New Age Islam
Sat Jun 14 2025, 12:24 AM

Urdu Section ( 27 Feb 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Period of Weaning: An Explanation رضاعت کے مسئلے پر ایک وضاحت

نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر

27 فروری 2024

قرآن نے بچوں کے دودھ چھڑانے کےمتعلق دو آیتوں میں اپنا مؤقف بیان کیا ہے۔دونوں آیتوں میں مدت رضاعت مختلف ہے جس کی وجہ سے مفسرین کو ان آیتوں کی تفسیر میں ذہنی مشقت کرنی پڑی ہے۔ سورہ لقمان میں مدت رضاعت دو برس بیان کی گئی ہے جبکہ سورہ الاحقاف میں یہ مدت ڈھائی برس ہے۔

۔"اور ہم نے تاکید کردی انسان کو اس کے ماں باپ کے واسطے ؛ پیٹ میں رکھا اس کو اس کی ماں نے تھک تھک کر اور دودھ چھڑانا ہے اس کا دو برس میں ، کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا ، آخر مجھی تک آنا ہے۔"(لقمان:14)۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں:

۔"دودھ چھڑانے کی مدت جو یہاں دو سال بیان ہوئی ہے باعتبار غالب اور اکثری عادت کے ہے۔امام ابو حنیفہ جو اکثر مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی ۔جمہور کے نزدیک دو ہی سال ہیں۔ "۔

لیکن سورہ الاحقاف میں دودھ چھڑانے کی مدت ڈھائی برس بیان کی گئی ہے۔

۔"اور ہم نے حکم کردیا انسان کو اپنے ماں باپ سے بھلائی کا ، پیٹ میں رکھا اس کو اس کی ماں نے تکلیف سے اور حمل میں رہنا اس کا اور دودھ چھوڑنا تیس مہینے میں ہے۔"(الاحقاف : 15)

اس آیت کی تفسیر میں مولانا شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں:

۔"شاید یہ بطور عادت اکثریہ کے فرمایا۔ حضرت شاہ صاحب رحمةاللہ علیہ لکھتے ہیں کہ لڑکا اگر قوی ہو تو اکیس مہینے میں دودھ چھوڑتا ہے اور نو مہینے کے ہیں حمل کے۔۔۔ یا یوں کہو کہ کم از کم مدت حمل چھ مہینے ہیں اور دو برس میں عموماً بچوں کا دودھ چھڑا دیا جاتا ہے۔ اس طرح کل تیس مہینے ہوئے۔۔ مدت رضاع کا اس سے زائد ہونا نہایت قلیل و نادر ہے۔"۔

ملاحظہ ہو کہ قرآن میں مدت رضاعت دو آیتوں میں مختلف بیان ہوئی ہے۔ سورہ لقمان میں مدت رضاعت دو برس ہے جبکہ سورہ الاحقاف میں مدت رضاعت ڈھائی برس ہے۔

سورہ لقمان کی تفسیر میں مولانا شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں کہ جمہور کی رائے دو برس ہے اور امام ابو حنیفہ مدت رضاعت ڈھائی برس بتاتے ہیں تو ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔جبکہ امام ابو حنیفہ نے سورہ الاحقاف کی بنیاد پر دودھ چھڑانے کی عمر ڈھائی برس بتائی کیونکہ ان کے سامنے قرآن کی دونوں آیتیں تھیں۔ انہوں نے قرآن میں دونوں مدتوں میں سے زیادہ مدت کی بنیاد پر کہا کہ مدت رضاعت ڈھائی برس ہے۔ مولانا شبیر عثمانی سورہ لقمان کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک دودھ چھڑانے کی عمر دو برس ہے۔ سورہ الاحقاف کے پیش نظر امام ابو حنیفہ کا ہی مؤقف درست ہے اور جمہور کا مؤقف سورہ الاحقاف کی آیت کی روشنی میں غلط ثابت ہو جاتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ مولانا عثمانی نے تیس مہینے میں مدت حمل کو بھی شامل کرلیا ہے اور اس طرح مدت رضاعت تیس مہینے کی دلیل پیش کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ بچہ ولادت کے بعد ہی ماں کا دودھ پینا شروع کرتا ہے۔ ولادت سے قبل بچے کو پیٹ میں غذا پہنچتی ہے لیکن اسے دودھ پینا نہیں کہتے۔ مولانا عثمانی مدت حمل کو بھی مدت رضاعت میں شامل کردیتے ہیں جو منطقی اور عقلی طور پر درست نہیں۔ دراصل انہوؔں نے سورہ لقمان میں بیان کردہ مدت رضاعت اور سورہ الاحقاف میں بیان کردہ مدت رضاعت کے درمیان فرق کو کم کرنے اور دونوں کو ایک ہی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے جبکہ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اللہ نے سورہ لقمان میں دو برس کہنے کے بعد سورہ الاحقاف میں سہواً ڈھائی برس نہیں کہا۔ قرآن میں اللہ کہتا ہے کہ ہم کبھی کبھی ایک آیت کے بدلے دوسری آیت لاتے ہیں۔ لہذا، مدت رضاعت پر بھی دو آیتوں میں ظاہر اختلاف دراصل عرب کے دور کی عمومی مدت رضاعت کے پیش نظر ہے۔ اس دور میں کچھ عورتیں دو برس میں دودھ چھڑاتی ہونگی تو کچھ ڈھائی برس میں۔اس میں بچے کی جسمانی استطاعت کو دخل ہوگا اور اس میں قرآن نے بچوں کی جسمانی ضرورت کے تحت مدت کی رعایت رکھی ہے۔جو, عورت دو برس میں دودھ چھڑا سکتی ہو وہ دو برس میں چھڑالے اور جو بچے کی صحت کے پیش نظر اس سے زیادہ مدت تک دودھ پلانا چاہے تو ایسا کرسکتی ہے۔ اس میں مفسر کو زور بیان اور زور منطق صرف کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/period-weaning-explanation/d/131807

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..