تنوعات کے ماننے والے ہیں لیکن انہیں آگے بڑھ کر تکثیریت کو گلے
لگانے کی ضرورت ہے۔
ارشد عالم، نیو ایج اسلام
اہم نکات:
· تقریبا
80 فیصد مسلمان یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی لڑکیوں کو اپنے معاشرے سے باہر شادی کرنے
سے روکیں گے۔
· ان
میں سے تقریبا 74 فیصد مسلمان سیکولر عدالتوں کے بجائے شرعی عدالتوں سے رجوع کرنے
کے حق میں ہیں۔
· تقریبا
70 فیصد مسلمان اپنے مسلمان دوستوں کو اپنی ذات سے باہر شادی کرنے سے شدومد سے
روکیں گے۔
حال ہی میں جاری ہونے والے پیو ریسرچ
سینٹر کے سروے نے جس کا عنوان ہے’ Religion in India: Tolerance and Segregation (ہندوستان میں مذہب: رواداری
اور علیحدگی)‘، اس نے ملک میں معاشرتی اور مذہبی زندگی کی نوعیت کے بارے میں بحث و
مباحثے کا ایک نیا باب کھول دیا ہے۔ کئی معنوں میں یہ سروے ہندوستان کے لئے ایک
منفرد نوعیت کا ایک ایسا سروے ہے جہاں رویوں
کے لحاظ سے معاشرتی اور مذہبی اعداد و شمار کا حصول مشکل ہے۔ اگرچہ یہ مذہبی لحاظ
سے دنیا کے سب سے زیادہ متنوع ممالک میں سے ایک ہے لیکن ہندوستان میں اس طرح کے
اعداد و شمار جمع کرنے کی روایت نہیں رہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں یہ نہیں معلوم کہ
وقت کے ساتھ ساتھ ملک میں مذہبی اور معاشرتی رویوں میں کس طرح تبدیلی پیدا ہوئی
ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ کسی بھی مذہبی چیز کے بارے میں نفرت ہے جسے قدامت پسندوں نے
اس وقت فروغ دیا جب وہ اس ملک کے لئے پالیسیاں بنا رہے تھے۔ اب جب اس ملک میں مذہب
سیکولرازم سے بظاہر متصادم ہوتا ہے تو بہت سے ایسے لوگ جنہوں نے اس پر کوئی توجہ
نہیں دی وہ پوری طرح کنفیوزن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
Hindus make up 80% of India's population
---------
پیو رپورٹ میں ایسے بہت سارے پہلو ہیں
جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے جن میں سے کچھ پر تبادلہ خیال کیا بھی جا چکا ہے۔
تاہم، اس رپورٹ کے ان پہلوؤں پر جن میں خاص طور پر مسلمانوں کی مذہبی اور معاشرتی
زندگی پر گفتگو کی گئی ہے، شاید ہی اتنی توجہ دی گئی ہو جتنی اس کی ضرورت ہے۔ اس
کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس نے مسلم معاشرے کے بارے میں تکلیف دہ حقائق اجاگر
کئے ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ اپنی سیاسی صوابدید کے تحت بات نہیں کرنا چاہتے
ہیں۔
اس سروے سے جو ایک عظیم تصویر سامنے
آتی ہے اسے مختصر طور پر " Living Together Separately الگ الگ ایک ساتھ رہنا" کہا جا سکتا ہے جو کہ مشیر
الحسن مرحوم کی کتاب کا عنوان ہے۔ سروے ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہندوستان کی اکثریت
روادار ہے لیکن اسی سروے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اختلاط
نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگرچہ وہ دیگر تمام مذہبی روایات کا احترام
کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہ کسی دوسرے مذہب کے فرد کو اپنے ہمسایہ کی شکل میں پسند
نہیں کریں گے۔ اپنے لئے ایسی ترجیح کا نتیجہ ممبئی اور دہلی جیسے میٹروپولیٹن
شہروں میں بھی مذہبی خطوں کی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ خاص
طور پر مسلمانوں کو ہندؤں کے علاقوں میں رہائش حاصل کرنے میں بہت زیادہ دشواریوں
کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کی ’بستیاں‘ بن رہی ہیں۔ لیکن یہ سروے ہمیں
یہ بھی بتاتا ہے کہ مسلمان بھی اپنے لوگوں کے درمیان ہی رہنا پسند کرتے ہیں جس کی
وجہ سے ’بستی سازی‘ کی تصویر تھوڑی اور پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
93% Muslims view Hindus favourably, but only 65% Hindus view Muslims
positively: Pew survey
-----------
اس طرح سروے میں دکھائی جانے والی
رواداری کو دوسرے زاویہ سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اسے یوں سمجھیں کہ رواداری ضروری
نہیں کہ ہمیشہ ایک مثبت قدر ہو۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب تک کہ کچھ
معاملات طے نہیں ہو جاتے ایک دوسرے کو ‘برداشت’ کر رہے ہیں۔ اور ان معاملات کا
تعلق مذہبی یا ذات پات پر مبنی طرز زندگی سے بھی ہوسکتا ہے مثلا گوشت وغیرہ کا
استعمال۔ لہذا، کسی کو صرف اس حد تک برداشت کیا جاتا ہے جب تک کہ اقلیتیں اپنی
زندگی کی آزادی کے ساتھ سمجھوتہ نہ کر لیں اور اکثریت کے ثقافتی اقدار کو نہ اپنا
لیں۔ اس لحاظ سے رواداری بنیادی طور پر ایک منفی تصور ہے اور اس سے لطف اندوز ہونے
کے بجائے ہمیں اس پر سوال کرنے اور اس سے اوپر اٹھنے کی ضرورت ہے۔ رواداری سے مراد
بنیادی طور پر ایک ’منفی امن‘ ہے، یعنی اس صورت میں کوئی واضح تشدد تو نہیں ہوتا
لیکن اس میں کوئی معنی خیز تعامل بھی نہیں ہوتا ہے۔
لہذا، اگرچہ مسلمان 'روادار' ہیں لیکن
ان میں آفاقی طور پر (تقریبا ٪80) یہ اتفاق رائے ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کو برادری
سے باہر شادی کرنے سے روکیں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا سوچنے والے صرف یوگی آدتیہ
ناتھ ہی نہیں ہیں بلکہ ان کے خیالات کو تسلیم کرنے والے مسلم برادری میں بھی بہت
سارے لوگ ہیں۔ پھر اس کے بعد اگرچہ مسلمان ہندوستانی ثقافت کے تصور پر قائم رہتے
ہیں جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کے لئے اہم ہے لیکن وہ یہ بھی چاہتے
ہیں کہ ان کی زندگیوں میں عوامی کردار اسلام ادا کرے۔ ان میں سے تقریبا ٪74 مسلمان
سیکولر عدالتوں کے بجائے شرعی عدالتوں سے رجوع کرنے کے حق میں ہیں۔ اس وقت آل
انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ 79 شرعی عدالتوں کی فہرست پیش کرتا ہے جو پورے ملک میں
چل رہی ہیں، حالانکہ ممکن ہے کہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہو۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے
کہ ہندوستانی عدالتوں میں انصاف کی رفتار انتہائی سست ہے لیکن اس کا حل شرعی
عدالتیں نہیں ہوسکتی جو خواتین اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ فطری طور پر امتیازی سلوک
رکھتی ہیں۔ اسی سروے میں ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت تین طلاق کے خلاف ہے لیکن اس کے
باوجود ایک علیحدہ اسلامی نظام عدل کی یہ خواہش تشویشناک ہے۔
مسلمانوں نے ہمیشہ آپس میں ذات پات کے
تصور کی تردید کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود سروے میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان میں سے
تقریبا 70 فیصد مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو اپنی ذات سے باہر شادی کرنے سے شدومد
کے ساتھ روکتے ہیں۔ مزید پریشان کن بات یہ ہے کہ تعلیم یافتہ مسلمانوں کی اکثریت
بھی اسی طرح سوچتی ہے جس کا مطلب ہے کہ اعلی تعلیم بھی ان کے اندر سے ذات پات کے
تعصب کو کم کرنے میں مؤثر ثابت نہیں ہوئی۔ سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تقریبا
74 فیصد مسلمانوں کی اپنی ذات میں ہی دوستیاں ہیں جس سے مساوات کے اسلامی دعووں کی
دھجیاں اڑ جاتی ہیں۔ سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لگ بھگ 46 فیصد مسلمان اونچی
ذات کے ہیں جس کا سچائی سے کوئی واسطہ نہیں ہوسکتا۔ نسلی جغرافیائی مطالعات نے
ہمیشہ یہی ثابت کیا ہے کہ ہندوستان میں اعلیٰ ذات کے مسلمان اس ملک کی کل مسلم
آبادی کا تقریبا 15 فیصد ہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدم مساوات کے طور پر
امبیڈکر کا ذات پات کے تصور کا اطلاق مسلمانوں پر بھی ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا
ہے کہ ذات پات کا نظام صرف اشرافیہ طبقہ نے ہی قائم نہیں رکھا بلکہ اس میں اجلافیہ
کا بھی ہاتھ ہے۔ اور اس پر مسلمانوں کے اندر پسماندہ موومنٹ کو غور و فکر کرنے کی
ضرورت ہے۔
Muslims and Islam: Key findings in the U.S. and around the world | Pew
Research Center
-------
معاشرتی ہم آہنگی کا ایک پیمانہ یہ ہے
کہ مختلف کمیونٹیز ایک دوسرے کے مذہبی تہواروں میں شریک ہوتی ہیں یا نہیں۔ یہ خوشی
کی بات ہے کہ علمائے کرام کے اس کے برخلاف دلیلوں کے باوجود اب بھی تقریبا 20 فیصد
مسلمان دیوالی کے ہندو تہوار کو مناتے ہیں۔ تاہم، زندگی کے دوسرے شعبوں میں یہ
موجود نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سروے کیے گئے تمام مسلمانوں میں سے تقریبا 45 فیصد
نے کہا کہ ان کے صرف مسلمان دوست ہیں۔ ہندوؤں کے مقابلے میں یہ اعداد و شمار بہتر
ہیں لیکن پھر ایک اقلیت کی حیثیت سے ایک مسلمان کے غیر مسلموں کے ساتھ لین دین
ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور اس طرح دوسرے مذہب کے لوگوں سے ان کی دوستیاں
بھی ہو سکتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ حالیہ مسلم مخالف سیاسی ماحول نے ان حالات کو مزید
بڑھاوا دیا ہو۔ لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے سرکردہ علمائے کرام
نے ہمیشہ مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ غیر مسلموں کو دوست نہ بنائیں۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ سروے سے یہ ظاہر
ہوتا ہے کہ فرقہ وارانہ تعلقات اب ماضی کی داستان بن رہے ہیں۔ اس کے لئے صرف
مسلمانوں پر الزام لگانا ناانصافی ہوگی۔ لیکن بحیثیت مسلمان ہمیں اپنی کمیونٹی میں
جاری کچھ باتوں پر سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ مذہبی علیحدگی کو متاثر کرنے کا ایک
طریقہ یہ ہے کہ مختلف ظاہر ہونے پر اصرار کیا جائے۔ مسلمانوں کے اندر مدارس کی
تعلیم میں یقینی طور پر اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ مسلمان مرد اور خواتین کی
پہچان ان کا لباس اور ظاہری وضع قطع ہونی چاہئے۔ سروے میں اس کی توثیق ہوتی ہے جس
کے مطابق اب صرف 18 فیصد ہی مسلم خواتین بندی لگانا پسند کرتی ہیں جو کہ بطور
شناخت ہندو خواتین میں بڑھ رہی ہے۔ صرف بندی پر متعدد فتوے دیکھ کر ہی یہ سمجھا جا
سکتا ہے کہ کیسے ہندو اور مسلم خواتین کے مابین اس علیحدگی کو علماء نے کامیابی کے
ساتھ متاثر کیا۔
اگرچہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان
تنوعات کا احترام کر رہے ہیں لیکن وہ خود بھی اپنی ایک چھوٹی سی محدود دنیا میں
رہنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ وہ خود کے ساتھ امتیازی سلوک ہونے پر دوسروں پر انگلیاں
اٹھاتے ہیں لیکن مسلم کمیونٹی کے اندر شاید ہی امتیازی سلوک کے بارے میں کوئی بات
کرتا ہو خاص طور پر جب بات خواتین کی ہو۔ مسلم معاشرے کو تنوعات سے تکثیریت کی طرف
بڑھنے کی ضرورت ہے جس کا مطلب بغیر کسی بدلاؤ اور تبدیلی کے خوف کے ایک دوسرے کے
ساتھ اشتراک معاملات کرنا ہے۔
------------
English Article: What Does the Pew Survey Say About Indian Muslim Attitudes?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism