مفتی ثناء الہدی قاسمی
31 مارچ،2023
اپنی باتیں دوسروں تک
پہنچانے کے جو طریقے ہمیں دیئے گئے ہیں ، ان میں گفتگو ،تقریر ، لکچر ، ڈائیلاگ ،
بحث ومباحثہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ہم اپنی باتیں تحریر کے ذریعہ بھی دوسروں تک
پہنچاتے ہیں ۔اور حرکات وسکنات کے ذریعہ بھی ۔ جسے باڈی لنگویج یااشاروں کی زبان
کہتے ہیں ، گویا یہ سب چیزیں اظہار کا وسیلہ ہیں۔
اسی لئے ٹھوس ،مدلل
،معقول اور مؤثر گفتگو کی قدر ہر دور میں کی جاتی رہی ہے اور اس کے اثرات قوموں کی
تقدیر بدلنے ، حکومتوں کے عروج وزوال ، سیاسی اتار چڑھاؤ پر لازماً پڑتے رہے ہیں۔
ادھر کچھ دنوں سے دیکھا جارہاہے کہ ہمارے سیاسی رہنما ایسی زبان استعمال کرنے لگے
ہیں ، جو کسی طرح شرفاء کی زبان نہیں قرار دی جاسکتی او ریقینی طور پر ان جملوں سے
ایک خاص فرد یاطبقہ کی توہین ہوتی ہے۔ان جملوں کے کہنے والوں پر اب تک کوئی
کارروائی نہیں ہوسکی ہے اور شاید ہو بھی نہیں ۔البتہ راہل گاندھی کے اس بیان پر
داردگیر ہوگئی ہے کہ رقم لے کر بھاگنے والے سارے کا خاندانی نام مودی ہی کیوں ہے۔
سورت کی عدالت سے دوسال کی سزاسنانے کے بعد ان کی رکنیت جاچکی ہے اور 22 اپریل تک
گھر بھی خالی کرنا ہوگا۔
اس کے جواب میں جو زبان
استعمال کی جارہی ہے ، وہ بھی چنڈوخانے کی زبان ہے اور یہ ایک غلطی کو دور کرنے کے
لیے دوسری غلطی کے ارتکاب کے مترادف ہے۔ کیسا لگتا ہے ،جب ہمارے سیاست داں بھی اس
قسم کے گھٹیا بیانات دیتے ہیں۔ ایسے میں کس سے امید رکھی جائے کہ ان کے بیانات
سماج میں صالح اقدار کو فروغ دے سکیں گے ۔ یہ معاملہ صرف سیاست ہی کا نہیں ہے
،بلکہ وہ لوگ جومسلکی معاملات میں شدت پسند ہیں اور تعصب نے ان کے اندر جڑ پکڑ لی
ہے، مناظروں کے شوقین ہیں، وہ بھی اپنی بات کو ثابت کرتے وقت دوسرے مسلک والوں
کامذاق اڑانے سے بازنہیں آتے۔ بات مدلل ہو، زبان پاکیزہ ہوتو کوئی حرج نہیں، جس
بات کو حق سمجھا جائے ،اس کاذکر کیا جائے ، لیکن استہزا، تمسخر ،ہر زہ گوئی حق کو
ثابت کرنے میں معاون نہیں ہوا کرتے ، بلکہ علمی لوگوں کے اندر اس انداز سے نفور
پیدا ہوتا ہے او روہ ایسی کتابوں کو ہاتھ لگا نے اور ایسی تقریروں کو سننے سے گریز
کرتے ہیں۔ اس سے سماجی انتشار اور کبھی کبھی معاملہ قتل وغارت گری تک پہنچ جاتا
ہے۔ یہی حال خانگی نزاعات اور جھگڑوں کا ہے، اس میں بھی جو زبان استعمال کی جارہی
ہے، اسے ہم مہذب نہیں کہہ سکتے ۔اختلافات ہوتے رہتے ہیں او راپنے حق کے حصول کے
لیے ہر سطح پر جدوجہد کرنی چاہئے ۔ یہ قطعاً مذموم نہیں ہے ،مگر اس کے لیے جو زبان
استعمال کیا جائے، کیا ضروری ہے کہ وہ سوفیانہ ہو، مادر ، پدر آزاد ہو،جب کہ ہمیں
یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائیں۔ اسی طرح کوئی عورت دوسری عورت
کامذاق نہ اڑائے، کیونکہ استہزا ء ہمیشہ اپنے کو بڑا اور اچھا سمجھ کر کیا جاتا ہے
، حالانکہ یہ تو اللہ رب العزت ہی جانتا ہے کہ کون اچھا ہے ؟ ایسا ہوسکتا ہے کہ جو
مذاق اڑارہاہے وہی اپنی اخلاقیات ، کردار کے اعتبار سے کمزور او ربدتر ہو۔ اس کے
علاوہ اس عمل کے نتیجے میں ملکوں، قبیلوں، سماج اور خاندان میں تفرقہ ، انتشار ،
افتراق کے دروازے کھلتے ہیں، اس لیے ہمیں کوئی بھی بیان دینے سے پہلے سوچنا چاہئے
کہ وہ کسی کی دل آزاری کا سبب نہ بنیں۔ گفتگو کرتے وقت حفظ مراتب ، سامع کا پاس
ولحاظ او رمقصد کا خیال رکھا جائے۔ فضول کی بحثوں ، الزام تراشی، ذاتی رکیک حملے
اور لعنت وملامت کرنے سے بھی گریز کرناچاہئے ۔اظہار و اختلاف میں شائستگی او رنرمی
کا رویہ اختیار کیا جائے، جہاں نرمی ہوتی ہے وہاں حسن ہوتاہے جہاں نرمی نہیں ہوتی
، وہاں بدصورتی ہوتی ہے ، پھوہڑ پن ہوتا ہے۔
اسلا م نے اس بات پر زور
دیا ہے کہ رائے کے اظہار میں انصاف سے کام لیا جائے۔ معاملہ اپنا ہو یا والدین کا،
اقربا کا ہو یا رشتہ دار کا امیر کا ہو یا محتاج کا، ہرحال میں انصاف محلوظ رکھا
جائے او رکسی قوم کی دشمنی تم کو انصاف کے راستے سے نہ ہٹائے۔ آج صورت حال یہ ہے
کہ ہماری کسی سے دشمنی ہوتی ہے توساری حدود پار کر جاتے ہیں او راگر دوستی ہوتی ہے
تو زمین وآسمان کے قلاے ملا دیتے ہیں ۔کل تک جو لعن طعن کررہا تھا، آج پارٹی میں
شامل ہوگیا تو پارٹی سپریموں کو ڈنڈت بھی کررہا ہے اور قصیدہ پر قصیدہ کہے جارہا ہے
۔شیخ سعدی کامشہور قول ہے کہ دشمنی میں بھی اس کا خیال رکھو کہ اگر کبھی دوستی
ہوجائے تو شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ اس بے اعتدال نے ہر ایک کے بیان کو بے وقعت کرکے
رکھ دیا ہے۔
بیان کے بعد دوسرا مرحلہ
عمل کاہے۔ بغیر عمل کے صرف بیان کو ‘‘بیان بازی’’کہتے ہیں۔بیان میں جان اس وقت
پڑتی ہے، جب اس کے پیچھے عمل کی قوت ہو، عمل نہ ہوصرف قول ہی قول ہو، بیان ہی بیان
ہوتو یہ انتہائی مذموم کام ہے، عمل ہے لیکن قول کے برعکس ہے تو یہ قول وعمل کا
تضاد ہے۔قول وعمل کے اسی تضاد کی وجہ سے سرکار کی طرف سے اعلان پر اعلان ہوتارہتا
ہے او رلوگ اسے قابل اعتنا نہیں سمجھتے ۔اگر ہم کم بولیں او رکام زیادہ کریں تو
عوام کابھی بھلا ہوگا او رلوگوں کا اعتماد بھی بحال ہوگا، لیکن بدقسمتی سے
ایسانہیں ہو پارہا ہے ۔ اس معاملہ میں سب سے زیادہ ہمارے سیاسی رہنما آگے ہیں۔
کتنے اعلانات دسیوں سال سے حکومتیں کرتی رہی ہیں او ران پر عمل کے اعتبار سے آج
بھی پہلا دن ہے۔ اس طرز عمل سے سیاسی لوگوں کی قدر وقیمت میں گراوٹ کا رجحان بڑھا
ہے۔ پہلے راج نیتی ہوتی تھی، اب راج ہی راج ہے، نیتی کا پتہ نہیں ۔نظریات ،
پالیسیا ں کبھی سیاست میں ہوا کرتی تھیں، لیکن اب یہ قصہ پار ینہ او رماضی کی
داستان ہے۔کل تک سیکولرزم کانعرہ لگا نے والا، کب عہدہ او رٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے
فرقہ پرستوں کی گود میں جا بیٹھے گا، کہانہیں جاسکتا او رپھر اس کی زبان سے کیا
کچھ نکلنے لگے گا اور کس کس کی پگڑی اچھالی جائے گی کہنا، مشکل ہے۔ یہ صرف خیال
نہیں ہے، اپنے ذہن پر تھوڑا زور دیں تو کئی نام آپ کے ذہن میں گردش کرنے لگیں گے۔
پھر الیکشن آرہاہے ، مہم
ووٹروں کے جوڑنے کی بھی چل رہی ہے اور ووٹروں کے توڑنے کی بھی ، آتشیں بیانات کا
سلسلہ شروع ہونے والا ہے ۔پہلے پہاڑ ہی آتش فشاں ہوتے تھے، اب ہماری زبان بھی آتش
فشاں ہوگئی ہے ،ہمیں ان سے ہر حال میں ہوشیار رہنا ہوگا۔ بولنے وقت بھی او رسنتے
وقت بھی ۔ بولتے وقت الفاظ تول کر بولنا ہوگا، کیونکہ اللہ نے ہمارے بول پر پہرے
بٹھا رکھے ہیں اور سنتے وقت اس کے رد عمل سے بچنا ہوگا، تاکہ ہماری زبان آلودہ نہ
ہو۔ یاد رکھئے سخت، گندے او ربھدے الفاظ سے قومی معاملات حل نہیں ہوتے اور سماج
کابھی بھلا نہیں ہوتا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے لفظوں میں ،زبان حد درجہ محتاط
ہونی چاہئے ،کچھ اس طرح کے وقار وتمکنت اور سنجیدگی ومتانت آگے بڑھ کر ان کی
بلائیں لینے لگے۔
31 مارچ،2023، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism