مشتاق الحق احمد سکندر،
نیو ایج اسلام
10 جون 2023
پیر غلام حسن شاہ
کھویہامی: حیات اور کارنامے۔
مصنفین: ڈاکٹر پرویز احمد
پالا اور جاوید احمد ملا
ناشر: کتاب محل، سری نگر،
کشمیر
صفحات: 136، قیمت: 599
روپے
------
تاریخ لکھنا ایک سنجیدہ
پیشہ، یہ ایک مہم اور یہاں تک کہ بہت سے لوگوں کے لیے ایک مہم جوئی ہے۔ ہر قوم،
برادری، بادشاہی اور حکمران اشرافیہ کے پاس تاریخ دانوں کی ایک جماعت ہوتی ہے۔
تاریخ دانوں کے ذریعہ لکھی گئی تاریخ ایک اہم ماخذ ہے جس کے ذریعے ہم کسی کے بھی
ماضی اور حال کے بارے میں بھی جان سکتے ہیں۔ بادشاہ درباری مورخین اور شاعروں کو
ملازم رکھتے تھے، جو انہیں بے عیب، غیر معمولی لوگوں کے طور پر پیش کرتے تھے، جن
کی حکمرانی زمین پر خدا کا سایہ (ذل الٰہی) اور ان کی نجات کے لیے ناگزیر تھی۔ یہ
ملازم درباری مورخین ہمیشہ بادشاہ یا ملکہ کی اچھی تصویر پیش کرتے تھے، جبکہ
مخالفین کو برا بھلا کہتے تھے۔
مسلمانوں میں ابن خلدون کو
بادشاہوں کی تعریفیں لکھنے اور اسے لوگوں کی سرکاری تاریخ کے طور پر پیش کرنے کی
روایت کو توڑنے کا سہرا دیا جا سکتا ہے۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے لوگوں کی حقیقی
زندگی اور ان کے طرز حیات کو دستاویزی شکل دی۔ تاریخ اور سماجیات میں ان کے تعاون
کا اب علمی طور پر مطالعہ کیا جا رہا ہے اور اس پر تحقیق کی جا رہی ہے۔ لیکن،
تاریخ لکھنے کے ان کے طریقہ کار کو وسیع پیمانے پر مقبولیت حاصل نہیں ہوئی اور
سرکاری مورخین اپنے آجر، بادشاہ کی بے بنیاد تعریفیں کرتے رہے۔ اور یہ سلسلہ جاری
رہا۔
تاریخ کے مارکسیسی
دستاویزات اور پھر مرکزی دھارے کی تاریخ کی معمولی تنقید کے ساتھ مورخین کی تحریر
میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ اسلام میں بھی اب ترمیم پسند علماء تاریخ
لکھنے کے حوالے سے مختلف موقف اختیار کر رہے ہیں، کیونکہ فرقہ واریت، بدگمانی،
پدرشاہی اور اس طرح کی دوسری برائیاں جو آج مسلمانوں میں رائج ہیں، ان کی جڑیں
تاریخی روایات میں پیوست ہیں۔ اس تاریخ کو بعد میں تقسیم کیا گیا، اسلامی لباس دیا
گیا اور آج یہ مذہب کا حصہ بن چکی ہے۔ اس لیے بنو امیہ، عباسیوں اور فاطمیوں کی
روایتوں کو رد کرتے ہوئے تاریخی بیانیے کو تبدیل کرنے، حقائق اور سچائی کو سامنے
لانے کی اشد ضرورت ہے۔
تاریخ لکھنا آج بھی ایک
مسابقاتی میدان ہے۔ جس انداز، بیانیے، نظریے اور گفتگو سے حقائق ہمارے سامنے پیش
کیے جاتے ہیں، وہ تاریخ کی تشکیل کرتے ہیں۔ تاریخ لکھنے میں پیشہ ورانہ تربیت اور
ماہرین کے شامل ہونے کے باوجود، یقینی طور پر اس کے دقیانوسی تصورات، تعصب اور تنگ
نظری سے پاک ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخ نویسی کے مابعد جدیدیت کی
تنقید نے معروضیت کو ایک حادثے کے طور پر پیش کیا ہے۔ تاہم، ان تمام تنقیدوں اور
گفتگو کو ذہن میں رکھتے ہوئے، تاریخ نویسی اب بھی جاری ہے اور یہماضی اور حال کو
سمجھنے کا ایک اہم معیار تشکیل دے گی۔ بادشاہوں اور سرکاری مورخین کی جگہ اب برسرِ
اقتدار سیاسی جماعتوں اور حکومتوں نے لے لی ہے جن کے پاس تاریخ کے طور پر پیش کی
گئی ہر چیز کو توڑنے مروڑنے کا اختیار ہے۔ بھاری بھرکم فنڈنگ سے چلنے والے ادارے
بنائے گئے جنہیں ماضی کو دوبارہ لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اور جس انداز میں
اسکول کی نصابی کتابیں ایجنڈے کے تحت لکھی جا رہی ہیں، اس نے تاریخ کو ہتھیار بنا
دیا ہے۔ اس ہتھیاروں سے بھری تاریخ کے ساتھ، ماضی کی تشکیل نو کی جاتی ہے، ایک
مخصوص برادری کو ذلت و رسوائی کا نشان بنا دیا جاتا ہے اور عصر حاضر کے لوگوں کو
اس نئے تعمیر شدہ ماضی کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔
کشمیر میں، پورے جنوبی
ایشیا کے ایک حصے کے طور پر، تاریخ لکھنے کا انداز مختلف نہیں تھا۔ تاہم، ماضی کی
طرح مختلف قسم کے آزاد مورخین تھے، جنہیں آج ذیلی گروہ کہا جا سکتا ہے، کیونکہ
انہوں نے اپنے زمانے کی تاریخ کو قلمبند کیا تھا۔ ایسے ہی ایک انسان پیر غلام حسن
شاہ کھویہامی تھے۔ دو محققین، ڈاکٹر پرویز احمد پالا اور جاوید احمد ملّا کی یہ
کتاب اس مورخ کی زندگی اور میراث کو تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ کھویہامی نے اپنی
تاریخ کو طارق حسن کے نام سے دو جلدوں میں مرتب کیا تھا۔ وہ ایک عالم، مورخ، شاعر
اور ادیب تھے۔ ان کا تعلق سر والٹر لارنس سے تھا، جن کی مشہور تصنیف ہسٹری آف
کشمیر، کشمیر کے ماضی کے ساتھ ساتھ ڈوگرہ حکومت کی ایک جھلک بھی پیش کرتی ہے۔
لارنس کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے، جسے انگریزوں نے بطور لینڈ سیٹلمنٹ کمشنر کے
مقرر کیا تھا، کھویہامی نے فارسی متن کے ترجمے میں ان کی مدد کی۔ کشمیر کے بیشتر
حصوں میں ان کے سفر نے انہیں اپنے لوگوں، ان کی حالت زار اور بنیادی مواد تک رسائی
کے حوالے سے کافی بصیرت فراہم کی جس نے انہیں تاریخ کو مرتب کرنے میں مدد کی۔
اگرچہ، کھویہامی کے بارے
میں ان کے ہم عصروں نے زیادہ کچھ نہیں لکھا کیونکہ وہ ڈوگرہ کے مظالم پر تنقید
کرتے تھے۔ قارئین کو یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے والدین سکھ دور حکومت میں بانڈی
پورہ سے سری نگر ہجرت کر کے آئے تھے۔ شاعر ہونے کے ناطے انہوں نے کشمیری اور فارسی
میں اظہار خیال کیا۔ چنانچہ ہمیں ان کی لکھی گی حمد (خدا کی حمد) اور نعتیں
(پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لکھے گئے کلام) ملتی ہیں۔ کھویہامی،
ایک ماہر اخلاقیات معلوم ہوتے ہیں جو یہ بیان کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ انسان
اپنی فطری جبلتوں مثلاً ہوس اور مادیت پرستی پر کیسے قابو پا سکتا ہے۔ وہ اپنے دور
کے لوگوں میں رائج غلط باتوں اور غلط اقدار پر تنقید کرتے ہیں۔ وہ ہمیں کشمیر میں
پائے جانے والے جانوروں اور پرندوں کے بارے میں بھی آگاہ کرتے ہیں۔ وہ پیغمبر
اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کے چچا امیر حمزہ کے بارے میں افسانوی کہانیوں کے
بارے میں بھی تنقید کرتے ہیں، جنہیں امیر حمزہ کے حوالے سے کہانیوں میں بیان کیا
گیا ہے۔ نیز داستانگووں (کہانی سنانے والوں) نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی
پہلی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بارے میں غلط فہمی پیدا کرنے
والی کہانیاں بھی بنائی ہیں۔ وہ ایسے قلمکاروں اور داستانگووں کی مخالفت کرتے ہیں۔
انہوں نے مذہبی شخصیات،
اولیاء اور صوفیاء سے متعلق باتوں کو لکھنے کے لیے ایک مکمل جلد مختص کیا ہے، لیکن
اس جلد سے شیعوں اور ہندوؤں کو خارج کر دیا ہے، جس سے ان کے تعصب کا پتہ چلتا ہے۔
ان کی تفصیلات کا تذکرہ کرنے سے ان کا گریز کرنا، اس حقیقت کی طرف ایک واضح اشارہ
ہے کہ کس طرح ان کا ذاتی مذہب ان کی تاریخی نویسی میں مداخلت کرتا ہے۔ یہ اکثر
مورخین کے ساتھ ہوتا ہے۔ اب بھی جب تاریخ لکھی جاتی ہے تو شاذ و نادر ہی کوئی ہندو
یا مسلم مورخ اس موضوع کے ساتھ انصاف کرنے میں کامیاب ہوتا ہے، کیونکہ وہ حقائق
تئیں ایک خاص نظریہ رکھتے ہیں، اور ناقص حقائق اور حکایات کو تاریخ کے طور پر پیش
کر دیتے ہیں۔ یہ ہندو مسلم مفاہمت کی کوششوں کو مزید غیر کار آمد بنا دیتا ہے۔
تاہم ان تمام خامیوں کے
باوجود ان کی تاریخ کشمیر کے ماضی کو سمجھنے اور جاننے کا ایک اہم ذریعہ بنی ہوئی
ہے۔ ان علما کو مبارکباد دینے کی ضرورت ہے، اسی طرح اس اہم تصنیف کو شائع کرنے پر
ناشر بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جو پیر حسن شاہ کھویہامی کے افکار، نظریات اور
تاریخی کاموں کے بارے میں بنیادی معلومات قاری کو فراہم کرتی ہے۔ لیکن ان کے طریقہ
کار، خامیوں، ان کی تاریخ حسن کی عصری مطابقت پر تنقیدی نظر ڈال کر اس کتاب کو
مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ کیا ان کی تاریخ مستند ہے؟ کیا والٹر لارنس کو واحد
ماخذ کے طور پر استعمال کرنا کافی ہے، جسے انگریزی جاننے والے زیادہ تر اسکالروں
نے استعمال کیا ہے، کیوں کہ ان کی تاریخ کا اردو میں ابھی تک ترجمہ نہیں ہوا ہے۔
اگر ایسا ہے تو کھویہامی کی افادیت اور ان کی عصری مطابقت کیا رہ جاتی ہے؟ یہ اور
اس طرح کے اور بھی بہت سے مسائل پر دانشمندی کے ساتھ اور علمی طور پر توجہ دینے کی
ضرورت ہے، تب ہی ہم کشمیر کے بارے میں تاریخی بیانیے کو مزید تقویت دے سکتے ہیں۔
English Article: Peer Ghulam Hassan Shah Khoihami: Flaws with
Historical Discourses
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism