہل علم پیدا کیے ہیں جنہیں دنیا میں جانا پہچانا جاتا ہے اور انھوں نے تخلیقی تعلیمی طریقے تیار کیے ہیں۔ رحمت اللہ کیرانوی انہیں علمی ہستیوں میں ایک نایاب موتی تھے۔

 رحمت اللہ کیرانوی 1818 میں ہندوستان میں مغل حکومت کے عروج کے وقت آندھرا پردیش کے کیرانہ نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔ کیرانوی کا تعلق علماء اور حکام کے خاندان سے تھا جو مغل دور حکومت میں بڑے سیاسی عہدوں پر فائز تھے۔ ان کا خاندانی سلسلہ تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان سے جا ملتا ہے۔ چھٹے دادا عبدالعلیم مغل حکمران اکبر کے دور میں درباری عالم تھے۔

 کیرانوی نے چھٹی جماعت میں اپنے خاندانی اساتذہ سے مذہبی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور 12 سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا۔ اپنی مادری زبان اردو کے علاوہ انہوں نے عربی اور فارسی زبانیں بھی سیکھیں۔ بعد ازاں دہلی اور لکھنؤ میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ امام بخش سواہبانی، استاد محمد حیات، اور مفتی سعد اللہ جیسے استادوں سے علم کی وسیع دنیا میں داخل ہوئے جو علم کی مختلف شاخوں میں ماہر تھے۔ تعلیم کے بعد اپنے آبائی علاقے واپس آئے اور کیرانہ میں ایک مدرسہ قائم کیا۔ کیرانوی نے بھی اپنا روحانی راستہ چشتی سلسلہ طریقت سے حاصل کیا۔

 مغل حکومت کا آخری دور وہ دور تھا جب برطانوی تسلط مضبوط ہو رہا تھا۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے شروع ہونے والے سول قانون کی طرف ایک مضبوط تبدیلی کا آغاز تھا۔ عیسائی انگریزوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی مہموں کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کو پھیلانے کے طریقے ڈھونڈے۔ برطانیہ سے پادریوں کو خصوصی طور پر ہندوستان لایا گیا اور مذہبی تبلیغی پروگراموں کو فعال کیا گیا۔ اگرچہ مغل حکمران مسلمان تھے، لیکن جن علاقوں میں وہ حکومت کرتے تھے وہاں رہنے والے لوگوں کی اکثریت ہندو تھی، اور یہ ان حکمرانوں کی مذہبی تکثیریت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ ہندوستان کی سرزمین نے کسی بھی ایسے مسلم حکمران کو جگہ نہیں دی جس نے جبری تبدیلی مذہب کا حکم جاری کیا ہو۔ اس صورت حال میں استعماری عیسائیت ایک نئے پروپیگنڈہ مشن کے ساتھ ہندوستان میں داخل ہوتی ہے، جہاں عیسائی کافی اقلیت تھے۔ مسلم علماء کو عیسائی پادریوں سے سب سے بڑا دھچکا لگا جنہوں نے مختلف طریقوں سے مذہب کو پھیلا کر اور دوسرے مذاہب کے علماء کے ساتھ مباحثے منعقد کرکے سرگرم ہونے کی کوشش کی۔ رحمت اللہ کیرانوی عیسائی پادریوں کے ساتھ مکالمے کے ذریعے بھی سرخیوں میں رہے۔

 1854 میں عیسائی پادریوں کے ساتھ کیرانوی کی بحث بہت مشہور ہے۔ پادری برناباس نے اپنے سامنے بائبل رکھ کر مسلمان علماء کو چیلنج کیا۔ Pfender ایک جرمن عیسائی پادری تھا جس نے اس طرح کے مباحثے کی مجلسوں کو بھر دیا۔ انہوں نے خود ایک کتاب ’’میزان الحق‘‘ لکھی۔ یہ کتاب، جو اسلامی مسائل پر نقد و جرح پر ہے، بحث و مباحثے کے پروگراموں میں عیسائی مذہبی پادریوں کے لیے ایک ماخذ تھی۔ مذکورہ کتاب کو مسلمانوں کی گہری جہالت اور ایمان کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے لیے اچھی طرح استعمال کیا گیا ہے، اگرچہ محدود پیمانے پر۔

 ہمدردی کی لہر اور تعاون کے جذبے سے ہمیشہ عیسائی پادریوں نے ہندوستان میں کمزور مسلمانوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بھیس میں مذہبی پروپیگنڈے کو ہمدردی کی اس لہر کے ساتھ پہچانا نہیں گیا ہوگا، جس کے ذریعے نوآبادیاتی ہندوستان میں طاقت کے ذریعے مذہب کو مسلط کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ 1857 کی پہلی جنگ آزادی کی بہت سی وجوہات بتائی جاتی ہیں، لیکن عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بغاوت میں حصہ لینے والوں کا محرک انگریزی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے عیسائیت اور اس کے قوانین کو ہندوستان میں نافذ کرنے کی کوششوں کا دفاع کرنا تھا۔ سپاہی بغاوت خود اس سوچ سے پیدا ہوئی کہ ہندوستانی مسلمانوں اور ہندوؤں کو جو کمپنی کی فوج میں تھے انہیں طاقت کے ذریعے عیسائیت کو قبول کرنا پڑے گا اور بعد میں یہ ایک بڑی بغاوت کی شکل اختیار کر گیا۔ مسلم علماء کا بڑی تعداد میں فسادات کے بعد مارا جانا اور انکا دوسرے ملکوں میں بھاگ جانا، اس بات کا جواب تھا کہ مسلم علماء ان مذہبی پروپیگنڈوں کا نظریاتی طور پر بھرپور دفاع کرنے کے لیے آگے آئے۔

 تاریخ میں ہے کہ رحمت اللہ کیرانوی کافی بے باک تھے اور انہوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ کی اور اہل ایمان کو اس کے لیے تیار کیا۔ انگریزوں کے خلاف جدوجہد کو مذہبی جنگ کے طور پر پیش کرکے اور اس میں مرنے والوں کو شہدا کا درجہ دے کر تمام مسلم اکثریتی علاقے انگریز مخالف جدوجہد میں شامل ہوگئے۔ بغاوت کے بعد انگریز فوج ان علماء کی تلاش میں آئی جنہوں نے ایسی تحریکیں چلائی تھیں۔ بہت سے مارے گئے، بہت سے قید ہوئے اور بہت سے جلاوطن کر دیے گئے۔ بہت سے لوگ خود ہی ملک چھوڑ گئے۔ رحمت اللہ کیرانوی بھی انگریزوں کی مطلوبہ فہرست میں شامل تھے۔ وہاں سے انہوں نے حکمت عملی کے ساتھ بمبئی کو عبور کیا اور پھر عرب کی طرف روانہ ہو گئے اور یمن پہنچے۔

 تاریخ کیرانوی کی طرف اس وقت توجہ دینا شروع ہوئی جب وہ یمن سے سعودی عرب آئے۔ اس وقت عرب، مکہ اور مدینہ سب خلافت عثمانیہ کے ماتحت تھے۔ مسجد الحرام میں علامہ احمد بن سینی دحلان، جو اس وقت مسجد الحرام کے امام اور شافعی مذھب کے مفتی تھے، بہت سے علماء کی قیادت میں درس کا انعقاد کیا گیا۔ علامہ زینی دحلان نے جلد ہی کیرانوی کی فصاحت، بلاغت اور کمال کو پہچان لیا۔ انہیں ایسے خطابات کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔ کیرانوی کے لیے، مسجد الحرام میں یہ تدریسی ملازمت ان کی کاوشوں کی دنیا کی سب سے بڑی پہچان تھی۔ یہ بہت فخر کی بات ہے کہ ایک ہندوستانی کو اس کے علم کی گہرائی، قابلیت اور کمال کی وجہ سے دنیا کے مسلم علماء میں سے منتخب کیا گیا ہے۔

 اظہار الحق

 مشہور کتاب ’’اظہار الحق‘‘ کیرنوی کی شاہکار کتاب ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو کیرانوی نے عیسائی پادری فانڈر کی کتاب میزان الحق کے جواب میں لکھی ہے اور اس میں عیسائی مذہبی برتری کے کھوکھلے دلائل کو بے نقاب کیا ہے اور ابراہیمی مذاہب کے درمیان بھائی چارے کی بات کی ہے۔ ’’اظہار الحق‘‘ اس وقت سامنے آئی جب وہ مسجد الحرام میں استاد تھے۔ علامہ زینی دحلان کی ہدایات پر اردو میں لکھی گئی یہ کتاب بعد میں عربی میں بڑے پیمانے پر شائع کی گئی۔ یہ کتاب 1864 میں ترکی، اردو اور انگریزی میں چھ جلدوں میں شائع ہوئی۔ اس کا گجراتی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔ عیسائیت میں جھوٹے دعووں کے خلاف تفصیل کے ساتھ مضبوط ثبوت پیش کرنے والی یہ کتاب عیسائیوں کے ساتھ مختلف مباحثوں کے ذریعے عالمی شہرت حاصل کر گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی عیسائیوں کے ساتھ مکالمے میں اس کتاب سے رجوع کیا جاتا ہے جس سے اس کتاب کی شہرت میں دن بہ دن اصافہ ہو رہا ہے۔

 یہ کتاب برصغیر پاک و ہند میں اسلام اور عیسائیت کے معروضی تقابلی تجزیہ پر لکھی جانے والی پہلی جدید کتاب سمجھی جاتی ہے۔ مصنف نے جہاں اس کتاب میں ان دونوں مذاہب کے درمیان فرق کو اجاگر کیا ہے، وہیں مصنف نے دونوں مذاہب کے درمیان مماثلتوں کو بھی کافی حد تک واضح کیا ہے۔ انہوں نے یہ کتاب بعض عیسائی مشنریوں کی طرف سے اسلام کے خلاف لگائے گئے الزامات کے جواب میں لکھی تھی۔ کرسٹین شرماکر نے کتاب کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ''اظہار الحق'' عیسائیت کے خلاف تمام ممکنہ الزامات کا خلاصہ ہے اور اس لیے کیرناوی کی موت کے بعد اسے ایک طرح کے انسائیکلوپیڈیا کے طور پر استعمال کیا گیا، کیونکہ کیرانوی نے علی طبری، ابن حزم یا ابن تیمیہ جیسے علمائے کرام کے مواد کو کافی حد تک اس میں شامل کیا ہے۔

 'مدرسہ الصولتیۃ'

 نظامیہ کے مشہور نصاب میں پڑھے اور پڑھانے والے رحمت اللہ کیرانوی کے لیے یہ فطری بات تھی کہ وہ مکہ میں بھی رائج تعلیمی نظام اور نصاب میں نظم و نسق پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اسی فکر کا نتیجہ ’’مدرسہ امدادیہ‘‘ تھا، جس سے تقریباً ڈیڑھ صدی سے دنیا کے کئی خطوں سے ہزاروں علماء فیضیاب ہوئے اور آج بھی مکہ مکرمہ میں اس کا سلسلہ جاری ہے۔ اس عظیم ادارے کے بانی کیرانوی تھے۔ اس زمانے میں، دینی تعلیمی ادارے صرف مسجد الحرام اور چند تسلیم شدہ انفرادی مذہبی تعلیم کے مراکز میں ہی چلائے جاتے تھے۔ تعلیم کے ان مراکز میں کوئی متحد نصاب یا نصابی نظام نافذ نہیں تھا۔ ان میں صرف روایتی طریقہ پر ہی تعلیم دی جاتی تھی۔

 یہ مدرسہ 1868 میں قائم کیا گیا تھا۔ 'مدرسہ الصولتیۃ' ایک ایسا ادارہ تھا جس کا آغاز 'مسجد الحرام' کی برکت سے منظم طریقے سے مذہبی تعلیم فراہم کرنے کے لیے ہوا تھا۔ یہ مدرسہ بھی درس نظامیہ کی طرز پر شروع کیا گیا تھا جو ہندوستان میں رائج تھا۔ وہ مدرسہ جو رحمت اللہ کیرانوی نے اپنے ہی ہم وطنوں اور دوسرے ممالک سے مکہ آنے والوں کو دینی تعلیم دینے کے لیے ایک چھوٹے سے پیمانے پر شروع کیا تھا، بعد میں وہ ایک عظیم ادارے میں تبدیل ہو گیا۔ مدرسہ کے نام ’’الصلویتیہ مدرسہ‘‘ کے پیچھے ایک واقعہ تھا۔ یہ واقعہ 1873 میں پیش آیا۔ جب کولکاتہ کی رہنے والی ایک امیر خاتون ’’صولت النساء‘‘ حج کے لیے مکہ آئیں تو وہ اپنے خرچ سے ہندوستانی عازمین حج کے لیے ایک عمارت بنانا چاہتی تھیں۔ اس خواہش کے ساتھ انہوں نے رحمت اللہ کیرانوی سے رابطہ کیا۔ یہ خاتون ایک رشتہ دار کے ذریعے کیرانوی کے پاس آئیں جس نے ان کے مدرسے میں تعلیم حاصل کی تھی۔ جب انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو کیرانوی نے کہا، 'ہمارے لیے حجاج کی رہائش کے بجائے مدرسہ کی عمارت بنانا زیادہ اہم ہے۔ یہ رقم ہم مدرسہ پر خرچ کر سکتے ہیں۔ اور وہ اس پر راضی ہو گئے۔ اس خاتون کی دی ہوئی رقم سے کیرانوی نے حرم کے قرب و جوار میں ایک زمین خریدی اور اس زمین پر مدرسہ کے لیے نئی عمارت بنوائی۔ ایک سال میں کام مکمل کرنے کے بعد مکہ مکرمہ کے سرکردہ رہنمائوں اور علمائے کرام کو مدعو کیا گیا اور پروقار انداز میں اس مدرسے کا افتتاح کیا گیا۔ مدرسہ میں زیر تعلیم طلباء کو نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ اس خاتون کے اعزاز میں ’’مدرسہ الصولتیۃ‘‘ کا نام رکھا گیا۔

 ہندوستان کے علاوہ دنیا کے بہت سے حصوں مثلاً انڈونیشیا، ملائیشیا وغیرہ سے طلبہ 'مدرسہ الصولتیۃ' کی پیداوار کے طور پر معاشرے میں سامنے ائے۔ دنیا کے بڑے بڑے علمائے کرام اور دیگر شعبوں میں اپنی قابلیت کا لوہا منوانے والے اس مدرسہ کی پیداوار ہیں۔ ان میں سے کچھ نمایاں شخصیات حجاز میں حکومت قائم کرنے والے حسین بن علی، عالمی شہرت یافتہ مالکی عالم حسن بن محمد المشتو اور استاد احمد بن ابراہیم، جو شاعر تھے، ہیں۔ عبدالوہاب حضرت، ویلور بقیۃ الصالحات کے بانی، رحمت اللہ کیرانوی کے شاگرد تھے۔ درس نظامیہ کی طرز پر ویلور بخیاطِ صالحات آج بھی منعقد کی جاتی ہے۔

 یہ بات بڑی امید افزا ہے کہ جدید سعودی عرب کے وجود میں آنے کے بعد بھی یہ مدرسہ جوں کا توں قائم ہے۔ ہر چیز کے موافق حال نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی شناخت کو کھوئے بغیر موجود رہنا فخر کی بات ہے۔ مزید برآں، جدید سعودی عرب کے بانی اور پہلے حکمران شاہ عبدالعزیز نے اس مدرسہ کا دورہ کیا اور نظام سازی، ترتیب اور نصاب کا معائنہ کرنے کے بعد کہا، 'الصولتیۃ مدرسہ میرے ملک کی جامعہ ازہر ہے'۔ جدید سعودی عرب کے قیام کے بعد ہی ایک نصاب تیار کیا گیا اور اس پر مبنی تعلیمی ادارے خواہ مذہبی ہوں یا مادی، عرب میں بڑے پیمانے پر پھیل گئے۔ اس وقت تک صرف چند ہی ادارے مثلاً ’صولتیہ مدرسہ‘ موجود تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈیڑھ صدی قبل عرب قوم میں شروع ہونے والے قابل ذکر تعلیمی انقلابات کے پیچھے رحمت اللہ کیرانوی نامی ایک ہندوستانی عالم کا ہاتھ تھا۔ رحمت اللہ کیرانوی رمضان المبارک 1891ء کی جمعہ کی صبح کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔73 سال کی عمر میں ان کا انتقال مکہ مکرمہ میں ہوا اور انہیں ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کا انتقال 73 سال کی عمر میں ہوا۔

English Article: Rahmatullah Kairanawi: Pioneer of Interfaith dialogues in the Indian Subcontinent and Educationist in the Modern Arab World

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/rahmatullah-kairanawi-interfaith-dialogues-indian-modern/d/129338

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..