مولانا
سید جلال الدین عمری
(دوسرا حصّہ)
16 فروری 2024
انسان
گناہ سے مشکل ہی سے بچ پاتا ہے۔ بعض اوقات بڑے بڑے گناہ بھی اس سے سرزد ہوجاتے
ہیں، لیکن اس کا ضمیر گناہ کی خلش کو محسوس کرتا ہے، ارتکابِ گناہ اس کے دل میں
کانٹے کی طرح کھٹکتا رہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا گناہ دُھل جائے اور وہ اس کی
سزا سے بچ جائے۔ اس کیلئے وہ ضروری سمجھتا تھا کہ خود ساختہ خداؤں کو خوش کیا
جائے ورنہ وہ ان کے غضب کا شکار ہوجائیگا۔ اس مقصد سے وہ طرح طرح کی رسوم ادا کرتا
اور یہ رسوم مذہبی رہنمائوں کے ذریعہ انجام پاتی تھیں۔ شرک کی دنیا میں اب بھی یہی
سب کچھ ہوتا ہے۔ گناہ کی زندگی گزارنے کے بعد انسان کبھی مایوس بھی ہوجاتا ہے کہ
اب اس کیلئے ہدایت کی راہ بند ہوچکی ہے۔ قرآن مجید نے معصیت پرور انسانوں اور بڑے
بڑے مجرموں کو اللہ کا پیغام سنایا اور ہمت دلائی کہ توبہ کے دروازے تاحیات کھلے ہوئے
ہیں۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ وہ بڑے سے بڑے مجرم
کو معاف کرنے کیلئے تیار ہے:
’’اے میرے بندو، جنہوں نے گناہوں
کے ارتکاب سے اپنے اوپر زیادتی کی ہے، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو۔ اللہ
سارے گناہ معاف کردیگا۔ وہ تو غفور و رحیم ہے۔ اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کے
مطیع و فرماں بردار بن جائو، قبل اس کے کہ اللہ کا عذاب آجائے اور کہیں سے تمہاری
کوئی مدد نہ ہو۔ ‘‘ (الزمر: ۵۳-۵۴﴾)
’’اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی
توبہ قبول کرتا اور انہیں معافی عطا کرتا ہے اور وہ ﴿تمہارے ارادوں اور جو کچھ تم
کرتے ہو ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ ‘‘ (الشوریٰ: ۲۵﴾)۔ قرآن مجید نے جس طرح بگڑے ہوئے افراد، قاتلوں اور
سیہ کاروں کو، اللہ سے براہ راست تعلق قائم کرنے اور گناہوں سے توبہ کی دعوت دی،
اس سے اس راہ کی بندشیں اور واسطے ختم ہورہے تھے اور انسان توبہ و استغفار کے ساتھ
سیدھے اللہ کی طرف متوجہ ہورہا تھا۔ یہ قرآن ہی کی تعلیمات کا نتیجہ تھا۔
آخرت
کا تصور:
دنیا انسان کے سامنے ہے۔ اس سے وہ انکار نہیں
کرسکتا۔ اس میں غیرمعمولی کشش ہے، اس لئے وہ اس میں پوری طرح غرق رہا ہے اور اب
بھی اسی میں مدہوش ہے۔ آخرت گناہوں سے اوجھل ہے۔ اس سے وہ غافل اور بے خبر ہے۔
حالانکہ یہ دنیا انسان کا حال اور آخرت اس کا مستقبل ہے۔ یہ دنیا فانی ہے اور
آخرت کو بقائے دوام حاصل ہوگا۔ یہاں فکر و عمل کیلئے انسان آزاد ہے اور وہاں اس
کا حساب کتاب ہوگا اور انسان اپنے اچھے یا برے انجام سے دوچار ہوگا۔ آخرت کا تصور
کسی نہ کسی شکل میں مذاہب ِ عالم میں رہا ہے لیکن افراد اور قوموں کے احساس برتری
اور اللہ کے دربار میں سفارش و شفاعت کے غلط تصور جیسے باطل خیالات نے اسے غبار
آلود کردیا ہے۔
قرآن
مجید نے ان سب کی تردید کی اور آخرت کا خالص عقیدہ پورے زور اور قوت سے پیش کیا
اور اس کے حق میں اس قدر مضبوط دلائل فراہم کئے کہ وہ خواب و خیال نہیں، بلکہ زندہ
حقیقت بن گیا۔ اس نے دعوت دی:
’’(اے بندو!) تم اپنے رب کی بخشش
کی طرف تیز لپکو اور جنت کی طرف (بھی) جس کی چوڑائی (ہی) آسمان اور زمین کی وسعت
جتنی ہے، اُن لوگوں کیلئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے
ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے جسے وہ چاہتا ہے اسے عطا فرما دیتا ہے، اور اللہ عظیم فضل
والا ہے۔ ‘‘ (الحدید:۲۱)
اس
جنت کو پانے کیلئے جس کردار کی ضرورت ہے، قرآن مجید نے بہت تفصیل سے اس کا ذکر
کیا ہے۔ صرف ایک حوالہ دیا جارہا ہے: فرمایا گیا: ’’اے ایمان والو! کیا میں تمہیں
وہ تجارت بتائوں جو دردناک عذابِ ﴿جہنم سے نجات دے؟ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان
رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے
اگر تم جانتے ہو، اللہ تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں
داخل کریگا، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور پاکیزہ مکانات عطا کریگا جو
ہمیشہ رہنے والے باغات میں ہوں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ ‘‘ (الصف:۱۰؍تا۱۲)
یہ
ایک نئی دنیا کا تصور تھا۔ جو لوگ موجودہ عیش و عشرت ہی کو سب کچھ سمجھ رہے تھے وہ
تو اس میں گم رہے، لیکن آخرت کی فلاح کے تمنائی اس کی طرف دوڑ پڑے۔
مادّیت
و روحانیت میں توازن:
دنیا کے سامنے مادیت اور روحانیت کا مسئلہ شروع ہی سے رہا ہے۔ دونوں میں
تضاد سمجھا گیا اور اس کیلئے راستے بھی جدا جدا اختیار کئے گئے۔ اس حقیقت کو
فراموش کردیا گیا کہ انسان کی مادی ضرورتیں بھی ہیں اور اس کی روح کے مطالبات بھی
ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انسان بالعموم مادی
خواہشات کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ اس سے اس کی روح کی تسکین نہیں ہو پاتی۔ بعض لوگ
روح کی تسکین کیلئے مادی تقاضوں سے صرفِ نظر کرنے لگتے ہیں۔ قرآن نے ان دونوں میں
توازن قائم کیا۔ اس نے اس خیال کی تردید کی کہ مادی تقاضوں کو پورا کرنا، بہتر
خوراک، صاف ستھرا لباس یا آرام دہ رہائش کا استعمال روحانی ارتقاء کے منافی ہے۔
جائز حدود میں ان کی تکمیل کو اس نے کارِثواب قرار دیا اور اس کی ترغیب دی۔
فرمایا: ’’اے بنی آدم! مسجد کی ہر حاضری میں اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھائو
اور پیو اور اسراف نہ کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ اسراف کو پسند نہیں کرتا۔ ان سے کہو،
﴿بتاؤ، کس نے اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کیلئے پیدا کی ہے اور کھانے
کی صاف ستھری چیزوں کو حرام کیا ہے؟ ان سے کہو کہ یہ نعمتیں دنیا کی زندگی میں
﴿اصلاً ان لوگوں کیلئے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں، قیامت میں تو خاص ان ہی کیلئے ہوں
گی۔ اس طرح ہم آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کیلئے جو جانتے ہیں۔ ‘‘
(الاعراف:۳۱-۳۲﴾)
روح
کے سکون اور اطمینان کیلئے قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کے احکام کی
اطاعت کو ضروری قرار دیا اور اللہ تعالیٰ سے محبت، ذکر، اخلاص، توبہ اور انابت
جیسے پاکیزہ جذبات ابھارے اور بتایا کہ اللہ کی یاد ہی سے اطمینانِ قلب حاصل ہوتا
ہے۔ ( ﴿الرعد:۲۸﴾)
قرآن
نے اس طرح روحانیت اور مادیت کی کشمکش ختم کی اور دنیا کو ایک متوازن راہِ عمل
دکھائی۔
انسان
سب سے برتر مخلوق:
انسان اپنی عظمت سے ناواقف تھا۔ وہ اس عظیم کارخانۂ عالم کو ڈر اور خوف کی
نظر سے دیکھتا، اس کے ذرہ ذرہ کو دیوتا یا خدا سمجھتا اور اس کے سامنے اپنی جبینِ
نیاز جھکا دیتا۔ قرآن نے بتایا کہ وہ یعنی انسان دنیا کی ہر شے سے برتر اور اشرف
