سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
27 اگست 2022
مضمون کا عنوان عجیب لگ
سکتا ہے کیونکہ دایاں بازو اور بایاں بازو کی اصطلاحات اٹھارہویں صدی میں انقلاب
فرانس کے بعد وجود میں آئیں۔ انقلاب فرانس کے بعد جب فرانس کی پارلیامنٹ کی تشکیل
ہوئی تو پارلیامنٹ میں اسپیکر کی داہنی طرف کی نشست دایاں بازو کہلاتی تھی اور
بائیں طرف کی نشست بایاں بازو۔ داہنی طرف کی نشت میں فرانس کے طاقتور امرا اور
مذہبی قائدین بیٹھتے تھے اور بائیں طرف عوام کے نمائندے اور کمزور قسم کے مذہبی
نمائندے بیٹھتے تھے۔ دائیں بازو کے نمائندے قدامت پسند تھے اور وہ قدامت پسند
سیاسی نظریات رکھتے تھے۔ وہ سیاسی اقتدار، روایات اور جاگیرداری کے حامی تھے۔
بائیں بازو کے نمائندے روایتی امراء اور جاگیرداروں کے مخالف تھے اور مزدور طبقے
اور عوام کے مفادات کے حامی تھے۔ بعد کے زمانے میں دایاں بازو کٹر روایت پرستی اور
قدیم سماجی اور سیاسی نظام کے حامی گروپ کی حیثیت سے جانا گیا ۔ یہ طبقہ قدیم
سماجی نظام میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتا تھا کیونکہ اس نظام میں کوئی بھی تبدیلی ان
کے مفادات کے خلاف تھی۔ یہ طاقتور لوگ تھے۔ حکومت ، دولت اور زمین پر ان کا قبضہ
تھا۔ دوسری طرف بائیں بازو کے لوگ تھے جو جاگیردانہ نظام اور آمریت کے خلاف تھے
مگر کمزور تھے۔ وہ مساوات اور سماجی و سیاسی اصلاحات کے حامی تھے۔
حیرت انگیز طور پر قرآن
ایک مقام۔پر دائیں بازو کا ذکر کرتا ہے۔ اور یہ دایاں بازو اس سیاسی و سماجی
تبدیلی اور اصلاح کے خلاف تھاجس کا اسلام علم بردار تھا۔ قرآن میں کئی مقامات پر
منکرین یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقوں اور اپنی قدیم روایتوں کو نہیں
چھوڑ سکتے۔ ایک مقام پر قرآن قیامت کے دن منکرین کے دو گروہوں کی گفتگو پیش کرتا
ہے جہاں دونوں ایک دوسرے کو جہنم میں لے جانے کا الزام دے رہے ہیں۔
" اور منہ کیا بعضوں نے بعضوں کی طرف لگے پوچھنے ، بولے کہ تم
ہی تھے کہ آتے تھے ہم پر داہنی طرف سے۔ وہ بولے کوئی نہیں پر تم ہی نہ تھے یقین
لانے والےاور ہمارا تم۔پر کوئی زور نہ تھا۔ ۔"(الصٌفت: 28).
مفسرین نے یہاں داہنی طرف
سے آنے والے یعنی عن الیمین سے طاقت ور اور بااثر لوگ مفہوم لیا ہے۔ سماج کے بااثر
اور طاقتور لوگ کمزور لوگوں کو دین سے باز رہنے پر مجبور کرتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے
جو اسلام کی لائی ہوئی سیاسی اور معاشی تبدیلی کے سخت مخالف تھے اور سماج کے کمزور
لوگوں کو طاقت کے بل پر پرانے دین پر ہی قائم رہنے پر مجبور کرتے تھے۔ یہ لوگ
قدامت پسند تھے اور سماجی اور معاشی اصلاح کی مزاحمت کرتے تھے۔
قرآن نے ساتویں صدی ہی
میں آمریت اور قدیم دقیانوسی روایتوں سے چپکے رہنے کو دائیں بازو کا طرز فکر قرار
دیا تھا ۔ اب یہ محض اتفاق تھا یا قدرت کا فیصلہ کہ اٹھارہویں صدی میں انقلاب
فرانس کے بعد وہاں کے پارلیامنٹ میں بھی قدامت پرست ، آمریت پرست اور تبدیلی مخالف
نمائندے داہنی نشست پر بیٹھے اور ترقی پسند اور اصلاح پسند لوگ بائیں نشست پر۔
اسلام نے عرب کے معاشرے
میں مساوات اور عوامی فلاح کے لئے جو اقدامات کئے وہ اس وقت کے لحاظ سے کافی ترقی
پسندانہ تھے۔ زکوة کا نظام لونڈیوں اور غلاموں کی بازآبادکاری کی تحریک سود کی
ممانعت، دختری حقوق کی تفویض اور دختر کشی کا خاتمہ یہ سب ایسے اقدامات تھے جس نے
استحصال پر مبنی قدیم سماجی و معاشی نظام۔پر ضرب لگایا ۔ ان اصلاحات نے ارسٹوکریسی
یعنی دائیں بازو کے مفادات کو نقصان پہنچایا ۔اس لئے امراء اور تاجروں کے طبقے نے
عوام کو مذہب کے نام پر ورغلانے کی کوشش کی۔ مذہب ہر زمانے میں امراء و ارباب
اقتدار کا غریب اور جاہل عوام کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا ذریعہ رہا ہے۔
مختصر یہ کہ قرآن نے دنیا
کو دائیں بازو اور بائیں بازو کے طرز فکر سے بہت پہلے ہی آگاہ کردیا تھا۔ یہاں یہ
بھی کہا جا سکتا ہے کہ عرب میں دائیں طرف کے لوگ کی اصطلاح طاقتور اور بااثر لوگوں
کے لئے استعمال ہوتی ہوگی۔اس لئے غلام اور لونڈی کو ملک الیمین کہا جاتا تھا ۔
لونڈی اور غلام رکھنا امیروں اور رئیسوں کے لئے شان کی بات سمجھی جاتی تھی۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism