نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
19 جولائی 2023
یو سی سی نافذ کرنے کے
بجائے، حکومت کو پہلے تعدد ازدواج پر پابندی لگانی چاہیے
اہم نکات:
1. تعدد ازدواج سے وراثت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں
2. تعدد ازدواج کی وجہ سے
والدین کے حقوق پامال ہوتے ہیں
3. یو سی سی ہندو یونائیٹڈ
فیملی کو بھی متاثر کرے گا
-----
حکومت نے مانسون اجلاس میں
یکساں سول کوڈ بل لانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا جو 20 جولائی سے شروع ہو کر اور 11
اگست تک چلنے والی ہے۔ اس دوران لاء کمیشن نے ہندوستانی شہریوں اور تنظیموں سے یو
سی سی پر تجاویز طلب کی ہے۔ تجاویز بھیجنے کی آخری تاریخ 28 جولائی ہے۔ اب تک لاء
کمیشن کو پچاس لاکھ تجاویز موصول ہو چکی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق آخری تاریخ
تک 75 لاکھ تجاویز موصول ہو سکتی ہیں۔ لاء کمیشن تمام 75 لاکھ یا اس سے زیادہ
تجاویز کا مطالعہ کرے گی اور پھر حکومت کو ایک سفارش یا مسودہ پیش کرے گی۔ یہ سب
کچھ 10 اگست تک ممکن نہیں لگتا کہ اس پورے عمل میں کم از کم 6 ماہ لگیں گے، حکومت
کو اس کام میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ شمال
مشرقی اور مغربی بنگال سمیت دیگر ریاستوں میں قبائلی برادریوں کی بڑے پیمانے پر
مخالفت کی وجہ سے حکومت آئندہ مانسون اجلاس میں بل پیش کرنے سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔
دیپانکر گپتا کا ماننا ہے
کہ یو سی سی لانے کے پیچھے حکومت کا مقصد دراصل تعدد ازدواج پر پابندی لگانا ہے جس
کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں میں عام ہے۔ اس واحد مقصد کے لیے، حکومت
نے یو سی سی کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ اصل مقصد خاص طور پر مسلمانوں میں تعدد ازدواج پر
پابندی لگانا ہے۔ تاہم حقائق یہ بتاتے ہیں کہ صرف 1.9 فیصد مسلمان ہی تعدد ازدواج
کرتے ہیں جبکہ 1.3 فیصد ہندو بھی اس پر عمل پیرا ہیں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کی
آبادی کے لحاظ سے یہ فرق کچھ زیادہ نہیں ہے۔
چنانچہ مضمون نگار کا کہنا
ہے کہ یو سی سی کو نافذ کرنے اور بے جا افرا تفری کا ماحول پیدا کرنے کے بجائے
حکومت کو صرف تعدد ازدواج پر پابندی لگانی چاہیے کیونکہ یہ تعدد ازدواج ہی ہے جس
سے وراثت، ولایت وغیرہ کے دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یو سی سی لا کر حکومت مسائل
کو حل کرنے کے بجائے مزید مشکلات پیدا کر دیگی۔ چونکہ صرف مسلمان ہی احتجاج کر رہے
تھے اور یو سی سی پر اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کر رہے تھے، اس لیے حکومت کو
یہ غلط فہمی تھی کہ باقی تمام فریق خوش ہیں اور احتجاج نہیں کریں گے۔ لیکن جیسے
جیسے دن قریب آتے گئے، ایس سی اور ایس ٹی نے اپنے تحفظات کا اظہار کرنا شروع کر
دیا۔ اگر یو سی سی لاگو ہوتا ہے تو شمال مشرقی ریاستوں کے لوگ مخالفت میں اٹھیں گے
اور بدامنی کا ایک اور دور شروع ہو جائے گا۔ اس مخالفت کو دیکھ کر حکومت کے کچھ
لیڈروں نے کچھ برادریوں سے چند مستثنیات کا وعدہ کیا ہے۔ اس سے یو سی سی کا بنیادی
مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ اس سے واضح ہو جائے گا کہ یو سی سی کا مقصد واقعی
مسلمانوں کو نشانہ بنانا تھا۔
یو سی سی اگر لاگو ہوتا ہے
تو یہ ایسے بہت سے ایکٹ کو ختم کر دے گا جو معاشرے کے مختلف کمزور طبقوں کے تحفظ
کے لیے بنائے گئے تھے اور جن کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ معاشی اور مالی
طور پر پسماندہ طبقوں کو بھی دیگر ترقی یافتہ طبقوں کے ساتھ آگے بڑھنے اور خوشحال
ہونے کے مساوی مواقع ملیں۔ خواتین، دلتوں اور دیگر کمزور طبقات کے تحفظ کے لیے
بنائے گئے قوانین انہیں آئین کے تحت مراعات دیتے ہیں۔ یو سی سی کے آنے سے ان طبقوں
سے یہ مراعات چھین لی جائیں گی جس سے وہ ملک کے طاقتور اور تعلیمی اور معاشی طور
پر ترقی یافتہ لوگوں کے سامنے کمزور ہو جائیں گے۔ آزادی کے 75 سال بعد بھی کوئی حکومت
تمام طبقات کی یکساں ترقی کو یقینی نہیں بنا سکیں۔ دلت، مسلمان اور ایس سی ایس ٹی
آج بھی اونچی ذات والوں اور فرقہ پرست طاقتوں کے ہاتھوں ستائے جاتے ہیں۔ خواتین اب
بھی مردوں کے ہاتھوں ستائی اور ہراساں کی جاتی ہیں۔ لہذا، ایسے سماجی اور معاشی
حالت میں، یو سی سی لانے سے کمزور طبقے مزید ظلم و ستم، ناانصافی اور محرومی کا
شکار ہو جائیں گے، اور ان سے آئین کا تحفظ بھی چھین لیا جائے گا۔
اس لیے دیپانکر گپتا کا
حکومت کے لیے مشورہ ہے کہ وہ یو سی سی کو لاگو کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے ہر تعدد
ازدواج کو ختم کر دے۔ اس سے طویل مدت میں بنیادی مسائل حل ہوں گے۔
----
سب سے پہلے، تمام تعدد
ازدواج کو غیر قانونی بنایا جائے
دیپانکر گپتا
16 جولائی 2023
یکساں سول کوڈ (یو سی سی)
پر بحث اس وجہ سے خلط مبحث کا شکار ہے کیونکہ یہ بات چھپائی جا رہی ہے کہ اس کا
اصل مقصد تعدد ازدواج پر پابندی لگانا ہے، جو مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی
اجازت دیتا ہے۔ باقی یو سی سی کی تمام باتیں ثانوی ہیں۔ یو سی سی کا آئین میں نان
جسٹبل ڈائیریکٹیو پرنسپلز میں سے ایک ہونا، ایک ایسے وعدے کی طرح ہے جو کبھی پورا
نہیں ہوگا۔
آئین میں یو سی سی کی اس
حیثیت نے اس کی عجلت کو چھین لیا حالانکہ وقتاً فوقتاً، کبھی کبھی اس پر چرچا ہوتا
رہتا ہے۔ اس کی اہمیت و افادیت دھیرے دھیرے ختم ہوتی گئی، اور تعدد ازدواج کو
بڑھاوا ملتا گیا۔ 1980 کی دہائی میں جب شاہ بانو کیس نے مسلمانوں میں تعدد ازدواج
کو ایک قومی اسکینڈل کے طور پر پیش کیا تھا، تو اس وقت اچانک اس پر بحث تیز ہو
گئی۔ حالانکہ اس سے بھی پورے یو سی سی پیکیج پر بحث شروع نہیں ہو سکی۔
حالیہ برسوں میں یو سی سی
پر بے شمار خبروں کے ساتھ تعدد ازدواج ایک بار پھر بحثوں میں ہے، اس میں سے کچھ
محض تصوراتی ہیں، جن کا مقصد مسلمانوں کو ہدف بنانا ہے۔ میڈیا خبروں سے ایسا لگتا
ہے کہ مسلمانوں میں بڑے پیمانے پر تعدد ازدواج کا چلن ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 1.9
فیصد سے بھی کم مسلمان اس پر عمل کرتے ہیں۔ ہندوؤں میں تعدد ازدواج مکمل طور پر
معدوم نہیں ہے کیونکہ مانا جاتا ہے کہ 1.3 ہندو تعدد ازدواج کرتے ہیں۔ تعدد ازدواج
زیادہ تر غریبوں میں موجود ہے۔
بدقسمتی سے تعدد ازدواج
شیڈولڈ کاسٹ (SCs) اور شیڈولڈ ٹرائب (STs) میں بھی موجود ہے۔ اس سلسلے میں، ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے
کہ ہندو میرج ایکٹ میں ایس ٹی کے لیے ایک استثنیٰ ہے اور انہیں اس کے دائرے سے
باہر رکھا گیا ہے۔ نیز، ہمارے آئین نے روایتی مسلم پرسنل لاء کو اس یقین کے ساتھ
جاری رکھنے کی گنجائش فراہم کی کہ کچھ طبقے مکمل جمہوریت کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اگر اس وقت وہ اس کے لیے تیار نہیں تھے تو اب واضح طور پر وقت زیادہ گزر چکا ہے۔
سادہ الفاظ میں، تعدد
ازدواج ایک ایسا عمل ہے جس پر بھرپور طریقے سے قدغن لگانے کی ضرورت ہے، قطع نظر اس
سے کہ کون سی برادری زد میں آتی ہے۔ لہٰذا، یو سی سی کا شور مچانے کے بجائے، کیوں
نہ سب کے لیے تعدد ازدواج کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور اسے سماجی اصلاح کے
دائرے میں جگہ دی جائے۔ وراثت کے قوانین جیسے دیگر مسائل اس وقت تک التوا میں رکھے
جا سکتے ہیں جب تک کہ تعدد ازدواج کا مکمل طور پر خاتمہ نہ ہو جائے کیونکہ جب تک
اس پر مکمل فتح نہ حاصل ہو جائے، دیگر اصلاحات کو کسی اور دن کے لیے ملتوی کیا جا
سکتا ہے۔
ایک بار جب تعدد ازدواج کا
خاتمہ ہو جائے، تو وراثت جیسے معاملات میں صنفی ناانصافی کو دور کرنا آسان ہو جائے
گا۔ ہندو جانشینی ایکٹ کے ساتھ بالکل ایسا ہی ہوا۔ یہ ہندو میرج ایکٹ کے ایک سال
بعد آیا، جس میں تعدد ازدواج کی اجازت نہیں تھی۔ تعدد ازدواج کو غیر قانونی قرار
دیئے بغیر، وراثت کے معاملات کبھی بھی سدھارے نہیں جا سکتے۔ اس کے باوجود، 2005 کی
ترمیم کو نافذ ہونے میں تقریباً مزید 50 سال لگے، جس نے آخر کار ہندو خواتین کو
وراثت کا مساوی حق دیا۔
تعدد ازدواج کے خلاف اتنا
زوردار حملہ فضول معلوم ہوتا ہے کیونکہ معاشرے کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہی اس پر
عمل کرتا ہے۔ یہ دفاعی کردار ادا کرنے کی اچھی وجہ نہیں ہے کیونکہ ہمیشہ چند ہی
لوگ ہوتے ہیں جو قاتلوں، چوروں اور دھوکے بازوں کا شکار بنتے ہیں۔ قانون اس وقت
ناکام ہو جاتا ہے جب مستثنیات سے ایسے متاثرین لامتناہی مایوس کن قانون برداشت
کرنے پر مجبور کر دیے جائیں گویا کہ وہ بارش میں اپنے کپڑے خشک کر رہے ہوں۔ تعدد
ازدواج کے ستائے لوگوں کی تعداد کم ہو سکتی ہے لیکن پھر بھی وہ انصاف کے مستحق
ہیں۔
اس میں، حکمت واضح طور پر
رفتار لانے میں مضمر ہے نہ کہ ایک ہی جھٹکے میں سب کام کر دینے پر اصرار کرنے میں۔
تعدد ازدواج کو یو سی سی پیکج سے نکال کر پہلے اس سے نمٹا جانا چاہیے۔ جب تک یہ
موجود ہے، دیگر تمام اصلاحات، مثلاً دیکھ بھال، گزر بسر وغیرہ پر توجہ نہیں دی جا
سکے گی۔ ہندو جانشینی ایکٹ سے پہلے ہندو میرج ایکٹ کا نافذ کیا جانا نہ صرف ایک
تاریخی حقیقت ہے بلکہ اس بات کی ایک بہترین مثال بھی ہے کہ اصلاحات کو کس طرح
ترتیب دیا جانا چاہیے۔
ایک مکمل یکساں سول کوڈ کا
نفاذ بہت بڑی غلطی اور وقت کا ضیاع ہوگا اور یہاں تک کہ تعدد ازدواج پر بغیر
مزاحمت کے پابندی میں تاخیر کا بھی سبب بنے گا ۔ مکمل یو سی سی کے نفاذ پر اصرار
کرنا اچھی بات نہیں بلکہ ایک فضول کام ہے۔ تعدد ازدواج جمہوریت اور خواتین کے وقار
کی صریح توہین ہے، جسے اگر یو سی سی کے ساتھ پیش کیا گیا تو ختم کرنا مشکل ہو گا۔
کچھ معصوم کثیر ثقافتی اقدار کے حاملوں کو بھی یہ بات ناگوار لگ سکتی ہے۔
اس سے تعدد ازدواج کا،
نسب مادری یا شیڈولڈ ٹرائب میں رائج (ultimogeniture) وراثت فرزند اصغر
جیسے خارجی مسائل کے ساتھ خلط ملط ہو سکتا ہے، جس کے تحت سب سے چھوٹا بہن بھائی
اصل وارث ہوتا ہے۔ لیکن نسب مادری کسی بھی طرح سے غیر جمہوری نہیں ہے اور
الٹیموجینیچر بھی فطری طور پر ختم ہو رہا ہے۔ بڑے بہن بھائیوں نے مل کر اس کے خلاف
حملہ کیا ہے اور عوامی ہمدردی بھی ہے کہ جب تک والدین تولیدی قوت کے حامل ہیں
معلوم نہیں گنتی کہاں رکے گی۔
اس کے علاوہ، جہاں زمین
ایک نسب کے پاس ہوتی ہے، جیسا کہ بہت سے شیڈولڈ ٹرائب کے درمیان، تو وہاں وراثت کا
یکساں قانون مشکل ہوگا۔ مکمل یو سی سی کو اپنانے کا مطلب ہندو غیر منقسم خاندان کو
ٹیکس کے زمرے میں لانا بھی ہوگا۔ کیا کروڑوں ہندو اس کے لیے تیار ہیں؟ یہی وجہ ہے
کہ تعدد ازدواج پر توجہ کرنا بہتر ہوگا اور فی الحال باقی یو سی سی ملتوی کر دیا
جائے۔ تعدد ازدواج کے حیلے کے بغیر، جلد ہی ان کا مقصد بے نقاب ہو جائے گا۔
یہی وہ وقت ہے جب ایک ایک
کر کے معاملات آگے بڑھائے جائیں نہ کہ ایک ساتھ، کیونکہ ایسا کرنے سے سب کچھ خراب
ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک کہاوت ہے: 'جب آپ کا منہ بھرا ہوا ہو تو بات نہ کریں۔'
------
دیپانکر گپتا ایک ماہر
عمرانیات ہیں۔
ماخذ:First, Make All
Polygamy Illegal
---------------
English Article: Polygamy Is the Root of All Social Problems That
Government Wants to Solve Under the Garb of Uniform Civil Code
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism