New Age Islam
Sat Oct 12 2024, 11:39 AM

Urdu Section ( 16 Jul 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Prophet’s Umrah before the Conquest of Mecca فتح مکہ سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمرہ

 ارشد عالم، نیو ایج اسلام

 15 جولائی 2022

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کا طواف اس وقت کیا جب اس کے اندر بت نصب تھے

 اہم نکات:

 1. عید الاضحی ابراہیم علیہ السلام کی اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کی یاد ہے۔

 2. علماء نے اس تہوار کو اس طور پر سمجھا ہے جس کی بنیاد پر بہت سی ماقبل اسلام کی رسومات اسلام کا حصہ بن گئیں۔

 3. پیغمبر کو بت پرستی کے خلاف سمجھا جاتا ہے لیکن انہیں اس حال میں بھی خانہ خدا کا طواف کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا جب اس کے اندر بت رکھے ہوئے تھے ۔

 4. کیا یہ محض حکمت عملی تھی یا پیغمبر اسلام اپنے پیروکاروں کو کوئی اور پیغام دے رہے تھے؟

 -----

 عید الاضحی (بقرعید) کے متعلق روایتی مسلمانوں کی روایت یہ ہے کہ یہ اللہ اور ابراہیم علیہ السلام کے درمیان معاہدے کی یادگار ہے۔ اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو وہ چیز قربان کرنے کا حکم دیا جو کہ ان کے لیے سب سے اہم اور عزیز ہے، اس پر ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بڑے بیٹے اسماعیل کو ذبح کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے 'بندے' کی محبت سے متاثر ہو کر، اللہ نے ان کے بیٹے کا فدیہ 'عظیم قربانی' سے ادا کیا [Q37: 100-102]۔ یہی روایت تورات میں بھی نمایاں فرق کے ساتھ ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے کہ یہودی روایت کے مطابق چھوٹے بیٹے اسحاق کو باندھ کر قربان کیا گیا تھا۔ چونکہ اسلام کا مقصد خود کو یہودی-مسیحی نظریہ سے جوڑنا تھا، اس لیے اسلام نے اس کہانی کو اپنی ایک روایت کے طور پر بیان کیا۔ ابراہیم مسلمان ہو گیا اور انسانی قربانی کا یہ سارا ڈرامہ مکہ میں پیش آیا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ حج خدا کے لیے باپ بیٹے کی اندھی محبت اور اطاعت کی یاد ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہودی دنیا کے اکثر لوگوں نے کبھی بھی ابراہیم اور ان کی قربانیوں کی تقلید نہیں کی، لیکن مسلمان اس پر اس طرح قائم رہے جیسے یہ ان کی اصل روایت ہو۔

 جہاں پوری مسلم دنیا ابراہیم کی اطاعت سے متاثر ہے، وہیں دہشت گرد اسماعیل کی 'اخلاقی قربانی' سے متاثر ہیں کیونکہ قتل پر ان کی رضامندی کے بغیر یہ ساری رسم رائیگاں چلی جاتی۔ اس فرق کو واضح کرنا ضروری ہے کہ ابراہیم تو اللہ کے حکم کی تعمیل کر رہے تھے، لیکن ان کا بیٹا اپنے باپ، جو کہ ایک انسان کی خاطر اپنی جان دے رہا تھا۔ مؤرخ فیصل دیوجی کا کہنا یہ ہے کہ انفرادی خودی کی یہ خود سپردگی، یعنی ایک "بڑی نیکی" کے لیے خود کو فنا کر دینے کا جذبہ ہی ہے جس کی بنا پر بہت سے دہشت گرد گروہ اسماعیل کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔

کوئی بھی مذہب سماجی یا نظریاتی خلا میں پیدا نہیں ہوتا۔ اور اگرچہ اسلام مستقل طور پر خود کو یہودیت اور عیسائیت کی تکمیل قرار دیتا ہے، لیکن اس کی سماجی افادیت بھی شرک یا بت پرستی سے ہی متعلق ہے۔ اگرچہ افسانوی طور پر، اسلام خود کو پہلا مذہب اور آدم کو پہلا مسلمان قرار دیتا ہے، لیکن تینوں روایات (یہودیت، عیسائیت اور بت پرستی) نے اسلام کو بنیادی طور پر متاثر کیا ہے۔ مثال کے طور پر علماء اسلام نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کس طرح حج میں اسلام سے پہلے کی متعدد غیر اسلامی معمولات شامل ہیں، مثلاً حجر اسود کو چومنا، صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑنا اور جانوروں کی قربانی وغیرہ۔ تاہم، روایتی اسلامی تاریخ میں ایک واقعہ ایسا بھی ہے جس پر مزید بحث کی ضرورت ہے۔ اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا فتح مکہ سے پہلے عمرہ کرنے کا واقعہ ہے۔

 مختلف اسلامی ذرائع سے ہمیں معلوم ہے کہ کعبہ کے اندر بت نصب تھے (کچھ کہتے ہیں کہ اس میں سے 360 بت تھے)۔ ایسے واقعات بھی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ کی دیواروں پر مریم اور عیسیٰ کی تصویریں بھی موجود تھیں۔ روایت بتاتی ہے کہ جب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو آپ نے تمام بتوں کو پھینک دیا اور اس طرح کعبہ کو اس کے مشرکانہ ماضی سے پاک کر دیا۔ مکہ کے قرب و جوار میں اور بھی بت اور کعبے تھے جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح حکم پر منہدم کر دیا گیا۔ تاہم یہ سب کچھ 630 میں فتح مکہ کے بعد پیش آیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کعبہ میں وہ تمام بت رکھے ہوئے تھے اور  طواف کرنے کا مطلب ان بتوں کے گرد گھومنا بھی تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے ایک سال بعد 629 میں عمرہ فرمایا۔

ابتدائی اسلامی تاریخ کے مؤرخین الطبری کا کہنا ہے کہ 628 میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ 70 اونٹوں کے ساتھ حج کے ارادے سے مکہ روانہ ہوئے۔ تاہم، اس بار قریش مکہ قریش نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کو اس کی اجازت نہیں دی۔ اس کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جس کے تحت نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کو آئندہ سال حج کرنے کی اجازت ملی۔ اور یہی وجہ ہے کہ 629 کے عمرہ کو 'حج کی تکمیل' کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا مقصد معاہدہ میں کیے گئے عہد کو پورا کرنا تھا۔ اس عمرہ میں جانوروں کی قربانی کی صحیح نوعیت پر کوئی اتفاق نہیں ہے۔ ابن اسحاق (الطبری میں) کے مطابق، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے پاس اونٹ نہیں تھے بلکہ انہوں نے مویشی ذبح کیے، جب کہ ایک اور روایت (طبری میں) ہے کہ وہ اس کے لیے اپنے ساتھ 60 فربہ اونٹ کی کر گئے تھے۔

جس بات پر کوئی اختلاف نہیں وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ طبری نے ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے کہ: "جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنی چادر اپنے داہنے بازو کے نیچے ڈالی اور اس کا نچلا حصہ اپنے بائیں کندھے پر ڈال دیا، جس سے آپ کا دائیں بازو بے پردہ ہو گیا۔ …… اپ نے کونے میں موجود پتھر کو چھوا اور طواف کرنے لگے، اپ کے صحابہ بھی آپ کے ساتھ اسی رفتار سے طواف کر رہے تھے۔ پھر جب خانہ کعبہ نے آپ کو لوگوں (قریش) سے چھپا لیا اور آپ نے جنوبی کونے کو چھو لیا آپ چلتے رہے یہاں تک کہ اس نے حجر اسود کو چھو لیا، پھر اسی انداز میں جلدی جلدی تین چکر پورے کیے۔ آپ نے بقیہ طواف پیدل کیا۔" [تاریخ الطبری، جلد 8، 134-135]۔

 اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ ماقبل اسلام قریش کعبہ کی دیواروں کو قربانی کے جانوروں کے خون سے رنگا کرتے تھے۔ خانہ کعبہ کے باہر بھی بت رکھے ہوئے تھے اور وہاں قربانیاں بھی کی جاتی تھیں۔ کسی روایت میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ نے حج کی مناسک ادا کرنے سے پہلے اس جگہ کو صاف کرنے کی کوشش کی ہو۔ قریش مکہ، معاہدہ کے تحت تین دن کے لیے شہر سے نکل گئے۔ وہ پہاڑیوں پر گئے اور وہاں سے مسلمانوں کے حج کو دیکھا۔ ان کی نظر میں مسلمانوں کی حج کی رسم ان کی اپنی رسموں سے زیادہ مختلف نہیں معلوم ہوتی تھی۔

 بخاری اور مسلم میں درج روایات بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمرہ 629 میں ادا کیا جو کہ کعبہ سے 360 بت ہٹائے جانے سے پہلے کا وقت ہے۔ بتوں کو ہٹائے جانے سے پہلے مسلمانوں نے یہ رسم کیوں ادا کی اس کے بارے میں انٹرنیٹ کی تلاشی کرنے پر کوئی جواب پانا بڑا مشکل امر ہے۔ اس کا صرف ایک جواب Islamweb.net پر ملا جو کہ اس طرح ہے "کعبہ کے اندر یا اس کے ارد گرد بتوں کا موجود ہونا ایزی کوئی رکاوٹ نہیں ہے جس سے عمرہ میں کوئی خلل واقع ہو، خاص طور پر اس وقت جب صحابہ کرام انہیں منہدم کرنے کے قابل نہیں تھے کیونکہ اس وقت مکہ مکرمہ کفار قریش کے قبضے میں تھا۔" جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ "چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا اور طواف اور سعی کی (ان حالات میں)، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جائز ہے، لہٰذا یہ پوچھنا کوئی اچھی بات نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا" [ www.islamweb.net/en/fatwa/184641/why-the-muslims-made-umrah-before-the-conquest-of-makkah

اس کا جواب سے دو دعوے سامنے آتے ہیں: اول یہ کہ اس وقت مسلمان بتوں کو تباہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اس لیے انہوں نے سمجھوتہ کیا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر وہ طاقتور ہوتے تو سب سے پہلے بتوں کو تباہ کرتے جیسا کہ آخر کار فتح مکہ کے بعد ہوا۔ یہ مذہبی بقائے باہمی یا تکثیریت کے لیے کقئی اچھی بات نہیں۔ دوم، اس جواب میں مسلمانوں سے یہ کہا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل اور اس کی ممکنہ تشریحات کے بارے میں بہت زیادہ سوالات نہ پوچھے جائیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں سارا زور پریشان کن سوالات سے بچنے پر ہے جو کہ کسی بھی معاشرے کی فکری نشوونما کے لیے کوئی اچھی بات نہیں ہے۔

 اس لیے ایک واضح سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلامی توحید کے پیغام کے نازل ہونے کے بعد بتوں کے گرد گھومنا اور پھر اسے مسلمانوں کا ایمانی مظاہرہ قرار دینا درست تھا؟ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا تو پھر عصر حاضر کے علماء مشرکین اور توحید پرستوں کے ایک ساتھ رہنے کی مذمت کیوں کرتے ہیں؟ اس کے علاوہ، کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اسلامی تاریخ کا وہ حصہ جو ہمیں بتاتا ہے کہ اسلام اسی دن قائم ہو گیا تھا جب جبرائیل نے نبی سے بات کی تھی، اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ بلکہ جو چیز عقل سے قریب معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام دھیرے دھیرے قائم ہوا اور جسے آج ہم اسلام کے نام سے پہچانتے ہیں اس میں مذہبی اور سیاسی اثرات کا کافی دخل ہے۔

English Article: The Prophet’s Umrah before the Conquest of Mecca

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/prophet-umrah-conquest-mecca/d/127496

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..