New Age Islam
Sun Jun 22 2025, 10:13 AM

Urdu Section ( 16 Dec 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Protecting the Religious and Cultural Identity of Muslims Is the Most Important Issue of the Time-Part-1 مسلمانوں کی دینی وتہذیبی شناخت کی حفاظت وقت کا اہم مسئلہ ہے

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

(پہلا حصہ)

15 دسمبر 2023

اس وقت ملک کے جو حالات ہیں اور مسلمان جس صورت حال سے دو چار ہیں، وہ دو پہر کی روشنی کی طرح واضح ہے، کہیں اسلامی شعائر کی اہانت، کہیں مسلم نوجوانوں کی ماب لنچنگ، کہیں مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ اور کہیں دوسرے رسوا کن واقعات پیش آرہے ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر وہ نفرت انگیز پروپیگنڈہ ہے، جس کے ذریعہ برادران وطن کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف آگ سلگا ئی جارہی ہے۔ عدم  برداشتگی کا ماحول پروان چڑھ رہا ہے اور منظم طور پر اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ پوری گہرائی کے ساتھ اس صورت حال کو سمجھا جائے اور مسلمانوں کیلئے درست لائحۂ عمل کی نشاندہی کی جائے۔ اسلامک فقہ اکیڈمی کا موضوع تو دورِ جدید میں پیدا ہونے والے فقہی مسائل کا حل ہے؛ لیکن فکری پہلو سے مسلمانوں کو جو مسائل در پیش ہیں، اکیڈمی نے ہمیشہ ان میں بھی رہنمائی کی کوشش کی ہے۔ غور کیا جائے تو اس سیمینار کے عناوین میں جو ’’تشبہ‘‘ کا موضوع رکھا گیا ہے، وہ اس پہلو سے بڑا اہم ہے، جو موجودہ حالات میں اپنی ملی وتہذیبی شناخت کی حفاظت کی طرف متوجہ کر رہا ہے۔

تمل ناڈو میں منعقدہ اسلامک فقہ اکیڈمی کے دوروزہ سمینار میں تشبہ سے متعلق مسائل پر گفتگو کی گئی۔۔ تصویر : آئی این این

---------

مذہبی شدت پسندی اور مخالف فکر کو برداشت نہ کرنے کا جذبہ انسان کو اس طرف لے جاتا ہے کہ وہ دوسرے نظریہ کو ختم کر دے۔ اس کی سب سے خطرناک صورت یہ ہے کہ دوسری فکر پر یقین رکھنے والوں کو مذہب بدلنے پر مجبور کر دیا جائے، اور نہ ماننے کی صورت میں کوئی رحم کھائے بغیر تہہ تیغ کر دیا جائے۔ اس کی مثال قدیم تاریخ میں بھی ملتی ہے۔ قرآن مجید میں کم از کم اس طرح کے دو واقعات پوری وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں، ایک یہ کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو عقیدۂ توحید سے روکنے کیلئے نسل کشی کی تدبیر اختیار کی کہ بنی اسرائیل میں جو بھی بیٹا پیدا ہوتا، اسے قتل کر دیا جاتا۔ نہ جانے کتنے بچے فرعونِ وقت کے اس ظالمانہ حکم کا شکار ہوئے (تفسیر السمعانی: بقرہ)۔

اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ جو مذہبی منافرت کی بناء پر تشدد اور بے برداشت ہونے کا ہے، وہ ہے جسے ’’اصحاب اخدود‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ حق پرست عیسائیوں کا واقعہ ہے، جن کو جیتے جی نذر آتش کرنے کیلئے ایک بڑی کھائی کھودی گئی اور کم وبیش۲۰؍ ہزار افراد اس میں زندہ جلا دئیے گئے۔ (قصص القرآن:۳) اسلام کے ابتدائی دور میں بھی بعض ایسے واقعات پیش آئے، جن میں بئر معونہ کے واقعہ میں ستر حفاظ صحابہ کی شہادت کا واقعہ ناقابل فراموش ہے (صحیح البخاری، کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع وبئر معونۃ)۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک رومی سردار نے کئی مسلمانوں کو توحید پر قائم رہنے کے جرم میں کھولتے ہوئے تیل کی کڑاہی میں ڈال دیا؛ مگر ان کے پایۂ استقامت میں جنبش تک نہیں آئی۔ ( شعب الایمان للبیہقی)

اہل یورپ میں مذہبی شدت پسندی بہت زیادہ تھی، دنیا کی آنکھوں نے ماضی قریب تک اس کی مثالیں بار بار دیکھی ہیں، انہوں نے سرد جنگ میں فتح پانے کے بعد فلسطین میں جو مظالم ڈھائے، وہ تاریخ کا ایک خونچکاں باب ہے۔ پھریہ شدت پسند عیسائی ہی تھے، جنہوں نے یہودیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کیلئے ہولوکاسٹ کیا، اور بے شمار یہودی گیس کے چیمبروں میں ایک ایک قطرۂ آب کو ترستے ہوئے مار ڈالے گئے (مرگ انبوہ، دائرۃ المعارف برٹانیکا)۔ یہ مغرب ہی ہے جس نے اندلس کے مسلمانوں کو دھوکہ دے کر سمندر میں غرق کر دیا اور اپنے عہد کا کوئی پاس نہیں رکھا اور ہزاروں مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے شہید کر دیا؛ کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ اسپین سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹ جائے۔ ( خلافت اندلس نواب ذوالقدر جنگ بہادر)۔

 مغرب نے سائنس و ٹیکنالوجی کی طاقت حاصل کی اس کو بھی انہوں نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنے مخالفین کو بے نام ونشان کرنے کیلئے استعمال کیا، جس کی مثال دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے دو آباد اور بھرے پُرے شہروں  ہیرو شیما اور ناگاساکی پر نیوکلیئر بم کی بارش ہے، جس نے لاکھوں لوگوں کو لقمۂ اجل بنا دیا۔ دور کیوں جائیں، بوسنیا کے قتل عام کا تصور کیجئے اور شام اور عراق  کے  شہداء کو یاد کیجئے کہ کس طرح خون انسانی کی ارزانی کا تماشہ مشرق سے لے کر مغرب تک ساری دنیا نے دیکھا، غرض کہ کسی مذہب کی پیش قدمی یا کسی قوم کی بالادستی کو روکنے کیلئے تشدد کی بہت قدیم تاریخ رہی ہے۔

کسی مذہبی گروہ کو ختم کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ فکری وتہذیبی طور پر ان کو اپنے وجود میں جذب کر لیا جائے، اس کی واضح مثال موجودہ عیسائیت ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی ٔبرحق تھے۔ انہوں نے انسانیت کو توحید کی دعوت دی تھی؛ مگر یہودیوں نے ان کے متبعین پر بڑے مظالم ڈھائے، یہاں تک کہ وہ فلسطین سے نکل کر مختلف جگہوں پر بھٹکنے پر مجبور ہوگئے۔ عیسائیوں پر جوروستم کیلئے اُکسانے والوں میں سے ایک اہم شخصیت راسخ العقیدہ یہودی پولس (POLUS ) کی تھی، جو سینٹ پال کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نے جب دیکھا کہ تشدد کا ہتھیار کام نہیں آرہا ہے تو اس نے عیسائیت پر فکری پہلو سے شب خوں مارا۔ اس زمانہ میں دنیا کی مختلف قومیں تثلیث، یعنی تین خداؤں کا عقیدہ رکھتی تھیں۔ روم ویونان میں بھی تثلیث کا تصور موجود تھا۔

سینٹ پال نے مخلصانہ یا منافقانہ طور پر عیسائیت قبول کرنے کے بعد عیسائیت کو روم و یونان میں مقبول بنانے کیلئے اس کو تثلیث کے سانچے میں ڈھال دیا اور اس کیلئے باپ، بیٹا اور روح القدس کی اصطلاح ایجاد کی، جس کی خود انجیل میں کوئی صراحت نہیں ہے۔ آخر عیسائیت کا وجود ہمیشہ کیلئے تثلیث میں گم ہو کر رہ گیا۔ اگر قرآن مجید نے اس حقیقت کو واضح نہیں کیا ہوتا، تو شاید کبھی اس جھوٹ سے پردہ نہیں اٹھ پاتا۔ اسی طرح جب رسولؐ اللہ اس دُنیا میں تشریف لائے اور آپؐ نے اہل مکہ کو بُت پرستی سے باز آنے اور ایک خدا کی عبادت کرنے کی دعوت دی تو پہلے تو انہوں نے طاقت کے ذریعہ اس کو ختم کرنے کی کوشش کی؛ لیکن جب ان کو اندازہ ہوگیا کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے تو صلح کا ایک فارمولہ پیش کیا،  وہ یہ کہ ہم لوگ بھی مسلمانوں کے خدا کو تسلیم کر لیں اور اس کی عبادت کریں اور مسلمان بھی ہمارے معبودو ں کو خدا مان لیں اور وہ بھی ان کی پرستش کر یں، نیز ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں کیلئے ایک ایک سال مقررکر لیں، ایک سال ہمارے معبودوں کی عبادت کا  اور ایک سال مسلمانوں کے خدا کی عبادت کا ہو۔ اسی پس منظر میں ’’سورۂ کافرون‘‘ نازل ہوئی (روح المعانی :۵۱؍ ۵۸۴)۔ یہ بظاہر صلح کی ایک کوشش تھی؛ صلح کا یہ فارمولہ مسلمانوں کو اپنے وجود میں جذب کرنے کی سازش تھی۔ قرآن مجید میں صاف طور پر اس نقطۂ نظر کو رد کر دیا گیا اور واضح کر دیا گیا کہ توحید اور شرک دو متضاد چیزیں ہیں، یہ ایک شخص میں جمع نہیں ہو سکتیں، ممکن نہیں کہ ایک انسان بیک وقت ایک خدا کی بھی عبادت کرے اور بہت سارے خداؤں کی بھی۔

 اس پس منظر میں اگر ہم اپنے ملک کی تاریخ کو دیکھیں تو واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ موجودہ ہندوتوا  کی ترجمانی کرنے والا گروہِ برہمن بہت ہی گہری اور شعوری کوششوں کے ساتھ مخالف نقطۂ نظر کو اپنے راستے سے ہٹا کر اس کو مشرکانہ سوچ میں ضم کرنا چاہتا ہے۔ بودھ  اصل میں توحید کے قائل تھے اور خدا کو ’’علۃ العلل‘‘ اور کائنات کا اصول اول قرار دیتے تھے، گوتم بدھ کی اصل دعوت برہمنوں کے اس تصور کو ختم کرنا تھا کہ پیدائشی طور پر کوئی انسان برتر اور کوئی کمتر ہے، برہمنوں کی من گھڑت رسموں سے نجات حاصل کرنا بودھ کی بنیادی تعلیمات کا حصہ تھی؛ اسی لئے برہمنیت کی طرف سے  اس فرقہ کو ناستک، یعنی ملحد قرار دیا گیا۔ برہمنوں نے ان کے مندر توڑ ڈالے، ہزاروں لوگوں کو قتل کر ڈالا۔ جب راجہ اشوک نے بودھ مذہب قبول کیا تو یہ اس خطہ کا غالب اور مقبول مذہب بن گیا اور یہاں سے چین، جاپان، سری لنکا، کوریا، ویتنام اور تھائی لینڈ تک پھیل گیا۔ لیکن بالآخر ہوا یہ کہ جب راجہ کنشک تخت حکومت پر بیٹھا تو اس نے مہاتما بودھ کو خدا کا اوتار مان کر لوگوں کو ان کی مورتی کی پوجا کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس طرح ایک ایسا مذہب جس کی بنیاد اللہ کی توحید اور انسان کی وحدت پر تھی ، شرک کے رنگ میں رنگ گیا۔ اب گوتم بودھ کی پرستش بودھ سماج کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے، اور اُن کی بڑی بڑی مورتیاں بنائی جا رہی ہیں، یہاں تک کہ آج ہمارے ملک میں بودھ ہندو سماج کا حصہ بن گئے ہیں، اور بڑی چالاکی کے ساتھ ملک کے دستور میں بھی ان کو ہندو قرار دے دیا گیا ہے۔ اسی کی ایک مثال جین مت ہے، جو ایک بڑا فلسفیانہ مذہب ہے، اس کے دو بڑے فرقے ہیں، ایک دگامبر جو بے لباس رہتے ہیں، دوسرے: شوتامبر جو سفید کپڑے استعمال کرتے ہیں، یہ دونوں بنیادی طور پر بت پرستی کے مخالف ہیں، اس قوم کو مجسمہ سازی کے فن میں امتیاز حاصل رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ایلورا اجنتا کے مندر ان ہی کی فنکاریوں کا نمونہ ہیں۔ جینیوں کو بھی آہستہ آہستہ مشرکانہ رنگ میں رنگ دیا گیا اور خود مہاویر جین کی مورتی پوجا پر ان کو آمادہ کر لیا گیا۔ آج یہ بھی ہندو سماج کا حصہ بن چکے ہیں۔

 اسی کی ایک مثال سکھ مت ہے، اس مذہب کے بانی گرونانک جی کا زمانہ زیادہ دور نہیں ہے، وہ ۱۴۶۹ء میں پیدا ہوئے، وہ شروع سے توحید پر عامل تھے، اور بت پرستی سے دور رہتے تھے، انہوں نے جو مُول منتر، یعنی بنیادی کلمہ سکھایا، اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ خدا ایک ہے، اس کا نام سچ ہے، وہی قادر مطلق ہے، وہ بے خوف ہے، اسے کسی سے دشمنی نہیں ہے، وہ ازلی وابدی ہے، بے شکل وصورت ہے، قائم بالذات ہے، (ہندوستانی مذاہب، ڈاکٹر رضی کمال ص: ۳۶)۔ یہ تحریک در اصل برہمنی رسوم ورواج کو ختم کرنے کیلئے شروع ہوئی تھی؛ اسی لئے سکھوں کے چوتھے گرو رام داس نے شادی اور مرنے کی رسوم ہندو مذہب سے الگ مقرر کیں، ستی کی رسم کی مخالفت کی اور بیواؤں کی شادی پر زور دیا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گرونانک جی اسلام سے زیادہ متاثر تھے، انھوں نے پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا، روزہ رکھنے کی تلقین کی، ختم نبوت پر ایمان لانے کو کہا، رسولؐ اللہ کی اپنے کلام میں جا بجا ستائش کی اور اسلامی تعلیمات کو سراہا؛ مگر افسوس کہ سیاسی اختلافات اور اس سے پیدا ہونے والے جنگ و جدال نے ان کو مسلمانوں سے دور کر دیا؛ اسی دوران سکھ سماج کو موجودہ ہندو سماج کا حصہ بنانے کی کوشش شروع ہوئی اور سکھوں کے انکار کے باوجود بہت ہی ڈھٹائی کے ساتھ دستوری طور پر ان کو بھی ہندوؤں میں شامل کر لیا گیا۔ (جاری)

15 دسمبر 2023 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/protecting-religious-cultural-muslims-part-1/d/131321

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..