مجاہد ندوی
27 مئی،2022
اللہ عز وجل نے قرآن
مجید میں انسان کی جن صفات کا تذکرہ فرمایا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان بڑا
جلد باز ہے۔قرآن مجید کی مختلف آیات انسانی فطرت میں جلد بازی کے عنصر کی جانب
اشارہ کرتی ہیں۔ سورۃ الاسراء، آیت نمبر 11؍
میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اور انسان برائی بھی اسی طرح مانگتاہے جس طرح بھلائی
مانگتا ہے اور انسان بڑا ہی جلد باز ہے۔‘‘ اسی طرح سورۃ الانبیاء ، آیت نمبر 37؍
میں فرمایا: ’’ انسان جلد بازی کی خصلت لے کر پیدا ہوتاہے۔ میں عنقریب تمہیں اپنی
نشانیاں دکھلادوں گا، لہٰذا تم مجھ سے جلدی مت مچاؤ‘‘۔
سورۃ اسراء کی آیت 11؍
کی تفسیر میں حضرت مجاہدؒ نے لکھا ہے: ہر شے کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت
آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اس وقت دن کا آخری پہر چل رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے
روح کی تخلیق کی، پھر آنکھیں، زبان اور سر بنایا۔ ابھی یہ تخلیق نچلے حصے تک بھی
نہ پہنچی تھی کہ انسان کہہ اٹھا : اے میرے رب! میری تخلیق میں جلدی کر اور سورج
غروب ہونے سے پہلے اس کو مکمل کردے ۔خود حضرت آدم علیہ السلام کا ممنوعہ پھل
کھانا اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ جنت میں دائمی حیثیت حاصل کرنے میں حضرت
انسان جلدی کر بیٹھے۔
اور یہی جلد بازی کی فطرت
ہے جس کو سرکوبی کیلئے ، جس پر لگام کسنے کے لئے ، جس پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے
لئے اللہ عزوجل نے ہمی صبر کا تحفہ عطا فرمایا ہے۔اور جلد باز مزاج والے انسان کی
انسانیت کی معراج یہی ہے کہ وہ اپنی اس فطرت پر نکیل کس کر اپنے نفس کو صبر کا
عادی بنائے۔ عربی زبان میں صبر کی لغوی معنی دلیری کرنا ،بہادری کرنا کے ہیں۔
(المنجد : صفحہ 459 )جہاںتک صبر کے اسلام میں معنی کا تعلق ہے اس کی تعریف مختلف
علماء وائمہ نے الگ الگ کی ہے۔ مثلاً علامہ راغب اصفہانیؒ کہتے ہیں: جو بات عقل
اور شریعت کا تقاضہ ہو اس پر اپنے نفس کو مجبور کرنے کا نام صبر ہے۔ حضرت ذوالنون
مصریؒ فرماتے ہیں : شرعی امور کی مخالفت سے دوری اختیار کرنے ، مشکلات کے وقت سکون
کا مظاہرہ کرنے اور غربت میں بے نیازی کامظاہرہ کرنے کا نام صبر ہے۔ علامہ جرجانیؒ
نے صبر کی نہایت ہی خوبصورت تعریف بیان کی ہے ، وہ کہتے ہیں : غیر اللہ سے اپنے
مسائل اور مشاکل کاشکوہ ترک کرنا، اور صرف اور صرف اللہ سے شکایت کرنا، اس کا نام
صبر ہے۔علامہ ابن القیمؒ صبر کے متعلق فرماتے ہیں : ناراضگی او رگھبراہٹ سے اپنے
دل کی زبان، کو شکوہ شکایت سے ، اور انسانی اعضاء کی بے چینی سے حفاظت کرنے کا نام
صبر ہے۔
دراصل صبر ایک ایسا حل ہے
کہ اگر انسان کو یہ میسر آجائے تو پھر اس دنیا کے مصائب و مشکلات اس کو بالکل بے
حیثیت معلوم ہوتے ہیں ، صبر ایک ایسا تریاق ہے جس کے سامنے دنیا کا ہر زہر بے اثر
ہوکر رہ جاتاہے۔ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے انسانوں کو صبر کی جانب ابھارا ہے
کہ اس صفت عالیہ کو بہ ہرصورت اپنا نا ضروری ہے۔ سورۃ الاحقاف، آیت نمبر 35؍
میں اللہ عزوجل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلقین کرتاہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم
اسی طرح صبر کئے جائیے جیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا ہے ، او ران کے معاملے
میں جلد بازی نہ کیجئے ۔ اسی طرح قرآن مجید میں صابرین کے متعلق یہ خوشخبری بھی
آئی ہے کہ ان کو رب کریم بے حساب اجر عطا کرے گا۔ ایک او رجگہ ان کو ایسے ڈھارس
بندھائی گئی ہے کہ صبر کرنے والا تنہا نہیں ہوتا،بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے
ساتھ ہے۔ سورۃ البقرہ میں صبر او رنماز کے ذریعہ اللہ سے مدد مانگنے کا حکم دیا گیا
ہے ، او ریہاں پر اس آیت میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ صبر او رنماز میں اللہ عز وجل
نے صبر کو مقدم رکھاہے۔ جو صبر کی عظمت او راس کے اونچے مقام کی واضح دلیل ہے۔
ایک او ربات جو یاد رکھنے
کے قابل ہے کہ اسلام نے صبر کے متعلق تعلیمات مبہم نہیں دیں، بلکہ حضرت انسان کو
اس کاطریقہ بھی بتایا ۔مثال کے طور پر صبر کا سب سے بہترین ذریعہ یہ ہے کہ بندہ اس
بات پر یقین کرلے کہ جو نقصان یا جو برائی مجھے پہنچی ہے وہ ایک لکھی ہوئی شے
ہے۔قرآن مجید میں اسی یقین کامل کی جانب راغب کرتے ہوئے اللہ عز وجل ارشاد فرماتا
ہے :’’ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیجئے کہ اللہ نے ہمارے مقدر میں جو
تکلیف لکھ دی ہے ہمیں اس کے سواہر گز کوئی او رتکلیف ہر گز نہیں پہنچ سکتی۔ وہ
ہمارا رکھوالا ہے ، او راللہ پر ہی مومنوں کو بھروسہ کرنا چاہئے ۔‘‘
(التوبہ:51)آیات کے قرآنیہ کے علاوہ صبر کی تعلیمات کی بات کریں تو ہمارے پیغمبر
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ صبر، تحمل او ربرداشت کاایک جیتا
جاگتا ثبوت ہے ۔ وہ تکلیفیں او روہ مسائل جن کا سامنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
کیا، او رجس بہادری اور جوانمردی کے ساتھ اس کی مثال انسانی تاریخ میں ملنا نا ممکن
ہے۔ چاہے فقرو غربت ہو، اپنی اولاد کا یکے بعددیگر ے اس دنیا سے رخصت ہونا ہو،
کفار ومشرکین کی جانب سے ملنے والے پے در پے چیلنج ہوں، منافقین کی مکاری و عیاری
ہو، اکثر لوگوں کا اسلام سے اعراض ہو۔۔ فہرست بہت طویل ہے ان سارے طوفانوں کی جن
کا سامنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا لیکن کیا مجال ہے کہ ان سب مصائب و مشاکل
کے بیچ ایک لمحہ کے لئے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یقین متزلزل ہوا ہو، یا ایک
لفظ بھی شکوہ شکایت کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر آیا ہو۔ ایک طرف
مصائب و آلام سے بھری یہ حیات مبارکہ ہے اور دوسری طرف امام ترمذیؒ کی کتاب شمائل
ترمذی میں حضرت عبداللہ بن حارثؒ کی روایت کردہ حدیث ہے جس میں وہ فرماتے ہیں :
میں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا شخص کوئی اور نہیں
دیکھا ۔
سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ
وسلم جہاں ایک طرف صبر کا بہترین عملی نمونہ ہے وہیں احادیث مبارکہ میں بھی آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو صبر کی جانب رغبت دلائی ہے اور مصائب و آلام
پر صبر کو اجر کا موجب بتایا ہے ، اور اس
طر ح امت مسلمہ کو مصائب وآلام کے ظاہری چہرے سے پرے دیکھنے کی ترغیب دی ہے۔ ایک
حدیث شریف میں ہے:کوئی مصیبت مسلمان کو نہیں پہنچتی لیکن اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ
اس کی خطاؤں کو دور فرما دیتے ہیں یہاں تک کہ ایک کا نٹا بھی جو اس کو چبھتا
ہے۔(بخاری) ایک دوسرے حدیث میں زیادتی اجر کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اجر کی زیادتی آزمائش کی زیادتی پر منحصر کرتی ہے۔(
الترغیب والترھیب) ایک او رحدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی بندے
کو صبر سے زیادہ بھلی اور وسیع نعمت عطا نہیں ہوئی۔(نسائی)
ان تفصیلات کو جاننے کے
بعد ہمارے لئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے اور یہاں اور
آخرت میں کامیابی کے لئے صبر ایک ایسا حربہ ہے جو کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ او رکمال
کی بات یہ ہے کہ ہمارے خالق و مالک نے ہمیں جب جلد باز پیدا کیا ہے تو اب امتحان
یہ ہے کہ کیسے ہم اپنی اس فطرت پر قابو پاتے ہیں؟ کس طرح صبر کی صفت اپنے اندر
پیدا کرتے ہیں؟ جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتے آیا ہے کہ انسان کیلئے سننا ، کہنا آسان
لیکن کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بس امت مسلمہ بھی مجموعی طور پر بے صبری کی مریض نظر
آتی ہے۔ ماہر القادریؒ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا ہی بہترین شعر
لکھا تھا:
سلام اس پرکہ جس نے خوں
کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے
گالیاں سن کر دعا ئیں دیں
لیکن اس بات کو عملی
زندگی میں برتنا اس پر عمل کرنا شاید ہمارے لئے اس دنیا کا سب سے دشوار کام ہے۔
کیونکہ ہماری عملی زندگی اس بات سے کوسوں دور ہے کہ ہم صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔
خاص کر آج کی اس بھاگتی دوڑتی زندگی میں جب کہ ہر شے نہایت ہی برق رفتاری کے ساتھ
دوڑتی جارہی ہے، اس میں صبر و تحمل کی صفت او رکیفیت ہم میں دن بدن کم ہوتی رہی
ہے۔ یہاں تو پیٹرول پمپ پر کوئی اگر اپنی سواری کو کسی سے آگے لے جائے تو لوگ
مرنے مارنے پر آمادہ ہورہے ہیں ۔ ایسی تیز دوڑتی زندگی میں ہمیں رکنے کی ، ٹھہرنے
کی او رٹھنڈے دماغ کے ساتھ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہر روز نت نئی آفتوں
کے دور میں جی رہے انسان کے لئے یہ ٹھہر اؤ اور صبر ہی وہ واحد راستہ ہے جو اس کو
ان سارے جھمیلوں سے دورلے جاسکتا ہے۔ صبر آج کے دور کے ہر مرض کا تریاق ثابت
ہوسکتا ہے ، جو انسان کو ایک خوشحال اور پرسکون زندگی عطا کرسکتاہے۔ لیکن اس کے
لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ انسان صبر کی اہمیت کو جانے اور اس کو اپنی عملی زندگی
میں برتے۔ ایسے ہی جانباز او ربہادرلوگوں کے لئے اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
’’ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ سب ختم ہوجائے گا اور جو کچھ اللہ کے
پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے ۔ اور جن لوگوں نے صبر سے کام لیا ہوگا ہم انہیں ان
کے بہترین کاموں کے مطابق ان کااجر ضرور عطا کریں گے۔‘‘( النحل :96)
27 مئی،2022 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism