New Age Islam
Sat May 17 2025, 05:46 AM

Urdu Section ( 24 Nov 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

How Qatar Lost the Chance to Showcase Islamic Pluralism قطر نے اسلامی تکثیریت کو ظاہر کرنے کا موقع کیسے کھو دیا؟

ارشد عالم، نیو ایج اسلام

 22 نومبر 2022

 اس کے بجائے، اسلام کی نمائندگی کرنے کی اس کی کوششوں سے بالادستی اور علیحدگی پسندی کی بو آتی ہے۔

 اہم نکات:

 1. فٹ بال ورلڈ کپ 2022 قطر میں منعقد ہو رہا ہے، جو کہ عرب خطے کے لیے یہ پہلا موقع ہے۔

 2. ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے، امید تو یہی ہے کہ یہاں مذہب کا غلبہ رہے گا۔

 3. لیکن یہ ایک جامع، روادار اور ملنسار اسلام پیش کرنے کا موقع تھا۔

 4. بلکہ، ذاکر نائیک جیسے لوگوں کو بلا کر، جو یہ تبلیغ کرتے ہیں کہ صرف اسلام ہی سچا مذہب ہے، قطر نے اسلام کی بالادستی پیش کرنے میں زیادہ دلچسپی ظاہر کی۔

 5.  بیئر اور متبادل جنسی رجحانات کے اظہار پر پابندی لگا کر، اس نے ان تمام لوگوں کو خارج کر دیا جن کا طرز زندگی مختلف تھا۔

 6.  بہت سے مسلمانوں نے ملک کے اصولوں کو برقرار رکھنے پر قطر کو سلام پیش کیا ہے لیکن وہی مسلمان اس وقت شور مچانے ہیں جب انہیں اصولوں پر عمل کرتے ہوئے، کچھ ممالک برقع یا حجاب پر پابندی لگاتے ہیں

 ------

 جب سے چھوٹے خلیجی ملک قطر نے فٹبال ورلڈ کپ کے انعقاد کے حقوق حاصل کیے ہیں، تب سے ہی اس کی تنقید کا سلسلہ جاری ہے، زیادہ تر یورپ کے لوگ اس کی تنقید کر رہے ہیں۔ قطر پر کی جانے والی تنقید اس کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اس کی متبادل جنسی شناخت کو تسلیم نہ کرنے اور جنسی علیحدگی وغیرہ سے متعلق ہے۔ اس میں سے کچھ تنقید درست معلوم ہوتی ہے، لیکن ان میں سے کچھ مذہب اسلام کے ساتھ زبردست بے چینی کی پیداوار ہیں۔ یقیناً، قطر ایک اسلامی ملک ہے، اور جیسا کہ ہوتا ہے کہ طرز زندگی سے متعلق زیادہ تر قوانین میں مذہب کا عمل دخل ہوتا ہے، لیکن خطے کے دیگر ممالک کے برعکس، قطر میں عوامی حلقوں میں خواتین کی موجودگی کافی زیادہ ہے، اور کچھ اعلی دفاتر میں ان کا ہی غلبہ ہے۔

 یہ بھی درست ہے کہ ملک نے بین الاقوامی قوانین برائے مزدور کے طے شدہ اصولوں پر عمل نہیں کیا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی تھیں کہ اس نے مزدوروں کو مناسب معاوضہ بھی ادا نہیں کیا ہے۔ لیکن صرف وہی لوگ جن کو اس کے بارے میں شکایت کرنی چاہئے وہ وہ ممالک ہیں جہاں سے ایسے مزدور لائے گئے تھے: نیپال، ہندوستان، بنگلہ دیش وغیرہ۔ اطلاعات ہیں کہ تقریباً 650 مزدور، جن میں سے زیادہ تر ان ممالک سے تھے، ایک دہائی تک چلنے والی تعمیراتی کام کے دوران ہلاک ہوئے ہیں۔ صرف ایک یورپ بچتا ہے جسے ان مسائل کو اٹھانا چاہیے، لیکن عراق اور دنیا کے دیگر حصوں میں لاکھوں افراد کو کی زندگیاں تباہ و برباد کرنے کے بعد تو اب ان سے یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ بلکہ بہتر ہوگا کہاپنے ہاتھوں سے انہوں نے پوری دنیا میں جو انسانی تباہی مچائی ہے اسی کے خوفناک ریکارڈ پر توجہ دیں۔

 قطر، اور خطے کے دیگر ممالک کو ایک وجودی مخمصے کا سامنا ہے۔ اور اس کا تعلق تیل ختم ہونے کے بعد ان کے اپنے مستقبل سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اپنی معیشتوں کو وسعت دے رہے ہیں، اور تیل کی آمدنی پر انحصار کم کر رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اب خود کو خطے کے مالیاتی مرکز میں تبدیل کر ہی چکا ہے۔ سعودی ان کی تقلید کر رہے ہیں اور معیشت کو پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن معیشت ہوا میں کھڑی نہیں ہوتی۔ اسے پنپنے اور پھلنے پھولنے کے لیے ایک نظریاتی ڈھانچے کی ضرورت ہوتی ہے۔ معاشی پالیسیوں میں تبدیلی اکثر سماجی اور مذہبی طور طریقوں میں تبدیلیوں کے ساتھ آتی ہے۔ سعودیوں کی جانب سے ہالووین کا اہتمام یہ جانچنے کے لیے کیا گیا تھا کہ آیا ملک اس طرح کی تبدیلیوں کے لیے تیار ہو رہا ہے یا نہیں اور اگر وہ اس طرح کی مزید 'غیر اسلامی' تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں تو اس سے ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے۔

 قطر کے ورلڈ کپ کے لیے بولی لگانے اور بالآخر اسے جیتنے کی بہت سی وجوہات تھیں، لیکن معیشت شاید سب سے بڑی وجہ تھی۔ ایک بار پھر قطر متنوع بننا چاہتا ہے اور تیل پر انحصار سے نکلنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ، ان کی اس میں دلچسپی جغرافیائی و سیاسی وجوہات کی بنا پر بھی تھی۔ فٹبال کی دنیا کا مرکز بن کر اس نے سعودی عرب جیسے بڑے بھائیوں کو یہ دکھا دیا کہ ان کی پابندی واقعی کسی کام کی نہیں۔ آج پورا مشرق وسطیٰ قطر میں ہے، ورلڈ کپ سے لطف اندوز ہو رہا ہے اور شاید اس دن پر افسوس کر رہا ہے جب انہوں نے اس چھوٹے سے ملک کو مالی طور پر گھیرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن پھر، کیا متنوع معیشت ثقافتی اور مذہبی میدان میں ہونے والی تبدیلیوں سے محفوظ رہ سکتی ہے؟ قطر کے پاس دنیا کو یہ دکھانے کا موقع تھا کہ ان کا اسلام لچکدار ہے۔ لیکن یہ موقع شاید انہوں نے کھو دیا ہے۔

 پہلے ذاکر نائیک جیسے شخص کو مہمان خصوصی بنا کر (مبینہ طور پر وہاں جمع ہونے والے لوگوں کو اسلام کی تبلیغ کرنے کے لیے)، قطر بدقسمتی سے دنیا کو یہ بتا رہا ہے کہ وہ اب بھی تمام مذاہب پر اسلام کی بالادستی پر یقین رکھتا ہے۔ آخر اس شخص کو کیوں دعوت دی جائے جس نے اسلام کی بالادستی کو اپنا عقیدہ بنا لیا ہے اور مسلسل یہی بات کی ہے کہ اسلام کے علاوہ باقی تمام مذاہب باطل ہیں۔ یہ مبلغ ہندوستان اور برطانیہ میں مطلوب ہے، بنیادی طور پر اس لیے کہ اس نے مسلمانوں کو (حالانکہ صرف چند ہی کو) اپنے مذہب کے دفاع میں دہشت گردی اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے۔ ایسے شخص کو دعوت دے کر قطر بنیادی طور پر ذاکر نائیک کے اسلام پسند موقف کی تائید کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ، قطر کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ پہلا ملک تھا جس نے بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما کی 'نفرت انگیز تقریر' پر ہندوستان کی مذمت کی تھی، جب اس نے پیغمبر کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے تھے۔ اس کے بعد قطر نے ہندوستان کو مذہبی رواداری اور تکثیریت کی اقدار کا حامل بننے کی تعلیم دی تھی۔ لہذا ہمیں ذاکر نائیک کی اس دعوت سے کیا سمجھنا چاہیے جس کی موجودگی ہندومت سمیت دیگر مذہبی روایات کی توہین ہے۔ تو کیا قطر دنیا کو بتا رہا ہے کہ مذہبی تکثیریت وغیرہ کی قدروں کا احترام صرف اس وقت کیا جانا چاہیے جب اسلام کی بات ہو؟

 ثانیاً، قطری حکام کی طرف سے الکحل (بنیادی طور پر بیئر) پر پابندی کے فیصلے پر بھی کافی باتیں ہو رہی ہیں۔ بہت سے مسلمانوں نے یہ دلیل دے کر اس فیصلے کی حمایت کی ہے کہ ایک خودمختار ملک ہونے کی حیثیت سے، قطر کو اپنی روایات پر عمل کرنے کا اختیار حاصل ہے؛ اس معاملے میں بیئر کو اسٹیڈیم سے دور رکھنے کا۔ تاہم، انہی مسلمانوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے جب فرانس جیسا ملک برقع اور اسکارف پر پابندی کی اپنی سیکولر روایت کو نافذ کرتا ہے۔ بہت سے لوگ اس کو منافقت کہیں گے لیکن بات شاید کچھ اور ہی ہے۔ مسلمان بنیادی طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ اگرچہ انہیں اپنی روایت کو نافذ کرنے کے لیے آزاد ہونا چاہیے، لیکن غیر مسلم ثقافتوں کے پاس یہ اختیار نہیں ہے۔ ایک بار پھر، اسلام کی اس بنیادی بالادستی پر سوال اٹھانے کی ضرورت ہے، لیکن لگتا ہے کہ قطر نے اپنے عمل سے اس تصور کو مضبوط کیا ہے۔

 فٹ بال ورلڈ کپ ایک عالمی ایونٹ ہے اور مختلف ثقافتی اور مذہبی روایات سے تعلق رکھنے والے شائقین اس میں حصہ لیتے ہیں۔ ان کے نقطہ نظر کو جگہ نہ دینے سے انھیں اسلام اور مسلمانوں کی بیزاری کی یاد آئے گی۔ اور مسلم ثقافت کے اندر دوسری روایات کے لیے گنجائش پیدا کرنے کی تاریخی مثالیں موجود رہی ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں مسلمانوں نے ہمیشہ عیسائیوں اور ان کی شراب نوشی کو مستثنیٰ رکھا تھا۔ عثمانیوں کی ہمیشہ یہی دلیل رہی ہے کہ شراب نوشی پر پابندی صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ عیسائی روایت اس کے استعمال کی اجازت دیتی ہے اس لیے ہمیں اسے روکنا نہیں چاہیے۔ ایسا کیوں ہے کہ قطری حکام نے اس میگا ایونٹ کو مزید جامع بنانے اور زندگی کے دیگر طور طریقوں کو قبول کرنے کی اس تاریخی ترجیح کو کیوں برقرار نہیں رکھا؟ قطر کے LGBTQ+ حقوق کے بارے میں جتنا کم کہا جائے، اتنا ہی بہتر ہوگا۔ یہ افسوسناک بات ہے کہ فٹ بال کے بے شمار شائقین نے جو ایسی کمیونٹیز سے آتے ہیں قطر کا سفر کرنے کے خلاف فیصلہ کیا کیونکہ وہا ہم جنس پرستی کے خلاف سخت قوانین ہیں۔

 افتتاحی تقریب بھی مختلف طریقوں اور ثقافتوں اور روایات کو ظاہر کرنے کا موقع تھا جن سے ملک کی تعمیر ہوئی ہے۔ قطری اپنے ہی ملک میں اقلیت ہیں، لہٰذا مہمان کارکنوں نے ہی قطر کو دنیا کا امیر ترین ملک بنایا ہے۔ زیادہ تر عرب ممالک کی طرح انہیں شہریت کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ کم از کم وہ یہ کر سکتے تھے کہ ان کارکنوں کو عزت اور خراج عقیدت پیش کرتے جو یکسر مختلف مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

 افتتاحی تقریب کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے ہوا جس میں تکثیریت کا جشن منایا جاتا ہے لیکن افسوس کہ منتظمین اس کے پیغام کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکے۔

English Article: How Qatar Lost the Chance to Showcase Islamic Pluralism

URL:  https://www.newageislam.com/urdu-section/qatar-world-cup-islamic-pluralism/d/128478

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..