غلام غوث صدیقی ، نیو ایج
اسلام
29 جولائی 2022
رحمن اور رحیم اللہ عزو جل
کے دو صفاتی نام ہیں۔
قرآن و سنت کے دلائل سے یہ
بات بالکل ثابت ہے کہ جس طرح اللہ تعالی دنیا میں مومنوں پر نہایت مہربان ہے اسی طرح
وہ کافروں اور مشرکوں پر بھی مہربان ہے ۔
اگر اللہ تعالی کی رحمت و مہربانی جمیع مخلوقات کو عام نہ ہوتی تو کافروں
، مشرکوں ، گمراہوں، ظالموں، نافرمانوں اور خطاکاروں کو کبھی رزق میسر نہیں ہوتا۔
رحمان لفظ اللہ کی خاص صفت
ہے جبکہ رحیم کا استعمال غیر اللہ کی صفت رحمت کے لیے بھی مستعمل ہے ۔
احادیث میں بھی بہت سے دلائل
ایسے ملتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی صفت رحیمی دنیا میں تمام بندوں،
مومنوں اور کافروں کے لیے عام ہے۔
بلکہ جن کافروں اور ظالموں
کو عذاب دینے کی بات قرآن مجید میں کی گئی ہے یہ عذاب ان کے اپنے ظلم اور کفر کی وجہ
سے ہوگا جس کا انکار انہوں نے حق آنے کے بعد جان بوجھ کر کیا اور نافرمانیوں پر عذاب
دینا اللہ تعالی کی صفت رحمانی اور رحیمی کے خلاف نہیں ہے۔
۔۔۔۔
رحمن اور رحیم اللہ عزو جل
کے دو صفاتی نام ہیں۔ یہ دونوں کلمے عربی مادہ ‘‘رحم ’’ سے مشتق ہے اورمبالغہ کے صیغہ ہیں۔ مبالغہ کے صیغے عربی زبان
میں وصف کی زیادتی بتلانے کے لیے کیا جاتا
ہے ۔ اس لحاظ سے دونوں کے معنی بہت مہربان یا نہایت رحم کرنے والے کے ہیں۔ قرآن و
سنت کے دلائل سے یہ بات بالکل ثابت ہے کہ جس طرح اللہ تعالی دنیا میں مومنوں پر نہایت
مہربان ہے اسی طرح وہ کافروں اور مشرکوں پر بھی مہربان ہے ۔صرف یہی نہیں بلکہ اللہ
تعالی کائنات کی تمام مخلوقات پر نہایت مہربان ہے ۔ عقل سلیم اپنے تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر اس بات کا اعتراف کر نے سے ہرگز گریز
نہیں کرے گی کہ اگر اللہ تعالی کی رحمت و مہربانی
جمیع مخلوقات کو عام نہ ہوتی تو کافروں ، مشرکوں ، گمراہوں، ظالموں، نافرمانوں اور
خطاکاروں کو کبھی رزق میسر نہیں ہوتا، اور وہ دنیا کی عظیم نعمتوں مثلا چاند ، سورج ، ستارے ، زمین و آسمان، پانی
اور ہوا وغیرہ سے عظیم منافع حاصل کرنے سے
محروم کر دیے جاتے حتی کہ وہ سانسیں لینے کے
حق سے بھی محروم رہتے ۔ مگر چونکہ یہ تمام لوگ بھی اللہ کی مخلوق ہیں اور دنیا کی نعمتوں
سے ان لوگوں کا فائدہ اٹھانا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت عام ہے ، یعنی دنیا میں اللہ کی رحمت نہ صرف مومنوں پر ہے بلکہ کافروں ، مشرکوں اور نافرمان اور خطا کار
مسلمانوں پر بھی ہے ۔
علامہ راغب اصفہانی اپنی کتاب المفردات
میں رحمت کا معنی و مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے
ہیں:
رحمت اس رقت قلب کو کہتے ہیں
جس کا تقاضایہ ہے کہ مرحوم پر احسان کیا جائے۔ کبھی رحمت رقت کے معنی میں اور کبھی صرف احسان کے معنی میں
مستعمل ہوتا ہے ۔ جب رحمت اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو پھر اس کا معنی صرف احسان اور افضال
ہے نہ کہ رقت قلب، اور جب رحمت آدمیوں کی صفت ہو تو پھر اس کے معنی رقت اور شفقت کے
ہیں۔
وہ مزید لکھتے ہیں : رحمان
کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ رحمان کا معنی ہے:
وہ ذات جس کی رحمت ہر چیز کو محیط ہو اور اس معنی کا مصداق اللہ تعالیٰ کے سوا اور
کوئی نہیں ہوسکتا، اور رحیم کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے غیر پر بھی ہوسکتا ہے کیونکہ رحیم
کا معنی ہے: جو بہت رحم کرتا ہو۔ قرآن مجید میں رحیم کا اطلاق اللہ عز و جل پر بھی
ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق
فرمایا : ” ان اللہ بالناس لرءوف رحیم “۔ (الحج : ٦٥)
بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر نہایت مہربان اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔
اور اللہ تعالی اپنے نبی کریم
سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق فرمایا:
لقد جآء کم رسول من انفسکم
عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمؤمنین رءوف رحیم “۔ (التوبہ : ١٢٨)
ترجمہ: بیشک تمہارے پاس تمہی
میں سے ایک عظیم رسول آئے جن پر تمہارا مشقت میں مبتلا ہونا سخت دشوار ہے، وہ تمہاری
بھلائی پر بہت حریص ہیں اور مومنوں پر نہایت مہربان اور بہت رحم فرمانے والے ہیں’’۔
ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ
دنیا میں رحمن ہے کیونکہ دنیا میں اس کا احسان مومنوں اور کافروں دونوں پر ہے اور آخرت
میں رحیم ہے کیونکہ آخرت میں اس کا احسان صرف مومنوں پر ہوگا کافروں پر نہیں ہوگا۔ (المفردات ص ١٩٢۔
١٩١، مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ،
ایران، ١٣٤٢
ھ)
رحمان اور رحیم دونوں مبالغہ
کے صیغے ہیں اور رحمان میں رحیم کی بہ نسبت زیادہ مبالغہ ہے۔ یہاں ایک سوال ہوتا ہے
کہ قرآن مجید میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ذکر ملتا ہے ۔ اس میں رحمان کو رحیم پر
مقدم کیا گیا ہے ۔لیکن عربی زبان بولنے والے عرب کا طریقہ یہ ہے کہ صفات مدح میں ادنی
سے اعلی کی طرف ترقی کرتے ہیں، مثلا عرب کہتے
ہیں : ’’فلان عالم ماہر’’ (فلاں شخص عالم، ماہر ہے)، لہذا اس اعتبار سے پہلے رحیم اور پھر رحمان کا ذکر ہونا چاہیے تھا۔
اس کا ایک جواب یہ ہے کہ رحمن کا لفظ تمام عظیم اور جلیل نعمتوں کو شامل ہے جو بہ منزلہ
اصول ہیں اور رحیم اس کا تتمہ ہے جو فروعی اور دقیق نعمتوں کو شامل ہے اور جو لفظ جلیل،
عظیم اور اصل نعمتوں پر دلالت کرتا ہے وہ اس لفظ پر مقدم ہونا چاہیے جو دقیق اور فروعی
نعمتوں پر دلالت کرتا ہے۔
قرآن مجید میں رحمن اور رحیم
کا تذکرہ متعدد مواقع پر ہوا ہے۔ بعض آیتوں میں رحمان مومنوں کے لیے استعمال ہوا ہے تو بعض مقامات پر رحیم مومنوں کے لیے آیا ہے ۔
اسی طرح بعض مقامات پر یہ الفاظ عام معنی میں استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ
رحمن و رحیم دونوں کلمے نہایت مہربان کے معنی
میں ہیں یعنی اللہ تعالی کی رحمت اس کے تمام بندوں کے لیے عام چاہے وہ بندہ مومن ہو
یا کافر۔
قرآن مجید کی آیتوں پر غور
کرنے سے معلوم ہوتا ہے لفظ رحیم کے مقابلے رحمان میں صفت رحمت کا مبالغہ اتنا زیادہ ہے کہ
غیر اللہ کی صفت رحمت بیان کرنے کے لیے اس لفظ کا استعمال کہیں نہیں ہوا بلکہ یہ لفظ
صرف اللہ تعالی کی صفت رحمت کو مبالغہ کے ساتھ بیان کرنے کے لیے آیا ہے ۔ لیکن رحیم کا لفظ
بھی اگرچہ صفت رحمت کے مبالغہ کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے مگر یہ اللہ
تعالی رحمت کے علاوہ اس کے نبی کی رحمت کو بیان کرنے کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ۔
جب اللہ تعالی نے اپنے نبی
کریم کی صفت رحمت کو بیان کرنا چاہا تو قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: (آیت) ” بالمؤمنین
رء وف رحیم “۔ (التوبہ : ١٢٨)
اور مومنوں پر نہایت مہربان اور بہت رحم فرمانے والے ہیں۔
اس آیت میں اس بات کی طرف
اشارہ ہے کہ وہ نبی جن اللہ کی کتاب قرآن مجید
نازل ہوئی ہے اور وہ جو اللہ تعالیٰ
پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں اگرچہ وہ صاحب خلق عظیم ہیں اور ان کا ہر وصف اعلی
ہے لیکن ان پر صفت رحمت کا غلبہ ہے ‘ وہ ” رء وف رحیم “ ہیں اور جس ذات با برکت کی طرف وہ دعوت دے رہے ہیں وہ رحمن اور رحیم ہے۔
اسی طرح دوسرے مقام پر اللہ
تعالی نے ارشاد فرمایا: (آیت) ” وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین “۔ (الانبیاء : ١٠٧)
اور ہم نے آپکو تمام جہانوں کے لیے صرف بہ طور رحمت بھیجا ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین
نے بیان کیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانون کے لیے ، تمام مومنوں
اور تمام کافروں کے لیے رحمت بن کر بھیجے گئے ۔
قرآن مجید میں کل ایک سو
چودہ سورتیں ہیں جن میں سے ایک سو تیرہ سورتوں
کے شروع میں اللہ تعالی کی صفت رحمانی اور رحیمی کا تذکرہ بسم اللہ الرحمن الرحیم
کے ذریعہ ہوتا ہے ۔صرف ایک سورۃ ہے جس کا نام سورہ براءت ہے جس کے شروع میں بسم اللہ
الرحمن الرحیم کی تلاوت نہیں کی جاتی ۔ اس کا مطلب ہے ایک سو تیرہ سورتوں کی تلاوت
سے پہلے اللہ تعالی رحمت کا ذکر لازمی ہے اور ایک سورۃ جس میں غضب کا اظہار ہے اس سے
پہلے اس کی صفت رحمانی اور رحیمی کا ذکر نہیں۔
رحمن اور رحیم یہ دونوں اللہ کی ایسی صفتیں ہیں جن کو یاد کرنا زندگی کے کئی مقامات پر بندوں پر واجب یا ضروری ہے ۔ سورہ نمل کی آیت ۳۰ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن کریم کا جزء ہے ۔یعنی اللہ تعالی کی ان دو صفتوں پر بندوں کا ایمان لانا عین واجب ہے ۔ نماز جیسی اہم عبادت کے اندر بھی بسم اللہ الرحمن پڑھنا ضروری ہے جس کا مطلب ہے اللہ تعالی کے رحمان اور رحیم ہونے کو یاد کرنا نماز میں ضروری ہے۔ ” قنیہ “ میں لکھا ہے کہ ہر رکعت میں ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ پڑھنا واجب ہے، اور اگر کوئی شخص نماز کی کسی ایک رکعت میں بسم اللہ ترک کردے تو اس پر سجدہ سہو کرنا لازم ہے، لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ہر رکعت میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا سنت ہے۔ وضو کی ابتداء میں ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ پڑھنا سنت ہے۔ اگر وضو کے شروع میں ” بسم اللہ “ پڑھنا بھول گیا تو دوران وضو جب بھی یاد آئے بسم اللہ پڑھ لے ‘ وضو کے اول میں ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ پڑھنا سنت ہے اور درمیان میں پڑھنا مستحب ہے۔ کھانے کی ابتداء میں ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ پڑھنا سنت ہے۔ کسی کتاب کے شروع کرنے سے پہلے اور ہر نیک اور اہم کام کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا مستحب ہے۔ اٹھنے، بیٹھنے، چلنے پھرنے اور دیگر کاموں کے وقت بسم اللہ پڑھنا مباح ہے۔لیکن حرام اور ناجائز کاموں کو کرتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا ممنوع ہے ۔ انسان اسی کا نام بار بار لیتا ہے جس سے اس کو محبت ہوتی ہے، اس لیے جو انسان ہر صحیح کام کے وقت بسم اللہ پڑھتا ہے یہ اس کی اللہ تعالیٰ سے محبت کی دلیل ہے۔
قرآن کریم کے علاوہ احادیث
میں بہت سے دلائل ایسے ملتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی صفت رحیمی دنیا
میں تمام بندوں، مومنوں اور کافروں کے لیے عام ہے ۔بخاری اور مسلم میں مذکور ایک حدیث
کے مطابق ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے ارشاد فرمایا: ‘‘للہ ارحم بعبادہ من ہذہ بولدھا’’ ترجمہ: اللہ تعالی اپنے بندوں
پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے
۔(صحیح بخاری، ۵۹۹۹،
صحیح مسلم ۲۷۵۴)
مذکورہ حدیث کے اندر اللہ
کی رحمت کا ذکر اس کے بندوں (عباد) کے لیے
ہوا ہے ۔ نیز عباد کا لفظ عام ہے جس میں مومن اور کافر دونوں مراد ہیں۔
جس طرح دنیا میں اللہ دنیا
میں رحمان و رحیم ہے اسی طرح وہ آخرت میں بھی رحمان ورحیم ہے ۔ لیکن قرآن کریم میں آخرت میں کفار کو عذاب دینے کی بات کی گئی
ہے جس سے اس بات کا انکار لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالی کی رحمت آخرت میں نہیں ہوگی،
بلکہ اس کی رحمت آخرت میں مومنوں کے لیے خاص ہوگی۔ جن کافروں اور ظالموں کو عذاب دینے
کی بات قرآن مجید میں کی گئی ہے یہ عذاب ان کے اپنے ظلم اور کفر کی وجہ سے ہوگا جس
کا انکار انہوں نے حق آنے کے بعد جان بوجھ کر کیا اور نافرمانیوں پر عذاب دینا اللہ
تعالی کی صفت رحمانی اور صفت رحیمی کے خلاف
نہیں ہے بلکہ عدل و انصاف کے عین مطابق ہے ، جیساکہ قرآن مجید کی آیتوں کے مطالعہ سے صاف واضح ہے ۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism