New Age Islam
Thu May 15 2025, 02:46 PM

Urdu Section ( 22 Jan 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Recognition of Premchand by Gopal Krishan Maniktala گوپال کرشن مانک ٹالا کی پریم چند شناسی

نداانجم

22جنوری،2024

 مشہور افسانہ نگار گوپال کرشن مانک ٹالا 21 /ستمبر 1924 ء کو لاہور کے نزدیک قصبہ باغبان پورہ میں پیداہوئے۔کچھ وقت شملہ میں رہے اور پھر دہلی اور اس کے بعدممبئی چلے آئے۔ان کے بھائی ممبئی میں فیکٹری چلاتے تھے چنانچہ وہ ان کے ساتھ مل کر کاروبار کرنے لگے۔ ان کی نصف بہتر کا انتقال کینسر کے مرض میں مبتلا ہوکر ہوا۔ان کی ایک بیٹی ہے جس کا نام انیتا ہے۔ وہ ایک بہترین ادیب تھے اور ان کی کہانیوں کے کئی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ جن میں پیاسی بیل، گناہ کا رشتہ،پنجرے کے پنچھی اور ہوری کا دوسرا جنم خاص ہیں۔کالی داس گپتا رضا کے اصرار پر انہوں نے پریم چندیات پر کام کرنا شروع کیا۔ پریم چند پر اپنی پہلی تحقیقی کتاب ”پریم چند اور تصانیف پریم چند“ میں عرض منصنف کے تحت لکھتے ہیں۔ ”تحقیق سے میری کوئی دلچسپی نہ تھی مشفقی کالی داس گپتا رضا نے کئی مرتبہ مجھے تحقیق کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی لیکن میں بات ٹال دیتا رہا او رپھر آخر کار پریم چند پرکام کرنے کاارادہ کرلیا۔

مانک ٹالا جی کی کتاب ”پریم چند او رتصانیف پریم چند: کچھ نئے تحقیقی گوشے“ نومبر 1985 ء کو منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں کل 16 ابواب ہیں جن میں اردو ہندی اور پریم چند، چوگان ہستی سے گودان تک، پریم چند کی گمشدہ تخلیقات کی بازیافت کے ایسے عنوان اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ کتاب بے حد وقت نظر سے لکھی گئی ہے۔ چنانچہ پروفیسر عبدالمغنی لکھتے ہیں کہ: سب موضوعات پر ضروری معلومات بہت سلیقے سے پیشکی گئی ہے اور دستاویزی حقائق سے ثابت کر دیا گیاہے کہ پریم چند پر اعتراض کرنے والوں نے محض افسانہ ترازیاں کی ہیں۔ جناب مانک ٹالا صاحب نے اپنی تحقیق میں بہت عرق ریزی سے کام لیاہے اور پریم چند کے توسط سے اٹھائے جانے والے متعدد سوالات کے تشفی بخش جواب دیے ہیں۔ پریم چند پر ان کی دوسری کتاب اکتوبر1988ء میں ”پریم چند کچھ نئے مباحث“ کے نام سے منظر عام پر آئی۔ اورعوام وخاص نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ جناب فرمان فتح پوری (مدیر نگار) نے اپنے رسالے میں اس کا کچھ حصہ شائع کرتے وقت لکھا۔”پریم چند پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور آئندہ بھی لکھا جائے گا لیکن مانک ٹالا صاحب کی کتابوں پر نظر ڈالے بغیر ان پر کچھ لکھنا کچھ زیادہ کار آمد نہ ہوگا۔ اس لیے پریم چند کے بارے میں مانک ٹالا کی تحریروں کا ادب کے قارئین کی نظر سے گزارناضروری ہے۔ چونکہ یہ تحریریں پاکستان میں نایاب ہیں اس لیے ان کی تازہ کتاب ”پریم چند کچھ نئے مباحث“ کاایک حصہ مانک ٹالا کے شکریہ کے ساتھ قارئین کیا جاتاہے۔ اس کے بعد مانک ٹالا صاحب نے 1993ء میں ”پریم چند حیات نو“ شائع کرکے محققین کو حیرت میں ڈال دیا۔ یہ پریم چند کی مکمل ادبی سوانح ہے۔ یہ کتاب ماہر پریم چند مانک ٹالا صاحب کی تین سال کی دن رات کی محنت اور ریاضت کا نتیجہ ہے۔ یہ کتاب اتنی ضخیم اور اور نفیس ہے کہ خود پریم چند بھی اگر لکھتے تو شاید اس سے بہتر او رمفصل نالکھ پاتے۔ اس کتاب کے مطالعے سے ایسالگتا ہے کہ جیسے جیتے جاگتے پریم چند ہمارے سامنے ہیں۔ پریم چند کے بچپن کا  ایک قصہ پیش خدمت ہے۔”ایک روز اپنے ہم جولیوں کے ساتھ نائی نائی کھیل کھیلنا شروع کیا بانس کی کھیچیوں سے استرے بنائے گئے۔ایک تیز استرے سے اپنے ایک ساتھی رامو کی ایسی حجامت بنائی کہ اس کا کان زخمی ہوگیا جھر جھر خون بہنا شروع ہوگیا۔ رامو روتا چلاتا اپنی ماں کے پاس پہنچا۔ اس کی ماں گالی گلوچ بکتی اپنے بیٹے کو ساتھ میں گھسیٹتی ہوئی دھنپت کی ماں کے پاس الاہنالے کو پہنچی۔دھنپت نے ماں بیٹے کا شور شرابہ سنا تو کھڑکی کے پاس دبک کر بیٹھ گیا۔ ماں نے دبکتے ہوئے دیکھ لیا اور پکڑ کر دوچار جھانپڑ رسید کئے۔ پوچھا۔ رامو کا کان تو نے کیوں کاٹا؟ نواب (دھنپت) نے نہایت بھولے پن سے جواب دیا پتہ نہیں کیسے کٹ گیا میں تو اس کی حجامت بنارہا تھا“۔

۔۔ مانک ٹالا صاحب رقم طراز ہیں۔”ہماری زبان کے ایڈیٹر ڈاکٹر خلیق انجم نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں پریم چند کے سیکولر کردار پر ہماری زبان کے لئے ایک مقابلہ لکھوں۔ چنانچہ میں نے ان کی فرمائش پوری کرتے ہوئے اپنامقالہ ”پریم چند کا سیکولر کردار“ ارسال کردیا۔ جو ہمارے زبان کے 15/ مئی 1997ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ اس سے مجھے یہ تحریک ملی کے پریم چند پر مزید تحقیق کرکے کچھ اور مضامین لکھوں تاکہ ایک کتاب کا مواد تیارہوجائے۔“(پریم چند کاسیکولر کردار اور دیگر مضامین) مانک ٹالا صاحب نے پریم چند کے سیکولر کردار اور اسلام دوستی پر مزید روشنی ڈالی ہے۔ پریم چند ایک ہندی کہانی ”نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نیتی نروہ“ کا اردو میں ترجمہ کرکے پیش کیا۔ اس کہانی کالب لباب یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے جمہوریت پسند، انسان دوست اورانصاف پرور شخصیت تھے۔ مانک ٹالا صاحب لکھتے ہیں کہ ”یہ کہانی اس زمانے میں لکھی گئی تھی جس زمانے میں فرقہ پرست عناصر ہر طرف فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دے رہے تھے۔“(پریم چند کا سیکولر کردار) اپنے مضمون پریم چند کاسیکولر کردار میں پریم چند کالکھا ہوا ایک اقتباس پیش کرتے ہیں۔”یہ بالکل غلط ہے کہ اسلام تلوار کی طاقت سے پھیلا۔بھارت میں اسلام پھیلنے کی وجہ اونچی جاتیوں کے ہندوؤں کے نیچی جاتیوں کے ہندوؤں پر مظالم تھے۔ اسلام کی گود میں ہی تمام ناپاکیاں او ربابرابریاں دھل جاتی تھیں۔ وہاں کوئی نہیں پوچھتا تھا کہ فلاں شخص کیا او رکس طبقے کا مسلمان ہے۔ اس لیے نیچوں (ہندوؤں کے نچلے طبقوں) نے نئے مذہب کا خوشی سے استقبال کیا اور گاؤں کے گاؤں مسلمان ہوگئے۔ ان کی نظروں میں اسلام ایک فاتح دشمن نہیں بلکہ ایک فراخ دل (مذہب) تھا۔ اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ اپنے خصائل کے ظہور کی طاقت پر پھیلا اس کے لیے پھیلا کہ اس کے یہاں سبھی انسانوں کے حقوق برابر ہیں۔

پریم چند کا ایک مضمون اسلامی تہذیب بھی مانک ٹالا صاحب نے قارئین کی خدمت میں پیش کیا تھا۔

پریم چند پر فرقہ پرستی کے الزامات بھی عائد ہوئے تھے۔ مگر مانک ٹالا صاحب نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ پریم چند نہ صرف ایک بڑے وطن پرست تھے بلکہ ہندو مسلم اتحاد کے بھی بہت بڑے حامی تھے۔ مانک ٹالا صاحب فرماتے ہیں کہ پریم چند کا ایمان تھا کہ ہندوؤں او رمسلمانوں کے درمیان جب تک اخلاص،محبت او ربھائی چارے کا رشتہ قائم نہیں ہوتا ملک آزاد نہیں ہوگا اور اسی مقصد کی تکمیل کے لیے وہ ہندو مسلمان دونو ں فرقہ پرست حلقوں سے جو جتھے رہے۔

مانک ٹالا صاحب نے پریم چند پر بہت گیرائی او رگہرائی سے کام کیا اور حقائق کو ہمارے سامنے پیش کیا۔

بقول ڈاکٹر پردیپ جین:۔ ”جہاں سبھی ماہرین پریم چند نے اچانک ہی اپنا تحقیقی کام کرنا بند کردیا وہاں مانک ٹالا صاحب نے اپنا تحقیقی کام تب ہی بند کیا جب ان کی ناساز طبیعت نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی۔اوراتنا ہی نہیں اپنی روایت کو زندہ رکھنے کے لئے اپنا سبھی ادبی سرمایہ مجھے 12 /اپریل 2008 ء کو ممبئی میں بے جھجک دے کر ایک انوکھی مثال قائم کی۔

اس بات سے ثابت ہوتاہے کہ مانک ٹالا صاحب نے اپنے موضوع کا حق ادا کردیاہے۔پریم چند پر ان کی کچھ او رکتابیں بھی منظر عام پر آئیں جن میں تو قیت پریم چند (2002ء) او رپریم چند درپن (2003ء) خاص ہیں۔ اسی کے ساتھ انہوں نے پریم چند کے کچھ مضامین او رکہانیوں کا اردو ترجمہ کرکے بھی شائع کرائے۔ شورانی دیوی کتاب پریم چند گھر میں کا بھی اردو میں ترجمہ کیا۔

22 جنوری،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

-----------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/premchand-gopal-krishan-maniktala/d/131563

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..