کنیز فاطمہ، نیو ایج
اسلام
18 اگست،2021
ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ
ایسے ہیں جو حق و باطل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف محبت اور نفرت کو اہمیت دیتے ہیں؛
وہ جن سے محبت کرتے ہیں ان کی تعریف میں بغیر سوچے سمجھے غلط سے غلط اور بے بنیاد
و بے معنی بات کرنے سے بھی نہیں جھجھکتے
بلکہ باطل اور من گھڑت باتوں کو بڑے یقین
کے ساتھ پھیلاتے ہیں اور اسی کے بر عکس اگر کسی سے نفرت ہو تو پھر ان کے بارے میں
حقائق سے کوسوں دور باتیں بھی شوق سے پھیلاتے ہیں بلکہ ان کی پاکیزہ ذات پر اپنی
طرف سے الزام تراشیاں کرتے ہیں اور حقائق جاننے کی کوشش نہیں کرتے، حق تو یہ ہے کہ
حقیقت جاننا ہی نہیں چاہتے اور نفرت کا تو یہ عالم ہے کہ حقیقت سے واقف ہونے کے
باوجود بھی نفرت کا نشہ انھیں حقیقت سمجھنے نہیں دیتا۔
المختصر....... ایسے ہی
نفرت پسند لوگوں میں سے بڑے شدت پسند وہ لوگ ہیں جو دنیا کی سب سے پاکیزہ ذات اور
سب سے با اخلاق و باعزت شخصیت یعنی اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ پر بے سوچے
سمجھے الزام لگاتے ہیں، حالاں کہ نفرت کرنے والے کے لیے بھی یہ لازم ہے کہ جب بھی
ایسی عظیم ذات کے بارے میں کوئی معمولی بات معلوم ہو تو اسے آگے پہچانے سے پہلے اس
کی حقیقت جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں!
آئیے اسی حقیقت کو
سمجھانے کے لیے نفرت پسند لوگوں کی طرف سے کیے گئے ایک باطل و من گھڑت الزام کا
حقائق کی روشنی میں جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں-
وہ باطل اعتراض اور بے
بنیاد الزام یہ ہے کہ اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ایک
ایسی خاتون سے جس كے باپ، بھائی اور شوہر كوجنگ میں آپ [صلی اللہ علیہ وسلم] كے
لشكر كے ہاتھوں قتل كر دیا گیا ہو، اسی دن كے آخری حصے میں وہ اپنے آپ كو ان سب كے
قاتل كے ساتھ پائے تو اس كے دل پر كیا گزرتی ہوگی؟ جس سے اشارہ صفیہ بنت حیی [رضی
اللہ عنہا] كی طرف ہے! اب اسی غم و اندوہ کی حالت میں آپ (ﷺ) نے اس خاتون (حضرت
صفیہ رضی اللہ عنہ) کو شادی پر مجبور کیا یعنی آپ نے اپنی خوشی کے لیے جبرا نکاح
کیا۔ (معاذاللہ)
اور اسی خود ساختہ
پروپیگنڈہ کی بنیاد پر دوسرا اعتراض یہ اٹھاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و
سلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی عدت سے پہلے ہی خلوت اختیار فرمایا۔
اب آئیے ان باطل الزام
تراشیوں کا جواب حقائق کی روشنی میں جانیے اور انصاف کے ساتھ دنیا کی سب سے معظم
ذات کی تعظیم اپنے سینے میں بسائیے!
ان نفرت پسند لوگوں کا یہ
کہنا کہ جس دن حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے باپ اور شوہر کو قتل کیا گیا اسی رات کو
وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ آپ کے بستر پر تھیں سراسر بہتان ہے جب کہ
حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا سے اس وقت تک
ہمبستری نہیں کی جب تک ان کی عدت پوری نہیں ہو گئی؛ جیسا کہ آپ کو دن و رات دیکھنے
والے صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے:
قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْحِصْنَ
ذُكِرَ لَهُ جَمَالُ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيِّ بْنِ أَخْطَبَ وَقَدْ قُتِلَ
زَوْجُهَا، وَكَانَتْ عَرُوسًا، فَاصْطَفَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ، فَخَرَجَ بِهَا حَتَّى بَلَغْنَا سَدَّ
الرَّوْحَاءِ حَلَّتْ، فَبَنَى بِهَا، ثُمَّ صَنَعَ حَيْسًا فِي نِطَعٍ صَغِيرٍ،
ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " آذِنْ
مَنْ حَوْلَكَ ". فَكَانَتْ تِلْكَ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَفِيَّةَ، ثُمَّ خَرَجْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ :
فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَوِّي لَهَا
وَرَاءَهُ بِعَبَاءَةٍ، ثُمَّ يَجْلِسُ عِنْدَ بَعِيرِهِ فَيَضَعُ رُكْبَتَهُ،
فَتَضَعُ صَفِيَّةُ رِجْلَهَا عَلَى رُكْبَتِهِ حَتَّى تَرْكَبَ. (صحيح البخاري،
كِتَابٌ : الْبُيُوعُ، بَابٌ : هَلْ يُسَافِرُ بِالْجَارِيَةِف قَبْلَ أَنْ
يَسْتَبْرِئَهَا ؟)
علامہ ابن حجر عسقلانی
رحمۃاللہ علیہ فتح الباری شرح صحیح البخاری میں *"حَتَّى بَلَغْنَا سَدَّ
الرَّوْحَاءِ حَلَّتْ، فَبَنَى بِهَا"* کی تشریح میں فرماتے ہیں:
"حلت" ای : طہرت من حیضھا یعنی اپنے حیض سے پاک ہو گئیں ۔
واضح رہے کہ عدت کی تحدید
شریعت نے حیض کے ذریعے کی ہے۔
اسی طرح مسلم شریف کی
روایت میں حضرت صفیہ - رضي الله عنھا - کے نکاح کے تعلق سے بالتفصیل بیان ہے جس کا
اہم حصہ یہ ہے :
فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى
نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : يَا نَبِيَّ
اللَّهِ، أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ سَيِّدِ قُرَيْظَةَ،
وَالنَّضِيرِ، مَا تَصْلُحُ إِلَّا لَكَ ؟ قَالَ : " ادْعُوهُ بِهَا ".
قَالَ : فَجَاءَ بِهَا، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : " خُذْ جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ غَيْرَهَا
". قَالَ : وَأَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، فَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ : يَا أَبَا
حَمْزَةَ، مَا أَصْدَقَهَا ؟ قَالَ : نَفْسَهَا ؛ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا
حَتَّى إِذَا كَانَ بِالطَّرِيقِ ؛ جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ،
فَأَهْدَتْهَا لَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَأَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا، (كِتَابٌ :
النِّكَاحُ، بَابٌ : فَضِيلَةُ إِعْتَاقِهِ أَمَتَهُ، ثُمَّ يَتَزَوَّجُهَا)
یعنی؛ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: دحیہ کو بلاؤ، پس وہ حضرت صفیہ کو ہمراہ لیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صفیہ کے
علاوہ قیدیوں سے کوئی اور لونڈی کو پسند کر لو۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلمَ نے حضرت
صفیہ رضی اللہ عنہا کو غلامی سے آزاد کیا اور اسے اپنے نکاح میں لائے اور اس کی
آزادی کو ہی اس کا مہر مقرر کیا۔ یہاں تک کہ جس وقت راستے ہی میں تھے، حضرت ام
سلیم رضی اللہ عنہا نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے
تیار کیا۔ پس اس کے بعد ام سلیم رضی اللہ عنہا نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو رات
کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے
وقت شادی شدہ معلوم ہوئے، پس اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمہ بھی کیا۔
مذکورہ بالا حدیث روزِ
روشن کی طرح اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ فخرِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت
صفیہ رضی اللہ عنہا کو حضرت دحیہ سے خرید کر آزاد کیا اور اسی آزادی کو اس کا مہر
مقرر کر کے ان سے نکاح کیا۔ اس کے بعد انہیں ام سلیم رضی اللہ عنہا کے سپرد کیا۔
اس حدیث کے ساتھ ہی مسلم کی دوسری روایت میں ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو حضرت دحیہ رضی اللہ عنہ سے خرید کر اس کے عوض میں اسے
سات نفیس لونڈیاں عطا کیں اور ام سلیم رضی اللہ عنہا کو اس لیے اسے سپرد کیا کہ ان
کے گھر میں ان کی عدت پوری ہو۔
مندرجہ بالا حدیث نے مطلع
صاف کر دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے عدت سے پیشتر
حق زوجیت ادا نہیں کیا۔ چوں کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا لوٹ میں لونڈی بن کر آئی
تھیں ۔ اگرچہ انھیں آزاد کر کے ان سے نکاح کیا، مگر تا ہم ان کی عدت لونڈی جیسی
تھی، یعنی ایک حیض۔ چوں کہ اسلام میں عدت گزرنے سے پیشتر مجامعت حرام ہے، اس لیے
ہمیں یقین ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عدت گزرنے کے بعد ان سے حقِ زوجیت ادا
کیا تھا، جیساکہ مذکورہ بالا حدیث کی تشریح سے واضح بھی ہے ۔
اسی طرح نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے اس وقت تک حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے صحبت نہیں کی جب تک کہ انہوں
نے اپنے اسلام کا اعلان نہیں کر دیا، اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں
آزاد کرنے كے بعد [ان سے نکاح كیا، تب جاكر] ہی ان کے ساتھ شب باشی فرمائی۔ [اور
یہ اسلام اور یہ نكاح سب ظاہر ہے كہ شریعت كے عین مطابق یعنی برضا ورغبت ہوا]۔
لہذا جس وقت آپ نے ان سے
جماع كیا اس وقت وہ نہ تو یہودیہ تھیں نہ ہی کوئی باندی! بلكہ وہ آپ كی بیوی تھیں،
جنہیں آپ نے مہر دیا تھا، اور ان كی آزادی ہی ان كا مہر تھی اور یہی نہیں بلكہ ان
كی شادی كے ولیمے کا بھی اہتمام کیا تھا۔۔۔
یہ تمام تشریحات تو ان کے
لیے ہے جنہوں نے یہ بیہودہ اعتراضات کر کے اپنی آخرت خراب کیا ہے ورنہ ہمارا تو یہ
ایمان ہے کہ حضور نے جیسا بھی کیا وہ ان کے لیے مختص اور ہمارے لیے شریعت ہے۔
یہ تو عدت سے قبل آیا خلوت کیے تھے یا نہیں اس کی وضاحت تھی۔ اب
یہ ملاحظہ کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ان سے نکاح کر کے حضرت صفیہ پر
جبر کیا یا فضل؟
اس کے جواب میں چند ایسے
مفید حقائق ملاحظہ کریں جو ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے قصے سے متعلق
ہے:
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا
نے اپنے قید کیے جانے سے بے انتہا فائدہ حاصل کیا، یہی کیا کم تھا کہ آپ دولت
ایمان سے مشرف ہوئیں اور اس غلامی کے ذریعے اللہ نے آپ کو کفر سے نجات بخشی۔ اسلام
کے بعد آپ کے شرف و فضیلت کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہو گی کہ آپ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت سے مشرف ہو کر پوری امت مسلمہ کی ماں قرار پائیں۔
یہ تو وہ فضیلتیں تھیں جو
انہیں اس غلامی سے ملی تھی لیکن ایسا ہرگز بھی نہیں تھا جیسا کہ بعض بد طینت اور
مفاد پرستوں نے بنا کر پیش کیا ہے کہ حضرت صفیہ
رضی اللہ عنہا اپنے شوہر اور باپ کے قتل کے بعد آپ سے ناراض تھیں اور نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت میں ان سے نکاح کیا حالاں کہ حقیقت اس کے خلاف ہے
کیوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور اسلام كو حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا كے باپ كی جانب سے جو
كچھ (تكلیف یا نقصان) پہنچا تھا، آپ نے صفیہ رضی اللہ عنہا كو اس سے باخبر كردیا
تھا، پھر آپ لگاتار انہیں اس كی خبر دیتے رہے، اور معذرت بھی كرتے رہے، یہاں تک كہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے خلاف جو كچھ (غم وغصہ) ان كے دل میں تھا وه جاتا رہا
اور جو (غم وغصہ) ان كے دل میں تھا اس كے زائل ہونے كے بعد ہی آپ نے ان كو رفیقۂ
حیات بنایا، حتی كہ آپ مسلمانوں کی ماں كے درجے اور مقام كی مستحق ہوئیں۔
جس کی دلیل میں حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی درج ذیل حدیث ہی کافی ہے.
"قالت: وكان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم مِن أبغضِ
النَّاسِ إليَّ قتَل زوجي وأبي وأخي فما زال يعتذرُ إليَّ ويقولُ: ( إنَّ أباك
ألَّب عليَّ العربَ وفعَل وفعَل ) حتَّى ذهَب ذلك مِن نفسي........ الخ" (ابن حبان (ت ٣٥٤)،
صحيح ابن حبان ٥١٩٩
أخرجه في صحيحه.)
ترجمہ :عبد اللہ بن عمر
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم
میرے نزدیک مبغوض ترین انسانوں میں سے تھے، اس لیے کہ انہوں نے میرے شوہر، باپ اور
بھائی کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ لیکن آپ لگاتار مجھ سے اس سلسلے میں معذرت
کرتے رہے اور کہتے رہے : "تمہارا باپ عربوں کو میرے خلاف ورغلا کر مجھ پر
چڑھا لایا [اشارہ غزوہ احزاب کی طرف]، اور یہ کیا اور یہ کیا" یہاں تک کہ وہ
(بغض) میرے دل سے دور ہو گیا۔
(اس کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے)
یہ تو جنگ خیبر کے بعد کا
واقعہ تھا لیکن حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے پہلے سے ہی ایک خواب بھی دیکھ چکی تھی،
جس کی تعبیر ان کے یہودی شوہر نے یہ بیان کی تھی ان کی شادی نبی صلی اللہ علیہ
وسلم سے ہونے والی ہے۔
چنانچہ عبد اللہ ابن عمر
رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
ورأى رسولُ اللهِ صلَّى
اللهُ عليه وسلَّم بعينَيْ صفيَّةَ خُضرةً فقال: ( يا صفيَّةُ ما هذه الخُضرةُ ؟ )
فقالت: كان رأسي في حَجرِ ابنِ أبي حُقيقٍ وأنا نائمةٌ فرأَيْتُ كأنَّ قمرًا وقَع
في حَجري فأخبَرْتُه بذلك فلطَمني وقال: تمنَّيْنَ مُلْكَ يثربَ؟ (ابن حبان (ت ٣٥٤)،
صحيح ابن حبان ٥١٩٩
أخرجه في صحيحه.)
یعنی؛ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے حضرت صفیہ کی آنکهوں پر ایک ہرا [چوٹ كا] نشان دیکھا . آپ نے ان سے
پوچھا : صفیہ! یہ ہرا نشان کیسا ہے؟ انہوں نے کہا: میں ابن ابی حقیق کی گود میں سر
رکھ کر سو رہی تھی۔ اسی دوران میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے ایک چاند میری گود
میں آ کر گر گیا ہے۔ جب یہ خواب میں نے اس کو بتایا تو اس نے مجھے تهپڑ مار دیا
اور بولا : تو یثرب (مدینے) کے بادشاہ کے خواب دیکھ رہی ہے؟
الحمد للہ، ان تمام
تفصیلات نے احقاق حق اور ازہاق باطل کا حق ادا کر دیا اور صاف واضح ہو گیا کہ نفرت
پسند لوگ اپنے پروپیگنڈہ کی خاطر من سے
گڑھ کر دنیا کی معظم ترین ذات پر الزام تراشیاں کرتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
ہم نے واضح کر دیا
کہ......
❶
ــــ ام المؤمنين حضرت صفیہ
رضي الله تعالیٰ عنها سے آقاے کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ و سلم نے آپ کے شوہر
اول کی موت کی عدت پوری ہونے کے بعد ہی نکاح فرمایا -
❷
ـــ حضرت صفیہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ و سلم کا نکاح رضا و خوشنودی
کے ساتھ ہوا تھا قطعی جبری نکاح نہ تھا -
❸
ـــ ام المؤمنين حضرت صفیہ
رضی اللہ عنہا آقاے کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے بڑی محبت فرمایا کرتی
تھیں؛ والد، شوہر اول اور دوسرے یہودی رشتے داروں کے قتل کی وجہ سے جو غم اور
تکلیفیں تھیں آقائے کریم صلی اللہ تعالٰی
علیہ والہ و سلم نے ان سب تکلیف کو آپ کے دل سے دور کر دیا اور ام المؤمنین رضي
الله عنها آپ سے بے پناہ محبت کرنے لگیں بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ آقاے کریم صلی
اللہ تعالٰی علیہ والہ و سلم ہی سے محبت فرمانے لگیں۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism