ڈاکٹر محی الدین غازی
11 فروری 2022
عقل سے انسیت پیدا کرنے کے
لئے ضروری ہے کہ قرآن مجید عقل کے بارے میں کیا موقف رکھتا ہے اسے جانا جائے۔
----------
عقل استعمال کرنا تو
انسان کی فطرت میں شامل ہے، تاہم عقل کے استعمال سے روکنے والے محرکات کبھی اتنا
زیادہ اثر انداز ہوجاتے ہیں، اور عقل کو اس طرح جمود وتعطل کا شکار کردیتے ہیں، کہ
پھر ایسے محرکات کی ضرورت پڑتی ہے، جو عقل کو فعالیت اور حرکیت عطا کریں۔ یہاں بعض
طاقت ور محرکات کا تذکرہ کرنا مفید ہوگا:
قرآن مجیدسے شعوری تعلق
قرآن مجید غور وفکر کے
سلسلے میں ایک طاقت ور محرک ہے۔ قرآن مجید میں عقل اور عقل کے مختلف اعمال کا ذکر
بار بار آیا ہے، لیکن کہیں بھی عقل استعمال کرنے کی مذمت نہیں ہے، ہر جگہ عقل
استعمال کرنے پر ابھارا گیا ہے، عقل کے استعمال کی ستائش بہت زیادہ ہے، عقل نہیں
استعمال کرنے کی ستائش کہیں نہیں ہے، بلکہ عقل استعمال نہیں کرنے کی شدید مذمت کی
گئی ہے۔
عقل سے انسیت پیدا کرنے
کے لئے ضروری ہے کہ قرآن مجید عقل کے بارے میں کیا موقف رکھتا ہے اسے جانا جائے۔
امت کو عقل سے قریب کرنے اور مانوس کرنے کا قرآن سے زیادہ موثر کوئی ذریعہ نہیں
ہے۔عقل سے قربت قرآن سے قربت کا ایک پیمانہ ہے۔ امت قرآن سے جتنا زیادہ قریب
ہوگی وہ عقل سے بھی اتنی ہی زیادہ قریب ہوگی، اور قرآن سے جتنی زیادہ دور ہوگی وہ
عقل سے بھی اتنی ہی زیادہ دور ہوگی۔
امام فراہی لکھتے
ہیں:”آسمانی کتابوں میں قرآن وہ کتاب ہے جو سب سے بڑھ کرعقل کو مخاطب کرتی ہے،
عقلی دلائل کی طرف عقل کو متوجہ کرتی ہے، عاقلوں کی تعریف اور غافلوں کی مذمت کرتی
ہے، یہ ایسی محکم اور واضح قرآنی حقیقت ہے جس کے سلسلے میں کسی کو شک بھی نہیں
ہوسکتا۔“( حجج القرآن)
عباس محمود العقاد لکھتے
ہیں: ”قرآن کریم عقل کا ذکر صرف وہاں کرتا ہے جہاں عقل کی تعظیم مقصود ہوتی ہے،
اور جہاں اس کے مطابق عمل کرنے اور اس کی طرف رجوع کرنے کی طرف متوجہ کرنا ہوتا
ہے۔ اور پھر یہ تذکرہ آیتوں کے سیاق میں ضمنی یا اتفاقی طور سے نہیں ہوتا، بلکہ
ہر جگہ لفظ اور دلالت کی تاکید کے ساتھ ہوتا ہے۔امر اور نہی کے ہر موقع پر اس کی
تکرار ہوتی ہے، جہاں مومن کو اپنی عقل کو حکم بنانے پر ابھارا جاتا ہے، یا منکر کو
عقل کے بارے میں لاپروا ہونے اور اس پر پابندی قبول کرلینے پر ملامت کی جاتی ہے۔
مزید برآں جدید علوم کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والے علم نفس کے ماہرین عقل کے جتنے
اطلاقات بتاتے ہیں ان میں سے کسی ایک کے بجائے عقل کے سارے ہی مختلف کاموں اور
مختلف خصوصیات سے متصف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔“ ( التفکیر فریضة اسلامیة )
عقاد مزید لکھتے ہیں؛
”ہمیں یہ بات بار بار تازہ کرنی چاہئے، کہ قرآن مجید میں عقل کی ستائش یونہی نہیں
آئی ہے، اور اس کی بار بار تکرار بلا وجہ نہیں ہے۔ بلکہ عقل کی یہ سراہنا ایک
متوقع امر تھا، دین کا مغز اور اس کا جوہر اسی کا تقاضا کرتا ہے، جو اس دین کی
حقیقت سے واقف ہوگا اور اس انسان کی حقیقت سے واقف ہوگاجو اس دین کا مخاطب ہے اسے
اسی کی توقع ہوگی۔“ (ایضاً)
مومن کا کائنات سے رشتہ
(آیات اور خلافت دو اہم
رشتے)
غور وفکر کے لئے طاقت ور
محرک یہ کائنات بھی ہے، جس میں انسان کو بسایا گیا ہے، جسے انسان کے لئے امتحان
گاہ بنایا گیا ہے اور جس میں غور وفکر کرنے کے بے شمار مواقع رکھ دیئے گئے ہیں۔
قرآن مجید نے انسان اور کائنات میں دو بڑے رشتے بتائے ہیں، اور دونوں ہی رشتے غور
و فکر کے عمل کی ہمت افزائی کرنے والے ہیں۔ایک رشتہ آیات کا ہے کہ کائنات کی ہر
چیز میں نشانی ہے۔ یہ وہ نشانیاںہیں جو سمع وبصر اور تفکر کا تقاضا کرتی ہیں۔ جب
تک سمع وبصر اور تفکر کا فعال رشتہ قائم نہیں ہوگا، نشانیوں والے پہلو تک رسائی
نہیں ہوسکے گی۔دوسرا رشتہ خلافت کا ہے، کہ کائنات انسانوں کے لئے بنائی گئی ہے، ان
کے لئے مسخر کی گئی ہے، اور انسان اس کے عمرانی پہلو کے لئے ذمہ دار ہیں۔ انسانوں
کو اس کائنات میں کھوج لگانے کا اختیار اور اس کے وسائل دیے گئے ہیں۔ اور کائنات
کی چیزوں سے منفعت حاصل کرنے اور منفعت کو بڑھانے کی تدبیریں اختیار کرنے کا موقع
اور طاقت دی گئی ہے۔
غرض اس کائنات سے انسان
کا صحیح رشتہ اس وقت استوار ہوسکے گا، جب وہ اپنی عقل کا بھر پور استعمال کرے گا۔
انسان کے اندر غور وفکر
کا داعیہ
غور وفکر کا طاقت ور محرک
انسان کے اندر تلاش وجستجو اور غور وفکر کا وہ داعیہ بھی ہے جو اللہ نے ہر انسان
کے اندر ودیعت کیا ہو ا ہے۔ انسان فطری طور پر غور وفکر کرنے والا واقع ہوا ہے۔
اگرغور وفکر کے مخالف بیرونی اسباب کی وجہ سے یہ فطری جذبہ سرد نہ پڑجائے، تو
انسان کو کسی خارجی محرک کی ضرورت ہی نہ پڑے، اور وہ داخلی جذبے کے تحت ہی عقل کے
دوش پر بیٹھ کرحقائق کی جستجو میں پرواز کرتا رہے۔
سنت میں فقہ واجتہاد کی
ترغیب
اللہ کے رسول ﷺ کے پیش
نظر ایسی جماعت کی تیاری تھی جو غور وفکر اور فقہ واجتہاد کے اس مقام پر پہنچ
جائے، کہ آپ ﷺ کے بعد خلافت کی ذمہ داریاں انجا م دے سکے۔ آپؐ اپنی امت کو دین
میں گہری سمجھ حاصل کرنے کی تلقین فرماتے تھے: مَن یرِدِ اللَّہُ بِہِ خَیرًا
یفَقِّہہُ فِی الدِّینِ (صحیح البخاری) (اللہ جس کے لئے خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے
دین میں سوجھ بوجھ عطا کرتا ہے۔)
اسلام میں آنے کے بعد
بہترین لوگوں میں شامل ہونے کے لئے سمجھ بوجھ کی منزل سر کرنا ضروری شرط
تھی۔فرمایا: فَخِیارُکُم فِی الجَاہِلِیۃ خِیارُکُم فِی الاِسلاَمِ اِذَا فَقُہُوا
(صحیح البخاری) (تم میں جو جاہلیت میں بہترین ہیں، وہ اسلام میں بھی بہترین ہوں
گے، اگر وہ سوجھ بوجھ پیدا کرلیں۔)
اللہ کے رسول ﷺ نے
عبداللہ بن عباسؓ کو دعا دی: اللَّہُمَّ فَقِّہہُ فِی الدِّینِ (صحیح البخاری)
(اللہ اسے دین میں سوجھ بوجھ عطا کر۔)
حضرت عمرؓ نے حسن بصریؒ
کے لئے یہی دعا کی۔(سیر اعلام النبلاء)اللہ کے رسول ﷺ نے اجتہاد کی ترغیب دی، اور
اس راہ کے اندیشوں کو دور کیا: ’’ جب حاکم فیصلہ کرتا ہے، اس کے لئے اجتہاد کرتا
ہے، اور صحیح فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لئے دو اجر ہوتے ہیں، اور جب فیصلہ کرتا ہے،
اس کے لئے اجتہاد کرتا ہے، اور غلط فیصلہ کرتا ہے،تو اس کے لئے ایک اجر ہے۔‘‘(صحیح
البخاری)غور وفکر کے سلسلے میں ایک بڑی رکاوٹ غلطی کردینے کا خوف ہوتا ہے،اس خوف
سے متاثر ہوکر انسان خود کو روک کر رکھتا ہے، اور اسی خوف کا حوالہ دے کر انسان
دوسروں کو بھی روکتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے اس خوف کو یکسر ختم کردیا اور غلطی کرنے
والے کو بھی ایک اجر کی خوش خبری سنادی۔ یہ غور وفکر کے عمل کی بہت بڑی تائید اور
نصرت ہے۔ایک مشہور زمانہ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذؓ کو یمن
بھیجا، تو ان کے جانے سے قبلہ دریافت
فرمایا: کیسے فیصلے کرو گے؟ حضرت معاذؓ نے
عرض کیا: میں اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ ارشاد ہوا: اگر اللہ کی کتاب میں نہ ہو؟ عرض کیا: اللہ کے
رسول ﷺ کی سنت سے کروں گا۔ ارشاد ہوا: اگر اللہ کے رسول کی سنت میں بھی نہ ہو؟ عرض
کیا: میں محنت سے غور وفکر کروں گا، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی حمد ہے جس نے
اللہ کے رسولؐ کے فرستادے کو صحیح راہ دکھائی۔ (سنن ترمذی)
بدلتے ہوئے زمانے کی
ضرورتوں کا احساس
زمانے میں ہونے والی
تبدیلیوں کا شعور جتنا زیادہ ہوتا ہے، غور وفکر کے لئے اکساہٹ بھی اتنی ہی زیادہ
بڑھتی ہے۔لاعلمی اور بے خبری کے خول میں بند افراد کے اندر غور وفکر کا طاقت ور
داعیہ پیدا نہیں ہوسکتا ہے۔ اسی لئے ہر زمانے میں تجدید و اجتہاد کے کارنامے انہوں
نے انجام دیئے جن کی نگاہ زمانے کی تبدیلیوں پر تھی، خواہ وہ سماجی تبدیلیاں ہوں،
نئے نظریات اور نظاموں کی آمد ہو، دین کے تعلق سے نئے اعتراضات اوربحثوں کا ظہور
ہو۔امت کے اندر زمانے کی تبدیلی سے واقفیت پیدا کرکے، غور وفکر کے لئے راہ ہموار
کی جاسکتی ہے۔
امت کی پسماندگی کے سلسلے
میں فکرمندی
خوش فہمیوں سے باہر نکال
کردینی اور دنیوی دونوں پہلوؤں سے امت کو اس کی اپنی پسماندگی سے باخبر کرنا بھی
غور وفکر کی تحریک چھیڑ نے میں معاون ہوسکتاہے۔غور وفکر کی دعوت دینے والوں کے
اندر ہم یہ بات مشترک پاتے ہیں کہ وہ غور وفکر کو ایک مشغلے کے طور پر اختیار
کرلینے کے داعی نہیں تھے، بلکہ وہ امت کی صورت حال کو دیکھ کر سخت تشویش میں مبتلا
تھے اور امت کی پسماندگی کا علاج وہ وحی اور عقل کی طرف رجوع ہونے میں دیکھتے تھے۔
عقل کا مقام بہت بلند ہے، انسانی جسم میں اسے سب سے اونچے مقام پر رکھا گیا ہے،
قوموں کو بھی اسے اتنے ہی اونچے مقام پر رکھنا چاہئے۔ جو قومیں عقل کو صحیح مقام
نہیں دیتی ہیں، وہ ترقی نہیں کرتی ہیں، اور ترقی کرتی بھی ہیں تو انجام کار ترقی
کے نام پر تباہی کی طرف سفر کرتی ہیں۔ جس معاشرے میں غور وفکر کی جگہ سنی سنائی
باتیں لے لیں، بے عقلی سے تنفر ختم ہوجائے اور معقولیت وغیر معقولیت یکساں قرار
پائے، اس معاشرے کے اندر اصلاح اور تجدید کے کاموں کے لئے راستے تنگ ہو کر رہ جاتے
ہیں۔ کیوں کہ اصلاح وتجدید کے لئے عقل کو آواز دینا ہوتی ہے، اور اسے سوچنے کے مقام
پر لانا ہوتا ہے۔ لیکن اگر عقل بے مصرف قرار دی جاچکی ہو، تو پھر اصلاح وتجدید کی
دعوت بھینس کے آگے بین بجانے سے زیادہ نہیں رہ جاتی ۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism