مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
29 اکتوبر،2021
مزدوروں کے ساتھ مالکین
اور ذمہ داروں کا کیا سلوک ہونا چاہئے ؟ اس سلسلہ میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ وہ
تمہارے بھائی ہیں : إنھم اخوانکم
(ردالمحتار : ۳؍۳۸۰) یعنی ان سے سلوک حاکمانہ
نہیں بلکہ برادرانہ ہونا چاہئے ، قرآن میں حضرت شعیب علیہ السلام کی بحیثیت آجر
یہ صفتیں بیان کی گئی ہیں :’’میں تم کو
تکلیف دینا نہیں چاہتا ، ان شاء اللہ تم مجھے صالح و نیک پاؤگے ۔‘‘ (القصص : ۲۷)گویا آجر کا سلوک مزدور
کے ساتھ ایسا ہوا کہ اس کو تکلیف اور کسی بھی طرح کی ذہنی ، جسمانی یا عملی مشقت
نہ ہو اور اس کے ساتھ نیک سلوک روا رکھے ، حضور ﷺکی حیاتِ طیبہ میں ہمیں اس کا
عملی نمونہ ملتا ہے۔خدام و ملازمین کی تکریم اور دل جوئی کے لئے آپ ﷺنے بہت سی
ہدایات دی ہیں ؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا :
آجرکا سلوک مزدور کے ساتھ
ایسا ہوا کہ اس کو تکلیف اورکسی بھی طرح کی ذہنی، جسمانی یاعملی مشقت نہ ہو۔ تصویر:
آئی این این
----
جب تم میں سے کسی کا خادم
اس کے لئے کھانا بنائے ، پھر کھانا لے کر اس کے پاس آئے ، جس نے اس کی تپش اور
دھواں برداشت کیا ہے ، تو چاہئے کہ اس کو اپنے پاس بیٹھاکر کھلائے ، پھر اگر کھانے
کی مقدار کم ہو تو لقمہ دو لقمہ اس کے ہاتھ میں رکھ دے ۔ (مسلم ، عن ابی
ہریرہؓ )اس ارشاد میںنہ صرف مالی حسنِ
سلوک کی تعلیم ہے ؛ بلکہ خدام و ملازمین کے اکرام کی بھی ہدایت ہے۔ملازمین اور
مزدوروں کے ساتھ توقیر و تکریم ہی کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ ﷺبہ نفس نفیس ان کے
جنازہ میں شرکت فرمایا کرتے تھے ، اس کا اس درجہ اہتمام تھا کہ ایک سیاہ فام خاتون
مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھیں ، چند دنوں آپ کو نظر نہیں آئیں ، آپ ﷺنے ان کے
بارے میں دریافت کیا تو بتایا گیا کہ ان کی وفات ہوگئی ہے ، آپ ﷺنے استفسار کیا ،
تم لوگوں نے مجھے کیوں اطلاع نہیں کی ؟ آپؐ
کو یہ بات ناگوار ہوئی ، آپ ؐنے فرمایا : گویا لوگوں نے اس کے معاملہ کو
حقیر سمجھا ۔پھر ارشاد ہوا : مجھے اس کی قبر بتاؤ ، آپ کو قبر بتائی گئی ، آپ
بہ نفس نفیس تشریف لے گئے اور قبر ہی پر نماز جنازہ ادا فرمائی ۔ (مسلم )
حسن سلوک ہی کا ایک عمل
یہ ہے کہ اگر خدام بیمار پڑجاتے تو آپ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے اور اس
میں مسلمان اور غیر مسلم کی بھی تفریق نہیں تھی ۔ مشہور واقعہ ہے کہ آپؐ کے خادموں میں ایک یہودی لڑکا تھا ، وہ
بیمار ہوا تو آپ ﷺاس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے ۔ (بخاری )
خادموں کے ساتھ کرم
فرمائی کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ بعض اوقات آپ خود ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے
، اس تشریف آوری کی خوشی ان کے لئے عید سے کم نہیں ہوتی تھی ، حضرت انسؓ راوی ہیں
کہ رسول اللہ ﷺہمارے یہاں تشریف لائے ، اس وقت میں تھا ، میری والدہ تھیں اور میری
خالہ ’’ اُم حرام ‘‘ تھیں ؛ حالاںکہ نماز کا وقت نہیں تھا ؛ لیکن آپؐ کا حکم ہوا کہ کھڑے ہوجاؤ، میں تم لوگوں کو (نفل) نماز پڑھاؤں گا ؛ چنانچہ آپؐ نے نماز پڑھائی
، پھر تمام گھر والوں کے لئے دنیا اور آخرت کی ہر طرح کی بھلائی کی دُعا فرمائی ،
میری والدہ نے میرے بارے میں درخواست کی کہ اپنے اس چھوٹے خادم کے لئے بھی دُعا
فرما دیجئے ؛ چنانچہ آپ ﷺنے میرے لئے ہر خیر کی دُعا فرمائی اور اخیر میں کہا :
’’ اے اللہ ! اس کے مال واولاد میں کثرت پیدا فرما اور اس میں برکت بھی دے۔ ‘‘
آپ ﷺکے عمل سے ہمیں
معلوم ہوتا ہے کہ مقررہ اُجرت کے علاوہ بھی اپنے خادموں کی ضروریات کا خیال رکھنا
چاہئے اور استفسار کرتے رہنا چاہئے ، قبیلہ ٔبنو مخزوم کے ایک صاحب زیادؒ نقل کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے ایک خادم تھے ، آپؐ ان سے دریافت کرتے رہتے
تھے :کیا تمہاری کوئی ضرورت ہے ؟ (مسند احمد) آپ ﷺان کوآزادی دیتے تھے کہ جو بھی
مانگنا چاہیں مانگ لیں۔ ربیعہ بن کعب اسلمیؓ کا بیان ہے کہ میں آپ ﷺکے پاس رات
گزار رہا تھا، میں نے آپؐ کے وضو اورضرورت کے لئے پانی رکھا ، آپؐ نے فرمایا :
جو مانگنا چاہو مانگو ، میں نے عرض کیا : میرا سوال ہے جو میں نے عرض کیا : آپ
ﷺنے فرمایا پھر تو کثرت سے سجدہ کیا کرو ، (مسلم ) یعنی خوب نماز پڑھا کرو ۔بعض
دفعہ لوگ بلا جھجک اپنے ملازموں اور ماتحتوں پر الزام لگادیتے ہیں اور اس کو وضاحت
کا موقع تک نہیں دیتے ہیں ، آپ نے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔آپؐ نے تلقین
فرمائی کہ عفو و درگزر سے کام لیا جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک
صاحب بارگاہ نبویؐ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرا ایک خادم ہے جو غلطیاں
اورزیادتیاں کرتا ہے ، کیا میں اس کی پٹائی کرسکتا ہوں ؟ آپؐ خاموش رہے ، اس نے
دوسری بار اور پھر تیسری بار یہی سوال کیا ، بعض روایتوں میں ہے کہ دریافت کیا کہ
آخر کتنی بار معاف کروں؟ آپ ﷺنے فرمایا
: ہر دن ستر بار ، (ابوداؤد ، ترمذی
)ظاہر ہے کہ اس میں ۷۰؍
کی تحدید مقصود نہیں ہے ؛ بلکہ کثرت مقصود ہے ۔خود آپ ﷺکا معمول مبارک تھا کہ آپ
ﷺنے کبھی اپنے کسی خادم یا زوجہ پر ہاتھ نہیں اُٹھایا ، (مسلم عن عائشہ) آپؐ کے
خادم خاص حضرت انسؓ جو بہت کم عمری میں آپ ﷺکی خدمت میں آئے ، نقل کرتے ہیں کہ
حضور ﷺنے ایک دن مجھے ایک ضرورت کے لئے بھیجا ،میں نے کہا :’’میں نہیں جاؤںگا ‘‘
حالانکہ میرے دل میں تھا کہ میں جاؤں گا ؛ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے مجھے حکم فرمایا
ہے ، میں نکلا ، یہاں تک کہ میرا گزر کچھ بچوں پر ہوا، جو بازار میں کھیل رہے تھے
، اتنے میں دیکھتا ہوں کہ آپ ﷺنے پیچھے سے میری گردن پکڑ رکھی ہے ، میں نے دیکھا
تو آپؐ تبسم فرما رہے تھے ، آپؐ نے پوچھا : اے انس ! میں نے جہاں جانے کو کہا
تھا ، تم گئے تھے ؟ میں نے عرض کیا : ’’ جی ، اے اللہ کے رسولؐ ! میں جارہا ہوں۔
‘‘ (مسلم ، عن انسؓ)
اگر کوئی شخص اپنے غلام
/خادم پر ہاتھ اُٹھاتا تو آپ ﷺکو سخت تکلیف ہوتی ، حضرت ابو مسعودؓ نقل کرتے ہیں
کہ وہ اپنے غلام کو کوڑے سے مار رہے تھے ، میں نے اپنے پیچھے سے ایک آواز سنی ،
میں اس قدر غصہ میں تھا کہ آواز سن نہیں پایا ، جب یہ آواز دینے والا قریب آیا
تو میں نے دیکھا کہ یہ تو رسول اللہ ﷺہیں ، آپ فرمارہے تھے: ابو مسعود! جان لو ، ابومسعود ! سمجھ لو ،میں
نے اپنا کوڑا ہاتھ سے نیچے گرادیا ، پھر آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : ابو مسعود! اچھی
طرح جان لو ، تم کو اس غلام پر جتنی قدرت حاصل ہے ، اللہ تعالیٰ تم پر اس سے زیادہ
قادر ہیں۔ حضرت ابومسعودؓکہتے ہیں : میں نے عرض کیا : میں آج کے بعد کبھی کسی
غلام کو نہیں ماروں گا ، نیز یہ بھی کہا : اللہ کے رسولؐ ! یہ اللہ کی خوشنودی کے
لئے آزاد ہے ، آپ ﷺنے فرمایا : اگر تم ایسا نہیں کرتے تو دوزخ کی آگ کی لپیٹ
میں آجاتے۔ (مسلم )حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک صاحب رسول اللہ ﷺکے سامنے
آکر بیٹھے اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے کچھ غلام ہیں ، وہ مجھ سے جھوٹ
بولتے ہیں ، خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں ، میں بھی ان کو بُرا بھلا
کہتا ہوں اور مار پیٹ کرتا ہوں تو ان کے ساتھ میرا یہ رویہ کیسا ہے ؟ آپ ﷺنے جواب
دیا : ان کی خیانت ، نافرمانی اور جھوٹ اور تمہاری طرف سے ان کی سزا کا حساب کیا
جائے گا ، اگر دونوں برابر ہوں ، تو نہ تم کو ثواب ہوگا نہ عذاب ، اگر تمہاری طرف
سے سرزنش غلطی کے مقابلہ کم ہوگی تو تم کو ثواب ہوگا اور اگر سزا غلطی سے بڑھ گئی
تو تم سے بدلہ لیا جائے گا ۔ وہ صاحب وہاں سے ہٹ کر رونے لگے ، بالآخر کہنے لگے :
اب ان کو الگ کردینا ہی بہتر سمجھتا ہوں ، میں آپؐ کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ وہ
سب کے سب آزاد ہیں۔ (ترمذی ، عن عائشہؓ) آپؐ کی اس تربیت کا اثر تھا کہ مسلمان
غلاموں کے ساتھ کوئی زیادتی روا نہیں رکھتے تھے۔آپ ﷺنے گفتگو اور خطاب میں بھی اس
کی تلقین کی کہ غلام کے ساتھ تحقیر نہ ہو اور مالک کے احترام میں مبالغہ نہ ہو ،
جب غلاموں کے لئے یہ حکم ہے تو عام ملازمین اور خادمین کے لئے توبہ بدرجۂ اولیٰ
یہ حکم ہوگا ۔ اسلام سے پہلے غلام اپنے مالک کو ’’رب ‘‘ اور مالک اپنے غلام کو ’’
عبد‘‘(بندہ ) کہا کرتا تھا ، آپ ﷺنے فرمایا : تم سب اللہ کے بندے ہو ، غلام اپنے
آقا کو سردار یاآج کی زبان میں ’’ سر ‘‘ کہہ سکتا ہے، اسی طرح آقا اپنے غلام کو
اے بچے ، اے نوجوان ! کہا کرے ۔ (بخاری ، عن ابی ہریرہؓ )آپ ﷺکو اس طبقہ کا کتنا
لحاظ تھا ، اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ وفات کے وقت جب آپ کی سانس
اکھڑنے لگی تو آپؐ نے آخری نصیحت یہی فرمائی ، نماز کا اور غلاموں کا خیال رکھو۔
(سنن ابن ماجہ ، عن انسؓ )
29 اکتوبر،2021، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
Part: 1-
Prophet Pbuh and His Treatment with Labourers مزدُوروں کے ساتھ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کا سلوک
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism