ریحان فضل
5 ستمبر 2023
امریکی صحافی ڈینیئل پرل
----------
38 سالہ امریکی صحافی ڈینیئل پرل معروف اخبار ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے
جنوبی ایشیا کے بیورو چیف تھے۔
اگرچہ ان کا دفتر ممبئی
میں تھا لیکن وہ ایک خبر کے سلسلے میں کراچی گئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی حاملہ
اہلیہ ماریان پرل بھی تھیں۔
وہ اپنی دوست اور وال
سٹریٹ جرنل میں ساتھ کام کرنے والی اسرا نعمانی کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ پاکستان
میں ان کے دورے کا آخری دن 23 جنوری 2002 طے تھا جس کے بعد انھیں دبئی جانا تھا۔
دبئی جانے کی وجہ یہ تھی کہ ان دنوں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کافی کشیدگی تھی
اور دونوں ممالک کے درمیان براہ راست پروازیں بند تھیں۔
اس دن ڈینیئل پرل کو پیر
مبارک علی شاہ جیلانی نامی شخص سے ’شو بمبار‘ کی رپورٹ کے سلسلے میں ملنا تھا۔
اسرا نے شیرٹن ہوٹل فون کیا اور اُن کے لیے ٹیکسی کا آرڈر دیا لیکن اس دن ہوٹل کے
قریب کوئی ٹیکسی دستیاب نہیں تھی۔
مجبورا اسرا نے اپنے نوکر
شبیر کو ٹیکسی لینے بھیجا۔ کچھ دیر بعد شبیر اپنی سائیکل چلاتے ہوئے ٹیکسی لے آئے۔
ڈینیئل ٹیکسی کی پچھلی
سیٹ پر بیٹھ گئے اور چند ہی لمحوں میں ٹیکسی میرین اور اسرا کی نظروں سے اوجھل
ہوگئی۔
ڈینیئل پرل اور اسرا
نعمانی
------
ڈینیئل کا فون بند ہو گیا
ماریان پرل اپنی سوانح
عمری ’اے مائیٹی ہارٹ‘ میں لکھتی ہیں: ’ہم میں سے کوئی اگر اکیلے کوریج پر جاتا،
تو اصول یہ تھا کہ دوسرے شخص کو ہر ڈیڑھ گھنٹے بعد فون کرنا ہوتا تھا، صرف یہ
یقینی بنانے کے لیے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔‘
’میں نے جب انھیں فون کیا تو اُن کا فون بند تھا۔ ان کے فون بند
ہونے کی درجنوں وجوہات ہو سکتی تھیں لیکن عام طور پر وہ ہمیشہ اپنا فون آن رکھتے
تھے۔‘
انھوں نے مزید لکھا:
’تھوڑی دیر بعد میں انھیں ہر 15 منٹ بعد فون کرنے لگی، لیکن ہر بار مجھے ایک ہی
پیغام ملتا رہا کہ فون سوئچ آف ہے۔‘
’ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ چاہے ڈینی (ڈینیئل) کوسوو میں ہوں
یا سعودی عرب یا ایران میں انھوں نے ہمیشہ مجھے فون کرنے کا راستہ تلاش کر لیا
تھا۔‘
نصف شب کے قریب ایک کار
اس گلی میں داخل ہوئی جہاں ڈینیئل پرل رہتے تھے۔
ان کی بیوی ماریان اور
اسرا دروازے کی گھنٹی بجنے کی امید میں باہر کی طرف لپکیں لیکن وہاں موجود گاڑی
آگے بڑھ گئی۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ اگر ڈینیئل رات دو بجے تک نہ آئے تو وہ پولیس
کو فون کریں گی۔
جوں جوں رات گزر رہی تھی
بے چینی بڑھنے لگی۔
جب ڈینیئل دو بجے تک گھر
واپس نہیں آئے تو ماریان اور اسرا نے پولیس کو بلانے سے پہلے امریکی قونصل خانے کو
فون کیا۔
سوتی ہوئی آواز میں قونصل
خانے کے اہلکار کارپورل بیلی نے جواب دیا: ’میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘
ماریان اور اسرا نے انھیں
ساری کہانی سُنائی۔ بیلی نے کہا: ’مجھے امید ہے کہ ڈینیئل صبح سویرے نشے کی حالت
میں گھر واپس آ جائیں گے۔‘
پاکستان ایک اسلامی ملک
ہے جہاں شراب کھلے عام دستیاب نہیں ہوتی اور بیلی کے لیے قونصل خانے میں ایسی
کالیں آنا عام بات تھی۔
بیلی نے دونوں خواتین سے
کہا کہ وہ صبح 6 بجے کال کریں، اگر ڈینیئل واپس نہیں آتے ہیں، اور آپریٹر سے کہیں
کہ وہ ان کا ریجنل سکیورٹی آفیسر رینڈل بینیٹ سے رابطہ کروائیں۔
ماریان کو یہ نام سُنا
سُنا سا لگا۔ دراصل، ڈینیل پرل ایک دن پہلے ہی رینڈل بینیٹ سے ملے تھے۔ ماریان نے
سوچا کہ کم از کم بینیٹ کو یہ نہیں بتانا پڑے گا کہ ڈینیئل کون ہیں۔
اغوا کاروں نے ڈینیئل کے
گھر فون کیا
ماریان رات بھر ڈینیئل کو
فون کرتی رہیں لیکن ان کا موبائل فون متواتر بند ملا۔ صبح کو انھوں نے ’دی وال
سٹریٹ جرنل‘ کے خارجہ امور کے ایڈیٹر جان بسی اور ڈینیئل کے باس کو اس کی اطلاع
دی۔
جان بسی نے ان سے پوچھا:
’اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘ 24 گھنٹے اسی طرح گزر گئے۔ اسی دوران ماریان کے موبائل
فون کی گھنٹی بجی۔
ماریان لکھتی ہیں: ’اسرا
نے لپک کر فون اٹھا کر کہا، ہیلو۔ دوسری طرف سے اُردو میں آواز آئی ’ہماری ڈینیئل
پرل کی بیوی سے بات کروائیے۔‘ اسرا کو فوراً سمجھ آ گئی کہ یہ ڈینیئل کے اغوا سے
متعلق کال تھی۔ انھوں نے کہا ’میں آپ کو بات کراتی ہوں لیکن یہ جان لیں کہ وہ
اُردو نہیں بولتی ہیں۔‘
دوسری جانب موجود شخص نے
کسی سے کہا ’وہ (ماریان) اُردو نہیں سمجھتیں۔‘
یہ کہہ کر اس نے فون بند
کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اردو بولنے والا رابطہ قائم کرنے کے لیے فون نہیں کر رہا تھا۔
وہ ڈینیئل کو چھوڑنے کے لیے اپنی شرائط بتانا چاہتا تھا۔
پاکستانی شدت پسندوں کی
رہائی کا مطالبہ
بعد ازاں ڈینیئل پرل کے
اغوا کاروں نے امریکی حکومت کو ایک ای میل بھیجی جس میں پرل کی رہائی کے بدلے
گوانتاناموبے میں مقیم تمام پاکستانی شدت پسندوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
انھوں نے یہ بھی مطالبہ
کیا کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایف 16 لڑاکا طیاروں کی سپلائی بحال کی جائے۔
اغواکاروں نے کہا کہ اگر
ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو نہ صرف ڈینیئل کو قتل کردیا جائے گا بلکہ کسی امریکی
صحافی کو پاکستان میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
اس ای میل کے ساتھ پرل کی
ہتھکڑی پہنے اور اس دن کے ڈان اخبار کو پکڑے ہوئے ایک تصویر بھی بھیجی گئی۔
اغوا کاروں نے پرل کی
رہائی کے لیے ان کی اہلیہ ماریان اور دیگر کئی لوگوں کی درخواستوں پر توجہ نہیں
دی۔
ڈینیئل پرل کی بیرونی
دنیا کو بھیجی گئی تصویر میں ان کے بال تو سنورے ہوئے تھے لیکن ان کی آنکھیں آؤٹ
آف فوکس تھیں جبکہ اُن کے چہرے کا نچلا حصہ سوجا ہوا تھا۔
برنارڈ لیوی اپنی کتاب
’ہو کلڈ ڈینیئل پرل‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا
کہ یا تو اسے نشہ دیا گیا تھا یا مارا پیٹا گیا تھا۔ اس کے بال کاٹے گئے تھے۔‘
’اتنے دباؤ میں بھی ان کے چہرے پر ایک پُرسکون مسکراہٹ تھی۔ ان سے
ان کی عینک چھین لی گئی تھی۔ ان کو کم کھانا دیا جاتا تھا۔ ان کے ایک محافظ کی
گواہی کے مطابق، ایک بار جب ان کے اغوا کاروں نے انجیکشن کا لفظ استعمال کیا تھا
تو پرل ہوشیار ہو گئے تھے۔‘
لیوی لکھتے ہیں کہ ’پرل
کو لگا کہ وہ اس کے کھانے میں زہر ڈالنے والے ہیں۔ اس خوف کی وجہ سے انھوں نے دو
دن تک بھوک ہڑتال کر دی۔‘
’انھوں نے اس وقت ہی کھانا شروع کیا جب ان کے محافظوں نے اسی
سینڈوچ سے کھا کر دکھایا جو ان کے لیے لایا گیا تھا۔ ان کے دونوں ہاتھ بندھے ہوئے
تھے اور ان کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں۔‘
ڈینیئل پرل کی قید سے
فرار ہونے کی کوشش
ڈینیئل پرل کو کراچی کے
شمالی علاقے کے مضافات میں ایک الگ تھلگ کمپاؤنڈ میں رکھا گیا تھا۔
ماریان پرل لکھتی ہیں کہ
’ٹوائلٹ جانے کے لیے اس کی بیڑیاں کھول دی جاتی تھیں۔ ایک بار انھوں نے ٹوائلٹ کی
کھڑکی سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ جب پکڑے گئے تو انھیں ایک کار کے انجن سے باندھ
دیا گیا۔‘
’ایک بار پھر انھوں نے فرار ہونے کی کوشش کی جب ان کے اغوا کار
انھیں صحن میں چہل قدمی کروا رہے تھے۔ ایک بار جب ایک سبزی فروش نے آواز لگائی تو
انھوں نے چیخ کر اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کی کوشش کی تھی۔‘
’لیکن انھوں نے انھیں بندوق دکھا کر اور اپنے ہاتھوں سے منہ دبا کر
خاموش کروا دیا۔‘
ان کا کھانا نعیم بخاری
نامی شخص لاتے تھے۔ وہ لشکر جھنگوی کی مقامی یونٹ کے سربراہ تھے۔ ڈینیئل کو اغوا
کرنے سے پہلے بھی پولیس درجنوں شیعہ مسلمانوں کے قتل کے سلسلے میں اس کی تلاش میں
تھی۔
23 جنوری کو جب ڈینیئل ہوٹل میٹروپول میں اپنی گاڑی میں بیٹھے تھے
تو موٹرسائیکل پر بیٹھے نعیم ہی اسے اس احاطے تک لائے تھے۔
’تسمہ باندھنے کی ضرورت نہیں‘
ڈینیئل کو آخری دم تک
معلوم نہیں تھا کہ وہ مارے جانے والے ہیں۔
ہنری لیوی لکھتے ہیں کہ
’ڈینیئل پرل کو اس کی ایک جھلک اُس وقت ملی جب اس کمپاؤنڈ کے منتظم کریم انھیں
جگانے آئے۔ خوابیدہ آنکھوں کے باوجود پرل کو معلوم ہوا کہ یہ پرانا کریم نہیں ہے۔‘
’اس کا چہرہ پتھر جیسا ہو گیا تھا۔ جب پرل کو اپنے جوتے کے تسمے
باندھنے میں کچھ دقت پیش آئی تو کریم نے اس کی طرف دیکھے بغیر عجیب سے لہجے میں
ڈینیئل سے جو کہا اسے سن کر اُن کا دل بیٹھ گیا۔‘
اس نے کہا: ’تسموں کو
باندھنے کی زیادہ فکر نہ کریں۔ جہاں آپ جا رہے ہیں وہاں آپ کو ان کی ضرورت نہیں ہو
گی۔‘
بعد میں سٹیو لیوائن نے
وال سٹریٹ جرنل میں ڈینیئل پرل کے آخری لمحات کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے لکھا:
’اس کمپاؤنڈ کا مالک سعود میمن اپنے ساتھ تین عربی بولنے والے یمنیوں کو لایا تھا۔
بخاری نے عربی بولنے والے صرف ایک گارڈ کو چھوڑ کر باقی تمام گارڈز کو باہر جانے
کو کہا۔‘
’ایک آدمی نے ویڈیو کیمرہ آن کر دیا اور دوسرے آدمی نے پرل سے ان
کے مذہبی پس منظر کے بارے میں سوال کرنا شروع کر دیا۔ پرل سے کہا گیا کہ وہ جو
کہیں وہ اسے دہرائیں۔‘
’اس دوران ایک ریوالور ان کے سر پر تان لی گئی۔ پرل نے کہنا شروع
کیا: ’میرا نام ڈینیئل پرل ہے۔ میں یہودی امریکی ہوں اور کیلیفورنیا کے اینسینو کا
باشندہ ہوں۔‘
اس شخص نے پرل کو ہدایت
کی کہ وہ ٹیپ پر کہیں کہ ’اس کے والد یہودی ہیں، اس کی ماں یہودی ہیں اور وہ خود
بھی یہودی ہیں۔‘
پرل نے یہ الفاظ کہے لیکن
وہاں موجود یمنی شخص نے ان سے کہا کہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں اور بہتر ڈھنگ سے یہ سب
کہیں۔
اس نے مزید دو جملے جوڑ
دیے۔ ’میں اسرائیل جاتا رہا ہوں۔ اسرائیل کے شہر بنائی براک میں ایک گلی ہے جس کا
نام چایم پرل سٹریٹ ہے جو میرے پردادا کے نام سے منسوب ہے۔‘
اس کے بعد پرل کی آنکھوں
پر پٹی باندھ دی گئی اور انھیں قتل کر دیا گیا۔
قتل کے تین ہفتے بعد 3
منٹ 36 سیکنڈ کی یہ ویڈیو دنیا کے لیے جاری کر دی گئی جس کا عنوان ’سلاٹر آف دی
سپائی جرنلسٹ، دی جیو ڈینیئل پرل‘ رکھا گیا تھا۔
5 ستمبر،2023،بشکریہ: چٹان سری نگر
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism