ڈاکٹر خواجہ افتحار احمد
21 جون،2024
موضوع پر آنے سے قبل
ایثار اور قربانی کی تعریف تشریح و توضیح ضروری ہے۔ قربانی کا تعلق دوسری اکائی یا
وحدت سے راست ہے جب کہ ایثار کامخاطب متعلقہ ذات ہوتی ہے۔ قربانی مطالبے اور توقع
کے زمرے میں آتی ہے جب کہ ایثار خود ساختہ نیک عمل ہے جو راست تقوے سے ماخوذ
ہے۔اگر ہمارے باہم رشتے ایثار وقربانی کے پیکر بن جائیں تو نسل آدم سے ہر محرومی
رخصت ہوجائے،ہر سطح پر عدل و انصاف ومساوات کا دور دورہ ہو، مگر بدقسمتی سے ایسا
نہیں ہے۔ انسانی معاشرے کی بنیاد ایثار اور قربانی پر رکھی گئی ہے یہ شر اور فتنے کی
جڑ کاٹتی ہے۔ اس سے روگردانی جنگ وجدل، فتنہ و فساد، بغض و بغاوت، دشمنی ومخاصمت
اور باہمی عدم اعتماد کی ضمانت ہے۔ حسد جوبے حسی و بے غیرتی کی کوکھ سے جنم
لیتاہے، فطرت انسانی کی سب سے خطرناک او رمہلک بیماری ہے۔ یہ ایک فرد، خاندان،
گروہ، نسل، قوم، معاشرہ،ملک اور عالمی قوتوں کو انسان و انسانیت سوزی کی طرف لے
جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں امن و امان میں خلل، معمولات زندگی میں تلاطم، قانون سے
بے خوفی او رانسانی حقوق کی پامالی تک کا جواز نکال لیا جاتاہے۔
صبر و تحمل، برداشت،
اعتدال، قناعت اور توکل علی اللہ یعنی جب تک سالم اور مستند ایمان آپ کے باطن میں
سراعت نہیں کرینگے تب تک ایثار اور قربانی کی کیفیت نہیں پیدا ہوسکتی۔ لعب ولالچ،
مادیت پرستی، خود پرستی او رانا کا وبال جب تک نفس پر حاوی رہے گا۔ سمجھ لیجئے
ایمان کی کیفیت سمندر کی سطح پر اس بہتے پانی کی سی ہے جو ٹھہرتا نہیں، بہہ جاتاہے
اور جو اس کی زد میں آجائے اسے بھی بہالے جاتاہے۔ تاریخ انسانی کا آغاز حضرت آدم
علیہ السلام سے ہوتاہے۔ بھائی کے ہاتھوں بھائی کا قتل انسانی تاریخ کا پہلا قتل
ہے۔ جس کی بنیاد بغض وحسد پر ہے۔ اس سے قبل نافرمانی کی وجہ سے انسان کا جنت سے
نکالا جانا اور زمین پر اس کا آغاز خونریزی سے ہونا ایک تلخ حقیقت ہے جو آج تک
جاری ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار ابنیائے کرام، متعدد آسمانی صحائف، قرآن آخری اور ام
الکتب آسمانی، انسانی ہدایت کا سرچشمہ، دنیا میں جینے کی الہامی قواعد، ہدایت کے
اصول وضوابط، فقہ اسلامی میں اجماع و اجتہاد کی زمین،نمونہ ہدایت حضرت محمد مصطفی
صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ، دنیا وآخرت کے مقرر زاویے، انعامات واکرامات کے
معیار، عذاب الہٰی کی منطق سب کچھ سامنے ہے۔ علم، عقل، فہم، ادارک، منطق وتحقیق سب
کچھ انسان کی دسترس میں دینے کے باوجود یہ دنیا آتش فشاں بنتی جارہی ہے۔عالمی سطح
پر براعظموں، ملکوں، معاشروں، قوموں، نسلوں، قبیلوں، قافلوں، خاندانوں، اداروں
یہاں تک کے خونی رشتوں گویا کہ زندگی کے ہر شعبے میں کہیں نہ کہیں رسہ کشی،
تنازعات، حالت جنگ یا راست جنگ، فریقین کے مابین بے اعتباری، ہر سو منافقت، نفسہ نفسی
کا عالم، مکرو فریب، عالمی وقومی سطح پر نفسیاتی مریضوں کی بڑھتی تعداد باعث تشویش
ہے۔ مذاہب، مذہبی شخصیات، عالیشان،اداروں، تنظیموں، تحریروں، پروگراموں، روحانی
مشقوں کی اب کہیں کمی نہیں، روحانی پیشواؤں کا تو جیسے بازار سا ہی لگ گیاہو، دولت
اور آسائش کی کیسی ریل پیل، کیسی بڑی اور عالیشان عمارات وسہولیات، وعظ ونصیحت،
ٹکنالوجی کی ایک جنبش پر آپ کی من پسند چیزیں حاضر، ہر ایک کے پاس امن، صلح اور
سلامتی کانسخہئ کیمیا مگر انسان کے قول وفعل، عمل واخلاق میں اس سب کا کہیں کوئی
اثر یا نتیجہ دکھائی دیتاہو؟ نام ونمود کی حد تک توایسے دعوے ہیں مگر حق، حقائق
وحقیقت سے کوسوں دور کا بھی ان کا کوئی واسطہ نہیں!
آخر ایسا کیاہے کہ سلجھتا
ہی نہیں! ملکوں کے جھگڑے علاقائی نوعیت کے ہیں۔ زمین، قدرتی وسائل کی تقسیم، آبی
معاملات، سمندروں پر اقتدار اعلیٰ، اس سب میں ایسا کیاہے۔ جس کو عدل کی بنیاد پر
نہ طے کیا جاسکے؟ اگر سب کو انسان سمجھ کر او روسائل پر مساوی حق سمجھ کر مفاہمت
کی بنیاد پر ایک دوسرے کی جائز ضروریات کا اعتراف کرتے ہوئے ایثار وقربانی کے جذبے
سے فریقین کام لیں تو کیا خوشحالی سب کے حصے میں نہ آجائے مگر نسلی بالادستی، طاقت
کازعم تمام دنیا پر میرا سکہ چلے، سب میرے آگے جھکیں، وسائل تمہارے ہوں مگر ان پر
حاکمیت میری ہو، تم وہ کرو جو میں چاہوں، تمہاری خود مختاری، تمہارا اقتدار اعلیٰ،
تمہاری حکومتیں وحکمران، تمہارا نظام او ران کے چلانے والے سب میرے آگے سرنگوں!
بدامنی، بے چینی استحصال کا احساس نہ پھیلے گا تو پھر او رکیا ہوگا؟
وطن عزیز میں مختلف
عقائد، مذاہب، مسالک، تہذیب و تمدن، زبانیں، ثقافتیں، اقدار وروایات، مماثل
ومتصادم دونوں قسم کی روایات مگر اس سب کے ساتھ ایک قوم، ایک ملک، ایک اقتدار
اعلیٰ تکثیریت کے باوجود ایک پروقار قومی وحدت!
پھر ایسا کیاہے کہ ہم ایک
دوسرے کی لنچنگ کررہے ہیں اور ایسا کرنے، او رکرکے خوشی میں جشن منارہے ہیں؟ زبان
بے لگام، کچھ بھی کہہ دینا، نہ شرم، نہ لحاظ، نہ اخلاق کی کوئی حد، ہم وطن ہوتے
ہوئے اتنی نفرت! کوئی مجھے بتائے کہ برداشت کامادہ کیا بالکل ختم ہوگیا؟ صدیوں کا
ساتھ،اعتماد او راس کی گرماہٹ کہاں چلی گئی؟ میرا، آپ کا خالق کیا کسی کے مذہبی
عقیدے کے مختلف ہونے سے الگ ہوجائے گا۔ جی نہیں! کیا سب ایک دوسرے کی حساسیت کو
مساوی بنیادوں پر محسوس نہیں کرسکتے؟ کیا سب کے عقائد، مذہبی مقامات برابر کا تقدس
نہیں مانگتے؟ کسی مندر، مسجد، چرچ، گرودوارے پر حملہ یا اس کی بے حرمتی، امام،
پادری، گرنتھی یاپجاری کا قتل کسی بھی طرف سے کوئی اخلاقی جواز رکھتا ہے؟ سیاست
کیلئے ہر زاویے کو بدل دیا جائے گا۔مسئلہ کہاں ہے؟ ہماری برداشت ختم کی جارہی ہے،
بقائے باہم کے مسلمہ اصول کی نفی کی جارہی ہے، ہم ایک دوسرے کے وجود کے دشمن بن کر
اپنے اور وطن عزیز دونوں کے دشمن بنتے جارہے ہیں۔ جب کہ حق تو ساتھ رہنے، چلنے او
رملک کو ایک ساتھ آگے لیکر چلنے کا ہے!ایک دوسرے کے لئے ایثار وقربانی کا جذبہ تو
جیسے فناہو؟ کوئی کسی بھی معاملے میں ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں!
مسلمانان ہند تنہا ملک کی
سب سے بڑی اکائی اور قومی وحدت گوکہ اصطلاحاً اقلیت کہلاتی ہے۔قرآن ایک، رسول ایک،
کتاب ہدایت ایک، نمونہ ہدایت ایک، عظمت، حرمت، تقدس، نجات، دنیا و آخرت کے زاویے ایک،
سب کی جڑ میں مساوات وعدل مگر تقسیم، تعصب، تفرقے اور تکرار کایہ عالم! چوطرفہ
اتحاد واتفاق کی باتیں، عشق و عقیدت میں تو آگے کہ میں آگے۔ مگر آپس میں کفر کے
فتوے، مساجد کا غسل، عبادت، ذکر و ریاضت کی بجائے تعویز گنڈے، دھاگے اورمنتیں!
اللہ او راللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مقربین کے وسیلے پر تو سوال
نہیں مگر تقوے کو اختیار کرنے کی نہ تبلیغ، نہ دعوت او رنہ اشتیاق۔ الزام تراشی،
شخصیت سوزی، مسلک پرستی، کا دین کے مطالب پر غالب آجانا، بستیوں میں بلا کی غلاظت،
قانون و خانقاہیں، ادارے ذاتی ملکیت، موروثیت کا دور دورہ اداروں میں سیاست او
رایک دوسرے پر فوقیت کی جنگ یہ سب کیاہے؟ اصلاح کا سوال ہی نہیں۔کیونکہ ہم تو مکمل
او رمعصوم ہیں! اوقاف کی بدنظمی، اداروں کی بدحالی، خاندانی اقدار کی پامالی،
احسان فراموشی، حقوق پر پوری دعویداری مگر فرائض میں آنا کافی، والدین، خونی
رشتوں، پڑوسیوں کے حقوق پر ڈاکے، مقدمے اور بے کلامی، بجلی وٹیکس چوری۔اس سب میں
بنیادی نکتہ تلاش کریں تو اخلاق اور اخلاقیات کے سوا او رکیا سامنے آتاہے؟ جو اب
ایک ہی ہے جذیہ ایثار وقربانی کو تیسری اور آخری طلاق! نفس انسانی میں تقویٰ
اوراخلاقیات کا آج کیا معیار ہے؟ قربانی،مگر اس کی روح جو اپنے اندر جذبہ ایثار
پیدا کرنے سے تعلق رکھتی ہے وہ ندارد!
آخر میں مسائل چاہے ان کی
سطح کوئی بھی کیوں نہ ہومگر انسان اور انسانیت جب تک جذبہ قربانی و ایثار سے سرشار
نہ ہوگی امن، عدل، مساوات معتوب رہیں گے! حسد اور شرکا دور دورہ رہے گا، جنگ کے
بادل چھائے رہیں گے، ماحول میں آلودگی بڑھتی جائیگی، زندگی اجیرن ہوتی جائیگی،
جینا دوبھر ہوتاجائے گا۔ سب ایک دوسرے پر سبقت لینے کے چکر میں سارا عالمی معاشرہ
آگے کے نام پر پیچھے چلتا جائیگا!
مسلم پس منظر میں مسائل
اس لئے بڑھ رہے ہیں کہ ایمان، بیان، پیشہ ورانہ خطابت او ر تمام دینی سرگرمیوں میں
آج مالی مدد ومعاونت کس پیسے سے ہورہی ہے؟ تعاون دو! پیسہ کیسا ہے اس سے کیا فرق
پڑتا ہے! عبادات قالین او راے سی کی محتاج! اخلاقیات ایثار وقربانی کے بغیر محض
فریب حسن سے زیادہ کچھ نہیں!
21 جون،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism