New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 03:27 AM

Urdu Section ( 12 Jul 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Prophet’s Farewell Sermon: The First and Last Manifesto of Human Rights خطبۂ حجۃ الوداع:حقوق انسانی کا پہلااورآخری منشوراعظم

اے ۔ آزاد قاسمی

10 جولائی 2022

آپؐ نے ۹؍ذی الحجہ ۱۰ھ کو عرفات کے میدا ن میں تمام مسلمانوں سے خطاب فرمایا۔

--------

سنت ابراہیمی کی ادائیگی اور خطبہ حجۃ الوداع کے آفاقی پیغام سے سرشاردنیابھرکے فرزندان توحید رب خلیل کی توفیق دعوت پر مکۃ المکرمہ آج بھی اسی جوش وخروش کے ساتھ دیوانہ وار عازم سفرہوتے ہیں ،جہاں آج سے تقریبا ساڑھے چودہ سوسال پہلے صحابہ کرام رضی اللہ وتعالی عنہم کی جماعت تقرب الی اللہ ، انسانی اقدارکی تحفظ اورتکریم انسانیت شعور وآگہی کی عملی مشق کے لئے معلم انسانیتﷺکی قیادت میں حاضرہوئی تھی۔ ریگستان کی تپتی ہوئی سنگ ریزوادی یعنی میدان عرفات میں نبی پاک ﷺ نے اپنی اونٹنی’ قصواء‘پر سوارہوکرعین دوپہرکے وقت عالم انسانیت کو جو سبق دیاتھا، وہ آج بھی مادیت پرستی کے خوگرانسانوں کیلئے انسانی حقوق کی پیروی اورانسانی اقدارکی بحالی کاپہلااورآخری منشور اعظم قرارپانے کیلئے کافی ہے کہ اس سے بہتربشری حقوق کی ضمانت دنیا میں کسی اورگوشہ سے نہ دی جاسکی ہے اورنہ ہی آئندہ ایسے کسی دستور کی تیاری ممکن ہے،جو میدان عرفان کے ‘پیغام’ سے ماورا ہو اورجودنیا میں انسانیت کے تحفظ کی معراج قرار پاسکے۔

جدیدانسانی معاشرہ کاجوتصوراہل مغرب نے اہل دنیاکودیا ہے ،اس کی خوفناک حقیقت اور بھیانک تصویرہمارے سامنے ہے ،ہم اپنے معاشرہ اورسماج میں خاص کرمسلم معاشرہ میں یہ دیکھ رہے ہیں اوربڑی شدت سے محسوس بھی کررہے ہیں کہ اکیسویں صدی کی ان سائنسی ایجادات اورمصنوعی ترقی نے ہمیں اخلاقی طورپر کس قدرپست اوربے حس بنادیاہے کہ اس کی چکاچوند سے نکلنے کیلئے ہم کسی طور تیارنہیں ہیں۔موجودہ پس منظرمیں ہم اپنی سوسائٹی میں،انسانی اقدارکی پامالی، خودغرضی اورمادیت پرستی کی طرف بری ہی برق رفتاری سے بڑھ رہے ہیں اورشریعت مطہرہ کی پامالی کے مرتکب بھی ہورہے ہیں۔ہماری اس بے اعتناعی و بے حسی کی لکیریں اب صاف اورواضح ہیں،جنہیں ہر ذی شعورمحسوس بھی کرسکتاہے اورکھلی آنکھیں مشاہدہ بھی ۔ہمارے ا فعال یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ ہم ایک بارپھر اسی دورجاہلیت کی طرف بڑھ چکے ہیں، جہاں ہرطرح کی نابرابری لوگوں کا شیوہ بن چکی تھی۔ دورجاہلیت کی وہ قومیں جن میں احترام انسانیت یا انسانی حقوق نام کی کوئی چیزباقی نہ تھی، وہ چند ہی سالوں میں تعلیمات نبوی ﷺ کے مساویانہ اورعادلانہ درس سے تاریخ انسانیت کی ایک عظیم جماعت بن گئیں ،اس تاریک دورمیں نبی پاک ﷺ نے حقوق انسانی پرایسا مکمل واکمل فکری اساس عطافرمایا جس کی پیروی میں انسانیت سے عاری قوم جو جہالت ، توہمات ،نسلی برتری اوروحشیانہ عادت و اطوارکا شکارتھی چند سالوں میں ہی تہذیب وتمدن اورحقوق انسانی سے متعارف ہوکر دورجدید میں داخل ہوگئی،جن کے بارے میں خود معلم انسانیت ﷺ نے فرمادیا کہ اگر تم زندگی میں فلاح وکامرانی چاہتے ہوں تو‘میرے اصحاب کی پیروی کرلو کامیاب ہوجاؤگے’،لیکن ہماراحالیہ طرزعمل ایک لمحہ فکریہ ہے ، جس پر وقت رہتے غوروفکر کی ضرورت ہے ۔

آج کے اس نازک دورمیں جہاں ہرطرف انسانی شعوروآگہی کی دہائی دی جارہی ہے ، آپسی رنجش و چپقلش انتہاکوپہنچ چکی ہے ، بات بات پر جھوٹی قسمیں کھائی جارہی ہیں،ہرطرف انانیت کا بازارگرم ہے، انسانی زندگی ایک عذاب بنی ہوئی ہے،ہر لمحہ بے سکونی کااحساس دامن گیرہے، زندگی کا ہرپہلو مضطرب وپریشان ہے ،لوگ عالمِ مایوسی میں اللہ کی عطا کردہ بیش قیمتی اثاثہ یعنی اپنی زندگی تک کو ختم کرنے سے بھی گریزاں نہیں ہیں،ایسے پرفتن دورمیں انسانی زندگی بڑی شدت کے ساتھ’سکون قلب‘ کی متلاشی ہے،اسے اس وقت ایک ایسی تعلیمات کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس ہورہی ہے جومضطرب اورپریشان حال لوگوں کی کشتی کومنجھدارسے نکال کر ساحل پر لگادینے کا سامان مہیاکراسکے ۔ ایسے ستم رسیدہ حالات میں انسانیت کی فلاح وکامیابی اوربقاء کیلئے مکہ کی سنگ ریز وادی’ میدان عرفات‘ میں معلم انسانیتﷺ کے ذریعہ پیش کردہ وہ تاریخی وابدی منشور’ خطبہ حجۃ الوداع‘ہمارے سامنے موجودہے،جو کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام ؓ کے جم غفیر کے سامنے ۹؍ذوالحجہ سنہ ۱۰ھ کوتپتی ہوئی دوپہر کے وقت رحمۃ للعالمین ﷺنے دیاتھا، جس کو تاریخ میں’خطبہ حجۃ الوداع‘ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ اکثراہل علم اسے اسلامی تعلیمات کا نچوڑ اور اسلام کے سماجی ،سیاسی اور تمدنی اصولوں کا ایک جامع مرقع قراردیتے ہیں ، بایں ہمہ کہ اس کے اندرقبل ازاسلام تمام طرح کی جاہلانہ رسم ورواج کو منسوخ قراردیاگیاہے ، اہل علم اس بات پر متفق ہیں یہ خطبہ مکمل طور انسانیت کی تحفظ کیلئے ایک جامع ضابطہ حیات کی حیثیت رکھاتاہے ۔جس کواپنانے کی آج کے ماحول میں اشدضرورت ہے۔

1947-48میں جب ’اقوامتحدہ ‘کی داغ بیل ڈالی جارہی تھی اورانسانی حقوق کی بازیابی اورتحفظ کیلئے عصرحاضرکے عالمی منشور کو آخری شکل دیا جارہا تھا، اس وقت بھی منشورکے مرتب کردہ سرکردہ پینل کے پیش نظریہی تاریخی‘ خطبہ وداع ’تھا اور کہا جاتا ہے کہ حقوق انسانی ، احترام انسانیت اور پوری دنیا میں انسانی بنیادپر سب کے ساتھ یکساں سلوک اور باہمی رواداری پیش کرنے کے حوالہ سے جودفعہ شاملِ منشورکی جارہی تھی ،اس کی تیاری میں اس تاریخی’ خطبہ وداع‘ کے اکثر جزاورپیراگراف کو فوقیت کے ساتھ شامل منشورکیا گیا ۔ خطبۂ حجۃ الوداع کو تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانیت کا سب سے پہلاجامع واکمل منشور’انسانی حقوق‘ ہونے کا اعزازبھی حاصل ہے ۔ ہم اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ خطبہ وداع حقوق انسانی کا اولین منشوراعظم بھی ہے اورمحافظ بھی کہ انسانی تاریخ میں اس سے قبل ایسی کوئی نظیر ہمیں دیکھنے کو نہیں ملتی ،جس میں عالم انسانیت کیلئے کوئی ایساعملی دستور فراہم کرایا گیا ہو،جو ذات، رنگ، نسل، طبقہ، فرقہ، علاقہ،گروہ یاقوم سے بالا تر ہو اور جس میں وسیع تر انسانی مفادات کے تحفظ کی ضمانت اس قدروسیع پیمانہ پر درج ہو۔یہی وجہ ہے کہ رہتی دنیا تک زمین کے کسی بھی خطہ میں جب بھی کہیں انسانی حقوق کی بات ہوگی، اس منشوراعظم یعنی کہ’خطبہ حجۃ الواداع‘ کاتذکرہ فطری طورپرہوگا۔اس کے زیادہ تر نکات کی شمولیت کے بغیرتیارہونے والے حقوق انسانی کا کوئی جامع ترین دستوربھی عملاًناقص ہی قرار پائے گااوروہ تنفیذی طورپربھی بے سوداور بے اثرثابت ہوگا۔

 خطبہ حجۃ الوداع تاریخ اسلام میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے، ساتھ ہی عالمی تاریخ میں بھی اس کی اہمیت ومعنویت مسلم ہے ۔ اس عالمی منشورکی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں کسی خاص گروہ کی حمایت، کسی خاص نسل کی برتری،کسی خاص قوم کے مفادات کے تحفظ کا شائبہ تک موجود نہیں ہے۔ اس کی ابتدائی نکات کی مذہبی افادیت کے ساتھ ہی بڑی اخلاقی اہمیت بھی ہے،جوبنی نوع انسان کی زندگی کیلئے آئیڈیل اورنمونہ قرارپانے کیلئے اس وجہ سے کافی ہے کہ اس پر عمل درآمدکے ذریعہ بشری حقوق کے تحفظ کی سو فیصدضمانت دی جاسکتی ہے۔

 اس وقت جبکہ انسانی زندگی بے پناہ صعوبتوں اورپریشانیوں میں گھری ہوئی ہے، انسانیت کے راستہ پر چلنااورانسانی عظمت واحترام کومقدم ٹھہراناپہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے ۔ ذیل میں اس اہم خطبہ کی وہ بنیادی خصوصیات پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں جو اس عظیم خطبہ کی اساس کہی جاسکتی ہیں ۔اس اہم اور اولین عالمی منشورکا نقطہ آغاز اللہ اور اس کے بندے کے درمیان صحیح تعلق کی وضاحت کرتا ہے اور بنی نوع انسان کے ساتھ بغیر کسی تفریق کے بھلائی کی تلقین کرتا ہے۔

٭ خطبہ حجۃ الوداع اسلام کے معاشرتی نظام زندگی کی بنیادیں مہیا کرتا ہے۔ معاشرتی مساوات، نسلی تفاخر کا خاتمہ، عورتوں کے حقوق، غلاموں کے ساتھ حسن سلوک، ایک دوسرے کے جان و مال اور عزت وآبرو کا احترام، یہی وہ بنیادیں ہیں جن پر اسلام کی معاشرتی زندگی کانظام بڑی ہی خوش اسلوبی کے ساتھ ترتیب پاتاہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں سے دنیاوی زندگی میں ہمہ وقت عملی طورپراپنے اوپر، اپنے خاندانوں پر اور سماج ومعاشرہ میں عملی زندگی میں اس کے نفاذکا متقاضی ہے ۔

٭ اس خطبہ نے معاشی عدم توازن کا راستہ بند کرنے کیلئے سود کو حرام قرار دیاہے کیونکہ سود سرمایہ دار طبقہ کو محفوظ طریقہ سے دولت جمع کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے اور ان کی تمام دولت کی فراوانی سودی سرمائے کے حصول ہی کی وجہ سے ہوتی ہے۔

٭ اس خطبہ نے بہت سے اہم قانونی اصول متعین کئے ہیں۔ مثلاً انفرادی وخانگی ذمہ داری کے اصول اوروارثین کے درمیان توزان اور عدل برقراررکھنے کیلئے مکمل اورپائیداررہنماہدایات تفویض کی گئی ہیں۔

٭سیاسی طور پر خطبہ وداع کو اسلام کے سیاسی منشور کے طورپر بھی دیکھا جاتا ہے۔ دنیا بھر کو اس خطبہ کے ذریعہ بتایا گیا کہ اسلامی حکومت کن اصولوں کی بنیاد پر تشکیل پائے گی اور ان اصولوں پر تعمیر ہونے والا نظام حکومت انسانیت کیلئے کیوں رحمت ثابت ہوگا؟۔ اسی بناپردنیابھرکے جدیددانشور،مفکرین اورریڈیکل افراد بھی اس کی تمام ترنکات کو انسانیت کا منشور اعظم قرار دینے پرمجبورہوئے ہیں ۔

٭ یہ ہمارے نبی پاکﷺ کا آخری پیغام ہے اور اس کے مخاطب بھی ہم ہی ہیں۔ اس کی نوعیت،معنویت اوراہمیت پیغمبر اسلام ﷺ کی امت کے لئے ایک وصیت کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس کے ایک ایک بول پر حضور ﷺنے درد بھرے انداز سے آواز بلند کی ہے کہ میں نے بات پہنچا دی ہے، لہٰذا لازم ہے کہ اسے پڑھ کر ہم اپنی زندگی کا نصب العین بنائیں۔ ہم اپنی اب تک کی بے سمت روش پر نادم ہو کر اور غیرمنصفانہ نظام زندگی سے باہرنکل کر محسن انسانیت ﷺکا دامن مکمل طور پر تھام لیں۔

خلاصہ یہ کہ’خطبہ وداع‘اپنی معنویت کی روسے ایک دعوتِ انقلاب بھی ہے، ہم اسے پوری ایمانداری سے اپنی زندگی میں اتارنے کے ساتھ ساتھ اپنے قول وفعل سے دنیا کویہ پیغام دے سکتے ہیں کہ ہم اس نبی پاک ﷺ کے ماننے والے ہیں جن کا قول وفعل اور عمل رہتی دنیاتک آنے والوں کیلئے ایک نمونہ عمل ہے ۔اوریہ کہ یہ تعلیمات کسی خاص طبقہ ، نسل برادری یاخطہ تک محدودنہیں ہیں بلکہ یہ تمام بنی نوع انساں کے لئے ہیں ، خواہ وہ کسی بھی رنگ ونسل کے ہوں اورکسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں ۔

 اللہ پاک ہم سب کو پیارے نبی ﷺ کی ہر ہر سنت پر عمل پیراہونے کی توفیق عطافرمائے اوراپنے خاص فضل وکرم سے پریشان حال امت کو عافیت عطافرمائے اور اس عظیم خطبہ وداع کی نکات کو عملی زندگی میں اتارنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔

10 جولائی 2022بشکریہ : انقلابنئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/prophet-farewell-sermon-manifesto-human-rights/d/127460

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..