ارشد عالم، نیو ایج اسلام
4 دسمبر 2021
مسلمانوں کو اس بارے میں کھل
کر بحث کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح کے اسلام کی پیروی کرنا چاہتے ہیں
اہم نکات:
1. سری لنکا سے تعلق رکھنے والے پریانتھا کمارا کو پاکستان کے سیالکوٹ
میں ایک اسلام پسند ہجوم نے توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کر دیا
2. لوگوں میں اس مذہبی جنون کو ہوا دینے کے لیے تحریک لبیک اور پاکستانی
انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔
3. مسلمان معذرت خواہ پھر سے یہی کہہ رہے ہیں کہ اس کا اسلام سے کوئی
تعلق نہیں ہے۔ یہ رویہ اسلام پرستی کے نقصان دہ کردار کے بارے میں آزادانہ اور بے تکلفانہ
بحث و مباحثہ کا دروازہ بند کرتا ہے۔
-----
سری لنکا کے ایک شخص پریانتھا
دیاوادانا کو جمعہ کے روز پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں مبینہ طور پر نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم پر درود والے پوسٹر کی بے حرمتی کرنے کے الزام میں ہلاک کر دیا گیا۔
-----
پاکستان کے سیالکوٹ میں ایک
سری لنکن شخص پر تشدد اور اس کے نتیجے میں اس کی موت نے تمام مسلمانوں کو شرمندہ کر
دیا ہے۔ پریانتھا کمارا ایک مذہبی اقلیت تھے جو کہ ایک گارمنٹس فیکٹری میں اعلیٰ انتظامی
عہدے پر کام کرتے تھے۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ کمارا نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی
ایل پی) کا پوسٹر اتار کر کوڑے دان میں پھینک دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم ہجوم
مشتعل ہو گئی اور بالآخر اسے ہلاک کر دیا۔ ممکن ہے کہ ٹی ایل پی کے بہت سے پوسٹرز کی
طرح اس پر بھی کوئی قرآنی آیت لکھی ہوئی ہو۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مسلمان نہ ہونے کی
وجہ سے کمارا نے اسے کسی دوسرے سیاسی پوسٹر کی طرح سمجھا ہوگا اور اسے دفتر کی جگہ
سے اتارنے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ اسے مارنے والے ہجوم نے کیمرے کے سامنے یہ دلیل دی کہ
اس نے ایک آیت پھاڑ دی جس پر محمد کا نام لکھا ہوا تھا۔ ان کا استدلال ہے کہ اس نے
پیغمبر اسلام کی توہین کرکے توہین رسالت کا ارتکاب کیا اس لیے اسے قتل کر دیا گیا۔
دستیاب اطلاعات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آوارہ ہجوم نے پہلے اسے تشدد کا نشانہ بنایا،
پھر قتل کیا اور اس کی لاش کو سڑک پر جلا دیا۔ مسلمان کے ذہن میں مردے کو جلانا اس
بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ جنت میں نہ جائے۔ دوسرے مذہب سے نفرت اس سے زیادہ واضح
نہیں ہو سکتی۔
جلتے ہوئے جسم کی ویڈیو جھنجھوڑنے
والی ہے۔ لیکن اتنا ہی پریشان کن اس مرد کا بیان ہے جو کیمرے پر قتل کا جواز پیش کر
رہا ہے۔ یہ سب نوجوان ہیں اور لوگ یہ سوچتے ہوں گے کہ ان کے خواب کچھ اور ہوں گے۔ لیکن
جب کوئی انہیں بغیر کسی پچھتاوے کے ایسی بولی بولتے ہوئے سنتا ہے تو اس کا بھرم ٹوٹ
جاتا ہے۔ وہ نوجوان مکمل طور پر اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ پیغمبر یا اسلام کی
توہین کرنے والے کو قتل کرنا مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے۔ کس حد تک ان کی منفی ذہن سازی
کی گئی ہوگی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ وہ ایک بھیانک قتل کو اپنے مذہب
کے حکم کے مطابق ایک نیک عمل میں قرار دے رہے ہیں۔ پوری ویڈیو میں ان لوگوں کو
"نعرہ تکبیر"، "لبیک یا رسول اللہ" اور "گستاخ نبی کی ایک
ہی سزا سر تن سے جدا سر تن سے جدا" جیسے نعرے لگاتے ہوئے سنا جا رہا ہے۔ زیادہ
پریشانی کی بات یہ ہے کہ ایسے نعروں کی گونج میں ایک بار بچوں کی آوازیں صاف سنائی
دیتی ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر ایسی منفیت اور نفرت انگیزی ان نوجوانوں
سادہ ذہنوں پر کیا اثر ڈالے گی۔
عمران خان حکومت نے بلا تاخیر
"واقعہ" کی مذمت کی۔ لیکن مذمت کرنا ہمیشہ آسان ہوتا ہے، لیکن مشکل کام مظلوم
اور اس کے خاندان کو انصاف دلانا ہوتا ہے۔ لیکن ایک کھلا سوال یہ ہے کہ کیا حکومت ایسا
کر پائے گی۔ آخر کار اس مسئلے کا ایک بڑا حصہ خود حکومت سے متعلق نظر آتا ہے۔ ابھی
پچھلے مہینے عمران خان کی حکومت نے ٹی ایل پی کے جنونیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
ایک سیاسی جماعت اور مذہبی تنظیم کے طور پر ٹی ایل پی مطالبہ کرتی رہی ہے کہ توہین
مذہب کے کسی بھی معاملے میں سخت ترین سزا ہونی چاہیے۔ اس تحریک نے قاتل ممتاز قادری
کو ایک ولی بنا کر پیش کیا ہے۔ توہین مذہب سے متعلق لنچنگ کا جو سلسلہ پاکستان کے اندر
حال ہی میں سامنے آیا وہ ٹی ایل پی کے اس معاملے کو مسلم وقار کا مسئلہ بنانے کے بعد
ہوا ہے۔ ٹی ایل پی کے مطالبات کے سامنے ہتھیار ڈال کر حکومت نے پہلے ہی اشارہ دے دیا
ہے کہ وہ کس طرف ہے۔ درحقیقت، غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق عمران خان کی پارٹی اگلے
انتخابات میں ٹی ایل پی کے ساتھ اتحاد کر سکتی ہے۔
A
screengrab of a video that was recorded when the Sri Lankan factory worker's
body was burnt.
-----
پاکستان کا اسلامائزیشن ممکنہ
طور پر مکمل ہو چکا ہے۔ "ریاست مدینہ" کے قیام کے نام پر عمران خان کی حکومت
ایسی قانون سازی کر رہی ہے جس سے پاکستانی انتظامیہ کے اندر جو کچھ بھی اچھائی بچی
ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ چاہے وہ واحد قومی نصاب کا نفاذ ہو جو اسلامی محافظوں کو
درسگاہوں میں داخل کر دیگا ہے یا پھر نام نہاد اسلامو فوبیا کے خلاف ان کی جدوجہد کی
ایک بڑی مہم ہو، عمران خان کا پاکستان، اسلام پرستی کو قوم کا سب سے بڑا بیانیہ بنا
رہا ہے۔ مستقبل قریب میں، اس سے حکومت کو اپنی ہمہ جہت ترقیاتی ناکامیوں سے کچھ مہلت
مل سکتی ہے، لیکن طویل مدت میں، یہ قوم کو ایک راسخ العقیدہ اسلام کے راستے پر لے جائے
گی۔
یقینی طور پر صرف موجودہ پاکستان
انتظامیہ ہی اس اسلامی کٹرپن کی ذمہ دار نہیں ہے۔ ضیاء الحق اور ان کی اسلام پرست پالیسی
نے معاشرے اور یہاں تک کہ سیاست کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے۔ الگ الگ شرعی عدالتوں
کے قیام اور ہدود آرڈیننس کے ذریعے انہوں نے قدامت پسند علماء کے اثر و رسوخ کو تقویت
بخشی ہے۔ ایسے بہت سے اسلام پسندوں کو حکومت کے مختلف عہدوں پر تعینات کیا گیا جس میں
اسلامی نظریاتی کونسل بھی شامل تھی جسے پارلیمنٹ میں منتخب نمائندے کی "رہنمائی"
کرنا تھی۔ لیکن اس سے پہلے ہی، سیکولر کا دم بھرنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے اسلام
پسندوں کے جنونی مطالبات کو تسلیم کر لیا اور احمدیہ مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج
قرار دیا اور انہیں مسلمان شہری ہونے کے ناطے ان کے مذہبی حقوق سے مؤثر طریقے سے محروم
کر دیا۔
ہر بار جب بھی توہین رسالت
سے متعلق قتل انجام دیا جاتا ہے، اس تاریخ کو یاد کرنا اور بیان کرنا ضروری ہے۔ اور
اسے وہ نام دینا بھی ضروری ہے جو یہ واقعی میں ہے یعنی: مذہبی اسلامی فاشزم۔ یہ نظریہ
اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مسلمان ہونے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور دیگر تمام طریقے
لازمی طور پر توہین آمیز ہیں۔ اسلامو فاشزم کو خوراک اسلامی نصوص سے حاصل ہوتی ہے جو
اس قسم کی بربریت کا جواز پیش کرتے ہیں اور بعض اوقات اس کی سفارش بھی کرتے ہیں۔ سیالکوٹ
کے قتل کے بعد بہت سے لوگ اسے غیر اسلامی کہیں گے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ اسلامی
لٹریچر کے اندر کافی ایسا مواد ہے جو اس طرح کے قتل کو جائز قرار دیتا ہے۔ جن لوگوں
نے بھی اس قتل کی مذمت کی ہے انہوں نے تکنیکی بنیادوں پر ایسا کیا ہے۔ ان کا استدلال
ہے کہ ایسے "مجرم افراد" کو سزا دینے کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے۔ دوسرے
لفظوں میں اختلاف اس بات پر ہے کہ قتل کرنے کا اختیار کس کو ہے نہ کہ خود قتل کے عمل
پر۔ اور پریشانی کی جڑ یہی ہے کہ اسلام کی نہ تو کوئی اپنی تفہیم ہے اور نہ ہی اتنی
صلاحیت ہے کہ وہ اپنے نظامِ اقدار کی تنقید کا مقابلہ کر سکے۔ جزوی طور پر یہ ان کی
غلط مذہبی فکر کی پیداوار ہے جو انہیں یہ بتاتی ہے کہ اسلام ہی سب سے بہترین اور آخری
مذہب ہے۔
یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے
کہ آج کچھ مسلمان اپنی ہی برادری کے اندر سے ایسی تصویریں ابھرتے ہوئے دیکھ کر بغاوت
کر دیتے ہیں، لیکن اس کا حل صرف یہ کہہ دینا نہیں ہے کہ یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے۔
اس کا حل اسلامی نصوص کی موجودہ تفہیم میں ایک انقلابی تبدیلی لانے میں ہے۔ اس کا حل
کھلے عام یہ اعلان کرنے میں ہے کہ اگر اسلام کے بعض حصے قتل و غارت گری کی حمایت کرتے
ہیں تو یہ غلط ہے اور مسلمانوں پر اس کی پیروی واجب نہیں ہے۔
English
Article: Pakistan: Killing in the Name of the Prophet
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism