لقمان صادق،
نیو ایج اسلام
2 جون 2022
اسلام جنگ
کا مخالف نہیں ہے۔ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ ہتھیاروں کو وقتاً فوقتاً اور آخری حیلے
کے طور پر ایک منصفانہ جنگ میں استعمال کیا جانا چاہیے ۔
اہم نکات:
1. اسلام امن کا مذہب ہے ۔
2. قرآنی اصولوں کے مطابق صرف
اپنے دفاع میں اور صرف ان لوگوں کے خلاف لڑنے کی اجازت ہے جو آپ کے خلاف سرگرم عمل
ہیں ۔
3. قرآن کا براہ راست مقصد
موروثی دشمنی یا غلبہ نہیں ہے ۔
------
اسلامی تعلیمات کے مطابق قرآن
ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کلام الٰہی کی شکل میں "عطا کیا" گیا
تھا، اور قرآن کے کچھ حصے مخصوص حالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جبکہ دیگر عالمگیر روحانی
تصورات پیش کرتے ہیں ۔
یہ مضمون ان مسلمانوں اور
غیر مسلموں کے لیے ہے جو غلط مفروضہ رکھتے ہیں کہ اسلام میں غیر مسلموں پر ظلم و ستم
کی اجازت ہے، جس کی بنیاد پر غیر مسلموں کا قتل جائز ہے یا تمام مسلمانوں کو ایک ہی
نظر سے دیکھنے کی اجازت ہے ۔
یہ سچ ہے کہ قرآن مسلمانوں
سے ایک دفاعی جنگ میں اپنا دفاع کرنے کا تقاضا کرتا ہے - یعنی اگر کوئی دشمن فوج حملہ
کرتی ہے، تو مسلمانوں کو اس فوج سے اس وقت تک لڑنا چاہیے جب تک کہ ان کی جارحیت کا
پنجہ نہ موڑ دیا جائے ۔ اسی سیاق و سباق ہے میں قرآن مجید کے اندر لڑائی یا جنگ کا
ذکر ہے ۔
بعض آیات کو اکثر سیاق و سباق
سے ہٹا کر پیش کر دیا جاتا ہے، اور ایسا یا تو اسلام کے ناقدین "جہادیت"
پر بحث کے دوران کرتے ہیں یا ایسے پریشان ذہن مسلمان کرتے ہیں جو اپنے جارحانہ اقدامات
کا دفاع کرنا چاہتے ہیں ۔
اگر وہ تم پر پہلے حملہ کرتے
ہیں تو پھر تم ان پر حملہ کرو ۔
سیاق و سباق واضح طور پر اشارہ
کرتا ہے کہ قرآنی آیات میں ایک دفاعی جدوجہد کی بات کی گئی جس میں ایک مسلم قوم پر
بلا وجہ حملہ کیا جاتا ہے، انہیں دبایا جاتا ہے اور انہیں ان کے مذہب پر عمل کرنے سے
روکا جاتا ہے ۔ قرآن کہتا ہے؛
وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ
ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱقْتَتَلُوا۟
فَأَصْلِحُوا۟
بَيْنَهُمَا ۖ
فَإِنۢ
بَغَتْ إِحْدَىٰهُمَا عَلَى ٱلْأُخْرَىٰ
فَقَـٰتِلُوا۟
ٱلَّتِى تَبْغِى حَتَّىٰ تَفِىٓءَ
إِلَىٰٓ أَمْرِ ٱللَّهِ
ۚ فَإِن فَآءَتْ فَأَصْلِحُوا۟
بَيْنَهُمَا بِٱلْعَدْلِ
وَأَقْسِطُوٓا۟
ۖ إِنَّ ٱللَّهَ
يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ
’’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ پھر
اگر ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی
طرف پلٹ آئے، پھر اگر پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں اصلاح کردو اور عدل کرو، بیشک
عدل والے اللہ کو پیارے ہیں ۔ قرآن (49:9)
ان حالات میں جوابی جنگ کی
اجازت دی گئی ہے، لیکن مسلمانوں کو تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز نہ
کریں اور حملہ آور کے ہتھیار ڈالتے ہی لڑائی بند کردیں ۔
ان حالات میں بھی مسلمانوں
کو صرف ان سے لڑنا ہے جو ان پر براہ راست حملہ کر رہے ہیں، نہ کہ بے گناہ راہگیروں
یا غیر جنگجووں سے ۔
اگر کافر
معاہدے توڑتے ہیں تو ان سے لڑو
ایک تاریخی دور میں جب چھوٹی
سے مسلم قوم نے اپنے پڑوسی یہودی، عیسائی اور کافر قبائل کے ساتھ معاہدے کیے تھے، تو
اس وقت یہ آیت نازل ہوئی تھی ۔
اس زمانے میں بھی کئی کافر
قبائل ایسے تھے جنہوں نے مسلمانوں کی بستی پر دشمن کے حملے میں خفیہ طور پر مدد کر
کے اپنے معاہدے کو توڑ دیا تھا ۔
اس سے ماقبل کی آیت مسلمانوں
کو یہ حکم دیتی ہے کہ وہ ہر اس شخص کے ساتھ معاہدوں کا احترام کرتے رہیں جنہوں نے ابھی
تک ان کے ساتھ خیانت نہیں کی ہے کیونکہ وعدوں کی پاسداری کرنا ایک اچھی چیز ہے ۔ اس
سے آگے آیت یہ کہتی ہے کہ جنہوں نے معاہدے کی شقوں کو توڑا ہے انہوں نے اعلان جنگ کر
دیا ہے، لہٰذا ان سے جنگ کی جائے ۔
مکہ کے وہ "کافر"
جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی جماعت کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی وہ
"بت پرست" کے نام سے جانے جاتے تھے۔ شروع سے ہی سرداران مکہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی دعوت دین کے مخالف تھے ۔
جب انہوں نے دیکھا کہ اسلام
قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے
پیروکاروں پر سخت جبر و تشدد کے پہاڑ توڑے ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنے ایسے کئی ساتھیوں کو جن کے پاس قبائلی تحفظ کا کوئی انتظام نہیں تھا، عیسائی سلطنت
حبشہ میں پناہ لینے کے لیے چلے جانے کا حکم دیا تھا، کیونکہ ان کے قتل کی کئی ناکام
کوششیں کی جا چکی تھیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور
آپ کے صحابہ 13 سال کی جدو جہد کے بعد مدینہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، تب بھی کفار
مکہ نے ان پر اپنے ظلم و ستم کا سلسلہ نہیں روکا ۔
آخر کار، متعدد دشمن عرب قبائل
مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائیوں میں شامل ہو گئے، جس کا اختتام خندق کی جنگ میں ہوا،
جس میں مختلف عرب قبائل کے 10,000 لوگ مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے جمع
ہوئے تھے ۔
لیکن ہوا یہ کہ مسلمانوں نے
ان رکاوٹوں کو عبور کیا اور ایک عظیم ترین تہذیب کی تعمیر کے لیے آگے بڑھایا۔
قرآن کہتا ہے:
فَإِن تَابُوا۟
وَأَقَامُوا۟
ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُا۟
ٱلزَّكَوٰةَ فَإِخْوَٰنُكُمْ
فِى ٱلدِّينِ
ۗ وَنُفَصِّـلُ
ٱلدِّينِ ۗ
وَنُفَصِّـمَـلُ
ٱلْتٔـمِـ
ٱلْتِـيُمْ
ۗ وَنُفَصِّـلُ
ٱلدِّينِ
"پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰة دیں تو وہ
تمہارے دینی بھائی ہیں اور ہم آیتیں مفصل بیان کرتے ہیں جاننے والوں کے لیے
۔" (قرآن 9:11)۔ جنگ کی اس اجازت کے بعد بھی یہی آیت نافذ ہے ۔
اس کے بعد، مسلمانوں کو حکم
دیا جاتا ہے کہ وہ کافر قبیلے/فوج کے ہر اس فرد کو پناہ دیں جو پناہ طلب کرے، اور انہیں
یاد دلایا جاتا ہے کہ "جب تک یہ تمہارے ساتھ وفادار ہیں، ان کے ساتھ سچے رہو،
کیونکہ خدا نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے ۔"
یاد رکھنا اہم ہے
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ
اس وقت مسلمان عام شہریوں سے نہیں بلکہ سامراجی قوتوں سے لڑ رہے تھے ، اور انہیں غیر
جنگجوؤں کو مارنے یا املاک کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔
اسلام نے عیسائیوں، یہودیوں
اور دیگر اقلیتی فرقوں کو مذہبی آزادی فراہم کی جبکہ ان سے فوجی خدمات سے مستثنیٰ ہونے
کے بدلے میں معمولی ٹیکس بھی ادا کیا گیا ۔
14 صدیوں کے بعد، اب یہ تسلیم کرنے کا وقت ہے کہ قرآن میں دشمنی یا
غلبہ حاصل کرنے کا کوئی موروثی یا فطری تقاضا نہیں ہے ۔ مسلمانوں کی اکثریت امن سے
رہنا پسند کرتی ہے ۔ جو کہ درحقیقت ان کے مذہب کا ایک حصہ ہے ۔ آپ کے اپنے مذہب کی
بہترین پیروی کرنے کی قبولیت اور حوصلہ افزائی دیگر مذہبی برادریوں کے ساتھ تعلقات
کی بنیادیں ہیں ۔
نتیجہ
قرآنی اصولوں کے مطابق صرف
اپنے دفاع میں اور صرف ان لوگوں کے خلاف لڑنے کی اجازت ہے جو آپ کے خلاف سرگرم عمل
ہیں ۔ درحقیقت اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے وقف
ہے ۔ تاہم، اسلام امن پرست مذہب نہیں ہے ۔ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ ہتھیاروں کو وقتاً
فوقتاً اور آخری حیلے کے طور پر ایک منصفانہ جنگ میں استعمال کیا جانا چاہیے ۔
-----
لقمان صادق گزشتہ چار سالوں سے
تاریخ اور قرآن کی تعلیمات سمیت مختلف اسلامی موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے یہ
مضمون خصوصی طور پر نیو ایج اسلام کے لیے پیش کیا۔
-----------
English Article: What Does The Quran Say About Infidels?
URL: