ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
23 جون 2023
ہفتہ کی گفتگو جس مفروضے
پر ختم ہوئی تھی وہ ہماری سیاست اور معاشرت دونوں کو گدلا اور آلودہ کیے ہوئے ہے۔
بھلے ہی اس سب پر آپ کےتحفظات ہوں مگر زمین ایسی ہی ہے اور دیوار پر اب یہ سب
لکھا ہوا ہے بیانیہ تلخ ہے مگر کھلی گفتگو کا مطالبہ کرتا ہے۔سنگھ پریوار جس میں
آر ایس ایس، بی جے پی، متعدد ملحقہ تنظیمیں، موجودہ سرکار ، ہماری قومی قیادت سب
کو اسکا حصہ مانا جاتا ہے۔ اس کے مکھیا آر ایس ایس چیف سر سنگھ چالک ڈاکٹر موہن
راؤ بھاگوت میری کتاب کےاجراء کے موقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ” آپ اپنے کو بھارتیہ
کہیں یا ہندوستانی ہم سب کو ہندو مانتے ہیں ، ہر بھارتیہ کا ڈی این اے ایک ہے ، سب
کے پوروج سمان ہیں ،بھارت ہندو راشٹر ہے، گئو ماتا پوجنیہ ہے ،لنچنگ کرنے والے
ہندو نہیں، انکےخلاف قانون کارروائی کرے‘ہمیں کوئی اعتراض نہیں ،ہندوتومسلم کے
بغیرنا مکمل ہے، ہم آپکے دینی عقائد کا احترام کرتے ہیں “ کسی طرف سے اس کے خلاف
انکے حلقے سے کوئی بیان موجود نہیں! اتنی واضح فکر، فہم، ادراک اور بیانیہ! اب
کیا یہ اہم نہیں کہ اس سب پر سنجیدہ فکری
سطح پر مکالمہ، مباحثہ حتی کہ تکرار ہو؟
کیا وہ نفسیات جسکا خاکہ
میں نے پچھلے ہفتہ پیش کیا تھا وہ اچانک وجود میںآگیا یا اسکا کوئی پس منظرہے؟
یقینا ہے۔ وہ بچہ جو ۱۹۸۶
سے ۱۹۹۲
کے واقعات کے وقت دس سال کا تھا وہ اب ۴۷ اور ۳۱ سال کا ہے۔ اس کے سامنے
بابری مسجد کا تالا کھلنا، اس میں پوجا
شروع ہونا، قومی نوعیت کا اس تنا زعہ کا بن جانا، رتھ یاترا اور اسکے
بنائےہوئے ماحول کا پورے ملک اور قومی سیاست کو اپنی گرفت میں لے لینا، ایودھیا میں کار سیوکوں پر
گولی چلایا جانا، اس میں کئی ہلاکتوں کا ہوجانا، بالآخر مسجد کا شہید ہوکر اس جگہ
عارضی رام مندر کا تعمیر ہونا، ملک گیر فرقہ وارانہ فسادات، پھر اس بابت مقدمہ،
اور آخر کار ۲۰۲۱
میں مندر کی تعمیر کا عدالتی فیصلہ اور رام مندر کی تعمیر تک وہ اس پورے دور کا
گواہ ہے۔ اس مدت میں مسائل حل نہ ہوکر الجھتے اور بگڑتےرہے!
یہ وہ حالیہ اور تاریخی
تلخیاں ہیں جو آج تک ہمارا پیچھا کر رہی ہیں۔ اس دور میں قومی سیاست ہندو پرستی
اور مسلم پرستی کی نذرہوئی ہے، فرقہ واریت کی نئی گرہیں کھلی ہیں، ہندو مسلم آپسی
رشتے خراب ہوئے ہیں، ان پر آنچ آئی ہے، خیر سگالی ’سکڑن‘ کا شکار ہوئی ہے، سوچنے
کے نئے سیاسی، سماجی، نفسیاتی اور اخلاقی زاویےاور پیمانے بدلے ہیں۔ اسی دور میں
شاہ بانو، سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین کے تعلق سےجو مسلم موقف رہا ہم اس سے کیا اور
کتنا حاصل کرپائے میں نہیں جانتا مگر دائیں بازو کا موقف ضرور تگڑا ہوا‘ فرقہ
واریت اور مذہبی منافرت کوخوب غذا ملی۔
جہاں تک سیاست اور
انتخابی سیاست کا تعلق ہے وہ تو پوری طرح فرقہ وارانہ آلودگی میں غرق اور ضم
ہوگئی۔ ہندو نفسیات کا رخ اور مسلم نفسیات ایک دوسرے کے آمنے سامنےآکر کھڑے ہو
گئے۔ سیکولر سیاست اور سیاستدانوں نے اسکا خوب فائدہ اٹھایا۔ اس سیاست میں
مسلمانان ہند بلی کا بکرا بنے۔ ساری منافرت و نفرت ہمارے کھاتے میں جمع ہوتی رہی۔
ہم اسکی قیمت بھی ادا کرتے رہے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ کانگریس اور اسکی قیادت
نے مسائل کو بر وقت حل نہ کرکے انھیں لاوے کی طرح
پکنے اور پھرپھٹنے کے لئے چھوڑا۔ ۱۹۴۹ میں یہ مسئلہ حل ہوسکتا تھا نہیں ہوا ، ۱۹۸۶ میں جس طرح تالا کھولا
گیا اس سے قبل یا بعد میں کوئی حل نکالا جا سکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔
مسلم قیادت اور مسلمانان
ہند نے نہ زمین پڑھی، نہ دیوار پہ لکھا پڑھا
بس معاملات کو اتنا طول دینے میں دانستہ و نا دانستہ ایسا کردار ادا کیا کہ
بس! بی جے پی کی سیاسی مخالفت کو مخاصمت
بنا لیا، ایسے سیاسی زاویے بنائے کہ بس بی جے پی اور مسلمان/ سنگھ پریوار اور
مسلمان ایک دوسرے کے سامنے آگئے۔ سیکو لر سیاست نے اسکے مزے اقتدار حاصل کرکے لئے
اور قید و بند کی صعوبتیں آپکے حصے میں آئیں۔ کتنوں کو جو کہیں بھی نہ تھے ‘نہ
ہو سکتے تھے‘ آپ نے بنادیا مگر انھوں نے ہمیں کیا بنایا؟ ہمارا حق دینے کے بجائے
ہمیں چوراہے پر لاکر کھڑا کر دیا۔
کچھ کڑوے فیصلے زندگی میں
زندگی کو بچانے کے لئے کرنے پڑتے ہیں، جسم کو بچانے کے لئے جسم کا کوئی حصہ کاٹنا
بھی پڑ تا ہے خون اور زہر کا گھونٹ بھی پیا جاتا ہے مگر ہم اور ہماری قیادت کسی
ٹھوس حکمت عملی سے ہمیشہ خالی رہی۔ بس آلہ کار بنتی رہی۔ آزادانہ فکر سے عاری!
آج بھی کچھ بدل گیا ہو ایسا بالکل نہیں ہے!
جمہوریت میں سیاسی عمل
اور اقتدار کا حصول انتخابی عمل اور اسکے نتائج سے براہ راست جڑا ہوتا ہے۔ اس میں
کون سی وہ اکائیاں ہیں جو ایک جماعت کو اقتدار میں لاتی ہیں۔ اور کون سے وہ حلقے
ہیں جو اس عمل کو جھٹکا دے کر غیر یقینی بناتےہیں اور مخالفت کو منافرت کی حد تک
لے جاتے ہیں۔ مجھ سے میرے وہ دوست جنکا تعلق سنگھ پریوار سے ہے یہ کہتے ہیںکہ
مخالفت اگر اختلاف رائے کی وجہ سے ہو تو جائز اور حق بجانب لیکن اگر ہم کچھ اچھا
کہیں، کریں، بولیں یا کریں تو تعریف یا اعتراف کی ایک لائن بھی نصیب نہیں ہوتی! ہم
کو ہرانے کے لئے اپیلیں جاری کرنا، کسی کو بھی جتانا ہم نہ جیت جائیں کے طریقہ کار
کا اپنےکو پابند بنا لینا یہ بھی خلیج بڑھنے
بڑھانے کا ایک اور زاویہ ہے۔
مودی اقتدارمیں آتے ہیں‘ پاکستان سے تعلقات کو درست
کرنے کےلئے سارک کے تمام ممالک کو اپنی رسم حلف برداری میں بلاتے ہیں، افغانستان
دورےسے واپسی پرتمام پروٹوکول کو بالائےطاق رکھتے ہوئے نواز شریف کے گھر پہنچ
جاتےہیں‘ عرب اورمسلم ممالک سے تاریخی قربتیں قائم کر لیتے ہیں‘ کئی ممالک سےاعلیٰ
ترین سول قومی اعزازات حاصل کر لیتے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کوانڈین نیشنل
موومنٹ کا ایپی سینٹر اور منی انڈیا بتاتے ہیں۔ اسکے اور جامعہ کے اقلیتی کردار کو
اپنے نوسال میں ہاتھ نہیں لگاتے ۔صوفی کانفرنس میں اللہ کے ۹۹ نام اور روحانیت کی بات
کرتے ہیں ۔اولیاء اللہ کی روحانی خدمات کا ذکر اور اعتراف کرتے ہیں ۔بوہرہ مسجد کا
دورہ کرتے ہیں۔ جاپان کے وزیر اعظم کے دورۂ ہند کے موقع پران کو احمدآباد کی
تاریخی مسجد لے جاتےہیں، گئو رکشکوں کو لنچنگ کےحوالے سے غنڈہ قرار دیتے ہیں ۔ مگر
ہماری مقامی قیادت اور مزاج ٹس سے مس نہیں ہوتا۔
پانی بہت بہہ چکا ۔سنگھ
اور اسکا نظریہ آج گلی، محلے، پڑوس، بازار، تجارت و آپسی تعلقات، روز مرہ کی
زندگی و معاملات، عدلیہ، انتظامیہ، قانون ساز اداروں، تھنک ٹینک، سیاست و
سفارتکاری، سرکاری پالیسی و پروگرام ہر جگہ اپنی زمین بناچکا۔ جسکا دل چاہتا ہے وہ
ہمیں انکے خلاف استعمال کر لیتا ہے اور ہم استعمال ہو جاتے ہیں۔ لگ بھگ سو سال میں پنپنے والا نظریہ ہندوتو،
آرایس ایس اور اسکےسیاسی دھڑے کا اکثریتی اقتدار میں آنا، ہندونفسیات کی تاریخ
کو اپنی طرح سے پڑھنا اور سمجھنا، مسائل اور خلیج کا متواتر بڑھتے جانا، مثبت کو
بھی مثبت نہ گرداننا! اندھی مخالفت ومخاصمت کو کتنا اور کہاں تک لے جانا ہے؟
23 جون 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism