New Age Islam
Sun Apr 20 2025, 05:38 PM

Urdu Section ( 2 Sept 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Predestination versus Volition تقدیر اور قوت ارادی

 سمت پال، نیو ایج اسلام

 27 اگست 2022

 میں تعلیم یافتہ جناب غلام محی الدین سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ کوئی بھی عقلمند شخص تقدیر پر یقین نہیں رکھتا۔ اگر تقدیر پر یقین کیا جائے تو کسی فرد کی زندگی میں اپنی مرضی اور قوت ارادی کی کوئی اہمیت نہیں بچتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جو خدا کو نہیں مانتے، تقدیر پر یقین رکھتے ہیں اور وہ بھی ایمان والوں کی طرح یہ مانتے ہیں کہ انسانی زندگی پہلے سے طے شدہ ہے۔

 دوسرے لفظوں میں، ہم میں سے زیادہ تر لوگ ایک نامعلوم اور اب تک سمجھ میں نہ آنے والی ایک طاقت پر یقین رکھتے ہیں اور زندگی کے حالات اور واقعات کو اسی سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ فاسد عقیدہ ہے جو ہمیں جبریہ اور قدریہ بناتا ہے۔

 تمام انسانوں کو ایک قوت ارادی سے نوازا گیا ہے اور ہمیں اسے استعمال کرنا چاہیے۔ چاہے یہ کسی فرد کی پیدائش سے 40 سال پہلے لکھی اور طے شدہ تقدیر کے بارے میں قرآنی عقیدہ ہو، پوران (وشنو اور گروڈ پرانوں کے مطابق) پرابدھ کا تصور ہو یا عیسائیت میں تقدیر کا عقیدہ، ہم اس عقیدے کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں کہ "ہم لوگ کھلونے" ہیں ایک ایسے کھلاڑی کے/ جس کو ابھی صدیوں تک یہ کھیل رچانا ہے" جسے ملحد ساحر لدھیانوی نے فلم 'دھند،' 1973 کے لیے اپنی ایک گیت 'سنسار کی ہر شئی کا......'، میں لکھا ہے۔ تقدیر انسانوں کو بے بس مخلوق میں تبدیل کرنے کے لیے ایک مخصوص الٰہیاتی آلہ یا فریب ہے۔

 ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنے اکثر شعر میں تقدیر کا رد کیا ہے، "خودی کو کر بلند اتنا کے..." درحقیقت اقبال اپنے ابتدائی دور میں تقدیر کے خلاف اس قدر آواز بلند کر رہے تھے کہ علمائے کرام نے انہیں خطرہ محسوس کیا اور متحد ہو کر ان کی مذمت کی۔ لہذا، بعد کے میں انہیں خودی (پروشارت) کے اپنے نظریہ پر توجہ کو کم کرنا پڑا۔

 ڈین مور نے اپنی کتاب 'تھیولوجیکل ڈبل ڈچ اینڈ ویسٹرن آئیڈیا آف ایتھزم' میں لکھا ہے کہ "تثلیث اور سامی پیشین گوئی کا من گھڑت تصور دو اہم مذہبی نظریات تھے جنہوں نے عقلیت پسندوں کی ایک جماعت کو جنم دیا جنہوں نے ان عقائد کے خلاف صلیبی جنگ شروع کی۔"

 نطشے ایسے جدید ملحدوں اور غیر مومنوں میں پیش پیش ہیں جنہوں نے تقدیر کا رد کیا۔ ایک فرد اپنی تقدیر کا معمار ہوتا ہے اور انسانی وجود ایک صاف ستھری تختی کی مانند ہوتا ہے (لاطینی زبان میں Tabula Rasa، جسے انگریز فلسفی جان لاک نے ایجاد کیا ہے)۔ ایک فرد جو کرتا ہے وہ زندگی کی اس تختی پر اس کی تحریر ہوتی ہے۔ جس طرح سے آپ تختی پر لکھی ہوئی چیزوں کو مٹا سکتے ہیں، اسی طرح آپ اپنے وجود کی تختی سے بھی ناپسندیدہ اور غیر ضروری باتوں کو مٹا سکتے ہیں۔

جو کچھ بھی انسان کے ساتھ ہوتا ہے وہ ایک بے ترتیب واقعہ ہے اور آپ کو اسے خدا کی مرضی یا ماضی کے کرموں سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ یہ سراسر بکواس اور خرافات ہے۔ یہ کہنا کہ تقدیر ناقابل تسخیر ہے یا خدا کے طریقے انسانوں کے لیے ناقابلِ فہم ہیں، ہماری بے بسی کی علامت ہے۔

 یہ سچ ہے کہ چیزیں اکثر اس طرح ہوتی ہیں کہ ہمارے پاس ان کا کوئی جواب یا کوئی گمان نہیں ہوتا۔ لیکن اگر ہم خدا یا تقدیر کو خاطر میں لائے بغیر صبر و ضبط کے ساتھ ان پر غور کریں تو وقت کے ساتھ ساتھ جوابات سامنے آتے ہیں۔ ہمیں صرف سندھ وشواس جیسی غیر معقول فکر سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے جس نے ہماری بصارت پر پردہ ڈال دیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کسی خدا پر یقین رکھتے ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تو لیکن اسے آپ اپنی تقدیر کا رچیتا نہ بنائیں۔ اسے کائنات کے کسی کونے میں رہنے دیں۔ آپ اپنی زندگی کے ساتھ آگے بڑھیں، اور اپنی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور اس کے نشیب و فراز کے لیے صرف اپنے آپ کو ذمہ دار مانیں۔

 ----

English Article: Predestination versus Volition

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/predestination-volition/d/127857

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..