المخلوقات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی عظمت کا اعلان اس طرح ہوا: ’’ہم نے بنی
آدم کو عزت کا مقام دیا ہے اور اس قابل بنایا ہے کہ خشکی اور سمندر میں سفر کرسکے
اور اس کی غذا کے لئے صاف ستھری اور پاکیزہ چیزیں فراہم کی ہیں اور اپنی بہت سی
مخلوقات پر اسے فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔ ‘‘ (الاسراء:۷۰﴾)
یہ
عالمِ ہست و بود اپنی تمام وسعتوں اور وسائل کے ساتھ اس کیلئے مسخر کردیا گیا ہے۔
اسے ایسے فطری قوانین کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھاتا چلا آرہا
ہے اور مزید استفادے کی راہیں اس کے سامنے کھلی ہیں۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا احسان
ہے۔ اس میں کسی دوسرے کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ قرآن ہی کے الفاظ میں سنئے کہ: ’’وہ
اللہ ہی کی ذات ہے جس نے تمہارے لئے سمندر کو مسخر کردیا، تاکہ اس کے حکم سے اس
میں کشتیاں چلیں اور تم اس کا فضل ﴿رزق تلاش کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ اسی نے
تمہارے لئے اپنی طرف سے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزیں مسخر کردی ہیں، بے شک اس
میں ان لوگوں کیلئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔ ‘‘( ﴿الجاثیۃ: ۱۲-۱۳﴾)
یہ
مضمون مزید وضاحت کے ساتھ سورۂ ابراہیم میں بیان ہوا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح
ہے:
’’اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور
زمین کو پیدا فرمایا اور آسمان کی جانب سے پانی اتارا پھر اس پانی کے ذریعہ سے
تمہارے رزق کے طور پر پھل پیدا کئے، اور اس نے تمہارے لئے کشتیوں کو مسخر کر دیا
تاکہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی رہیں اور اس نے تمہارے لئے دریاؤں کو (بھی)
مسخر کر دیا، اور اس نے تمہارے فائدہ کے لئے سورج اور چاند کو (باقاعدہ ایک نظام
کا) مطیع بنا دیا جو ہمیشہ گردش کرتے رہتے ہیں، اور تمہارے لئے رات اور دن کو بھی (ایک
نظام کے) تابع کر دیا، اور اس نے تمہیں ہر وہ چیز عطا فرما دی جو تم نے اس سے
مانگی، اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو (تو) پورا شمار نہ کر سکو گے،
بیشک انسان بڑا ہی ظالم بڑا ہی ناشکرگزار ہے۔ ‘‘( ﴿ابراہیم:۳۱؍تا۳۴﴾)
اطاعت
و بندگی کا حق:
قرآن
نے اس حقیقت سے پردہ ہٹایا کہ یہ دنیا اس لئے ہے کہ انسان اس سے فائدہ اٹھائے، نہ
یہ کہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے۔ اطاعت اور بندگی کا حق صرف اس ذات کا ہے جو اس
دنیا کا خالق و مالک ہے۔ خدا اور اس کی پیدا کردہ کائنات کے بارے میں اس تصور سے
انسان نے اس وسیع دنیا کو اپنے تابع دیکھا اور بغیر کسی خوف اور اندیشے کے اس سے
فائدہ اٹھانے کی تدبیر کی۔ وہ اس اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا کہ وہ خدا کا
بندہ ہے اور خدا نے یہاں کی ہر چیز سے استفادے کا اس کو حق دیا ہے۔ قرآن نے انسان
کو ’خلیفۃ اللہ فی الارض ‘ کہا۔ وہ زمین میں خدا کا خلیفہ ہے۔ اس کا کام دوسروں کی
غلامی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین پر عمل کرنا اور دنیا میں اس دین کو نافذ
کرنا ہے۔ اس پہلو سے اس نے انسان کو جو مقام ِبلند عطا کیا وہ کسی بھی زاویئے سے
محتاج وضاحت نہیں ہے۔(جاری)
16 فروری 2024، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism