ڈاکٹر خواجہ محمد سعید
(آخری حصہ)
30دسمبر،2022
(گزشتہ سے پیوستہ)
دعا کی فلسفیانہ
اہمیت
علامہ اقبال دعا کی اہمیت
پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں
دعا کی بدولت ہماری شخصیت
کا چھوٹا سا جزیرہ اپنے آپ کو بحر بیکراں میں پاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں حقیقت ِ
مطلقہ سے ہمکنار ہو کر ہماری شخصیت میں طاقت اور وسعت پیدا ہوجاتی ہے۔ دعا مانگنا
فطری تقاضا ہے۔ فطرت کا عمیق مطالعہ بھی دُعا ہے۔
(ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ، تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ )
مولانا روم کے نزدیک
جب کوئی شخص صدق دل اور عجزونیاز سے دعا کرتا ہے تو یہ توفیق ِ دعا اور رقت ِ قلب
خود خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو مولانا نے ایک قصے میں بیان کیا ہے کہ ایک
شخص صبح شام اللہ اللہ کرتا رہتا تھا اور اس کا منتظر رہتا تھا کہ اللہ کی طرف سے
لبیک کی آواز آئے گی کہ میں موجود ہوں اور سن رہا ہوں۔ لیکن کوئی ایسی آواز
سنائی نہ دی تو شیطان نے اس کے دل میں ڈالا کہ تو کیا صبح شام اللہ اللہ کرتا ہے،
اگر وہ سنتا اور قبول کرتا توتجھے جواب دیتا۔ اس بے فائدہ ذکر میں وقت کیوں ضائع
کرتا ہے؟ اس پر حضرت خضر نے اس کے خواب میں آکر پوچھا تم دل شکستہ کیوں ہوگئے ؟اس
نے کہا کہ خدا کچھ جواب نہیں دیتا، اس لئے میری دعا کس کام کی ؟ حضرت خضر نے کہا
مجھے اللہ نے کہا ہے کہ اس بندے سے کہہ دو کہ تیرا ہمیں یاد کرنا ہی لبیک ہے، تیری
دعا میں یہ نیاز و سوز ہمارا ہی فرستادہ ہے۔
صورت اور معنویت
عبادت میں اگرچہ اصل
مقصودمعنی ہے مگر کسی حد تک صورت بھی مقصودہے۔ بخلاف دعا کے اس میں صرف معنی ہی
معنی مقصود ہے۔ اللہ سے اپنی ضروریات کا اظہار، عاجزی اور نیازمندی کو ظاہر کرتے
ہوئے گڑگڑا کر مانگنے کا نام دُعا ہے۔ دُعا میں نہ کسی وقت کی شرط، نہ عربی زبان کی شرط، نہ خاص جہت کی شرط، نہ
کوئی مقدار معین، نہ وضو وغیرہ کی کوئی قید ہے۔ اس میں صرف عاجزی، نیازمندی اور رب
العزت کے سامنے اپنی احتیاج کا اظہار کرنا ہے۔ دُعا میں صورت نہیں بلکہ معنی مقصود
ہیں۔ دعا کے لئے حضورِ قلب، تواضع، عاجزی اور خود سپردگی ضروری ہے کیونکہ اللہ رب
العزت تو قلب کی حالت کو دیکھتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے:’’اللہ
تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتے بلکہ تمہارے قلوب کو دیکھتے ہیں۔‘‘ یہاں قلب
سے مراد یہ گوشت کا ٹکڑا نہیں جو پسلیوں کے اندر پایا جاتا ہے بلکہ اس سے مراد ایک
لطیفہ ٔ غیبی ہے۔ جیساکہ بعض اوقات ہم
کہتے ہیں کہ اس وقت میرا دل بازار میں ہے حالانکہ اس وقت ہم بازار میں نہیں
ہوتے۔یہاں علمی حقائق پر دلیل دینا مقصود نہیں بلکہ ذہن کو اس حقیقت سے قریب کرنا
مطلوب ہے۔ عبادات کی نسبت دُعا میں ایک اضافی خصوصیت پائی جاتی ہے، وہ یہ کہ اگر
عبادات دنیا کے لئے ہوں تو وہ عبادات نہیں رہتیں مگر دُعا ایک ایسی چیز ہے کہ
اگر دنیا کے لئے ہو تب بھی عبادت ہے اور
اس کا ثواب ملتا ہے۔
امام غزالی ؒلکھتے ہیں کہ
اگر طبیب نے مریض کو بتایا کہ آج دن کا کھانا نہ کھائو، اگر کھایا تو نقصان ہوگا۔
اور وہ اس غرض سے روزہ رکھ لے یا کوئی شخص دورانِ سفر اس غرض سے مسجد کے اندر
اعتکاف کر لے کہ ہوٹل وغیرہ کا کرایہ بچ جائے گا تو ایسی صورت میں اس کو ثواب نہیں
ملے گا مگر دُعا کے ضمن میں ایسی بات نہیں ہے۔ کتنی ہی دنیاوی حاجتیں مانگی جائیں
ثواب پھر بھی ملے گا کیونکہ دُعا سراسر عاجزی، انکساری اور نیازمندی ہے۔ نیازمندی
بذات خود ایک محبوب عمل ہے کیونکہ جہاں نیازمندی ہوگی وہاں تکبر نہیں رہے گا۔ تکبر
اور بڑائی کا اظہار اللہ کے غضب کا باعث بنتے ہیں۔
حضرت بایزید بسطامی ؒسے
منقول ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے اللہ رب العزت سے عرض کیا کہ مجھے اپنی طرف آنے کا
آسان تر طریق بتلا دیجئے۔ جواب میں ارشاد ہوا: ’’اپنی خودی کو چھوڑ اور آجا۔
‘‘حافظ شیرازی ؒ نے اس مضمون کو کیا خوب بیان کیاہے، فرماتے ہیں
میان عاشق و معشوق ہیچ
حائل نیست
توخود حجاب خودی حافظ
ازمیان برخیز
(اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہے۔ اے حافظ!
تو اپنے حجاب خودی کو درمیان سے ہٹا دے۔)
تو دروگم شود وصال ایں
است و بس
گم شدن گم کن کمال ایں
است و بس
(اس میں تو فنا ہو جا، یہی وصال کافی ہے۔ تو اپنا گم ہونا بھول جا،
یہی انتہائی کمال ہے۔)
حضرت یوسف علیہ السلام کو
اپنے رب پر بھروسا تھا کہ باوجود دروازہ بند ہونے کے دوڑے اور کوشش کی تو اللہ
تعالیٰ نے دروازے بھی کھول دیئے۔ گویا اگر صدق دل سے طلب اور کوشش ہو تو مقصود
ملنے کی یقینی امید ہے۔
بنیادی فلسفہ
دعا دراصل انسان کے پاس
اپنے سے بالا و برتر ہستی کو مخاطب کرنے کا ذریعہ ہے جس میں اس ہستی یا ذات کی
تعریف کی جاتی ہے اور اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔ دعا دنیا کی
ہر تہذیب کا حصہ ہے۔ اس کا تعلق کسی مخصوص مذہبی روایت سے نہیں ہے۔ اگرچہ خدا اور
بندے کے درمیان دنیا میں تعلق کے فہم کے حوالے سے دعا کی بنیادیں مختلف ہیں۔
دعا کا بنیادی فلسفہ یہ
ہے کہ یہ اللہ رب العزت اور بندے کے درمیان قربت کا ذریعہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ
پر یقین انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ دعا انفرادی بھی ہوسکتی اور اجتماعی بھی۔ اپنی
مختلف صورتوں میں دُعا عبادت کا مغزہے، مثلاًیہودی مذہب میں دعا کو مرکزی حیثیت
حاصل ہے۔ قدیم زمانے میں گرجے دعا کے مرکز تھے۔
اپنے محدود معنوں میں
مانگنے کا عمل گویا اپنی قسمت کے بارے میں روحانی قرب کا فہم حاصل کرنا ہے، جب کہ
وسیع معنوں میں دعا حقیقت مطلقہ سے قرب کے یقین کا نام ہے۔ اپنے آپ کو پورے اخلاص
اور سپردگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرنا بھی دعا ہے۔ دعا عقیدے کی روح
ہے کیونکہ دعا کے بغیر عقیدہ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ دعا ہی ہے جو انسان اور
اللہ تعالیٰ کے درمیان تعلق پیدا کرتی ہے۔ ہماری دعا کے نتیجے میں اللہ رب العزت
بھی ہم سے مخاطب ہوتا ہے، یعنی دعا کا جواب دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے دعا سننے
کا مفہوم بھی قرب الٰہی کا حصول ہی ہے۔ جس طرح بچہ اپنے والدین سے کسی شے کی
فرمائش کرتا ہے اور والدین اس کو پورا کردیتے ہیں، دراصل اس فرمائش کی تکمیل کی
پشت پر والدین کا وہ پیار ہوتا ہے جو کہ ان کو اپنی اولاد کے ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ
تعالیٰ کے دُعا سننے کا بھی یہی مفہوم ہے
کہ اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے اور ان کی دعائوں کو قبول کرتا ہے۔
الغرض دعا کا اصل مفہوم
بندے اور اللہ رب العزت کے درمیان تعلق ہے اور یہ تعلق طبیعیاتی سے زیادہ مابعد
الطبیعیاتی ہے۔ دعا سے انسان کی روحانی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یوں وہ ایک نئی
دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ آخر میں اتنا عرض کر دوں کہ ہم دُعا پڑھتے ہیں، دُعا
مانگتے نہیں۔ اگر ہم صدقِ دل سے دُعا مانگیں تو ہمیں اپنی دعائوں کی قبولیت کا
یقین حاصل ہوسکتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد خداوند ی ہے: ’’ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ
ان کی دعا قبول فرماتا ہے اور ان کو اپنے فضل سے بڑھاتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے
لئے سخت عذاب ہے۔‘‘(الشورٰی :۲۶)
دعا جو بذات خود عبادت ہے
اس سے جو لہریں دعا کرنے والے انسان کے جسم سے خارج ہوتی ہیںیہ انسان کے گرد ایک
حصار بنا لیتی ہیں۔ یہ حصار اس کو شیطانی وسوسوںسے محفوظ رکھتا ہے۔ اس سے فوراً
انسان کو اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے، یہ ایک مابعد الطبیعیاتی عمل ہے۔اس کا ادراک
ہرانسان کو نہیں ہوتا لیکن ہر انسان جو دعا مانگتا ہے اس کے ساتھ یہ عمل ضرور ہوتا
ہے۔اس طرح انسان ہر طرح کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔ جب انسان شر سے محفوظ ہو تو یہی
قرب الٰہی ہے۔ گویا دعا ایک طرف تو انسان کی حفاظت ہے جبکہ دوسری طرف قرب الٰہی کا
بڑا ذریعہ ہے۔ یہ تقویٰ، اخلاص اور توکل کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے۔
آخر میں رب العزت سے یہی
دعا ہے کہ: ’’اے میرے رب تو ہی میری ڈھال، تو ہی میری چٹان اور میرا حصار، تو ہی
میری زندگی، میرا حال اور مستقبل ہے۔ آگے بڑھ کر مجھے اپنی پناہ میں لے لے جیسے
بہار ایک خزاں رسیدہ چمن کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے‘‘۔ آمین
30 دسمبر،2022، بشکریہ: انقلاب،نئی
دہلی
---------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism