ثاقب سلیم، نیو ایج اسلام
18 اگست 2022
پروین نے اپنی شاعری میں
کئی مقامات پر رادھا اور کرشن کی تصویر کشی کی ہے۔
-----
تو ہے رادھا اپنے کرشن کی
تیرا کوئی بھی ہوتا نام
ہم میں سے اکثر لوگوں کو
یہ یقین کرنا مشکل ہو سکتا ہے کہ مذکورہ بالا سطریں پاکستان کی ایک مسلم خاتون
شاعرہ نے لکھی ہیں۔ وہ پروین شاکر ہیں، جو 20ویں صدی کی مقبول ترین اردو شاعروں
میں سے ایک ہیں۔
پاکستانی شاعرہ پروین شاکر
----------
اس دور میں کہ جب ایسا
معلوم ہوتا ہے کہ پھوٹ ڈالنے والے سیاسی بیانیے نے برصغیر پاک و ہند کی جامع اور
ہم آہنگی کی ثقافت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، عام لوگوں کے لیے یہ یقین کرنا مشکل
ہے کہ بھگوان کرشنا اردو زبان کے مسلم ادیبوں کے لیے ہمیشہ ایک قابل احترام شخصیت
رہے ہیں۔ سیاست دانوں نے زبانوں پر فرقہ واریت کا رنگ چڑھانے کی کوشش کی ہو گی
لیکن سچ یہ ہے کہ زبان و ادب کی جڑیں ثقافت میں ہوتی ہیں نہ کہ مذہب میں۔ اردو جو
ہندوستان میں پوری طرح پھلا پھولا، اس کی جڑیں یہاں کی ثقافت میں ہیں۔ اس کے
استعارے، تشبیہات اور الفاظ ہندوستانی ثقافت سے ماخوذ ہیں۔
جب بات محبت کے استعاروں
اور تشبیہات کی ہو تو ہندوستانی ثقافت میں رادھا اور کرشن سے بہتر جذبات کا اظہار
کیا ہوتا ہے! ہر علاقے، مذہب، ذات اور زبان کے لوگ خود کو اس انتہائی سرشار محبت
کی کہانی سے جوڑ سکتے ہیں۔ پروین شاکر پاکستانی ہونے کے باوجود اردو زبان کی اس
شاندار روایت سے تعلق رکھنے والی مصنفہ تھیں۔ اپنی کتاب صدبرگ میں انہوں نے سلمیٰ
کرشنا کے نام سے ایک نظم لکھی جو اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کرشن کا عقیدت
مند بننے کے لیے کسی کو رادھا یعنی ہندو بننا ضروری نہیں ہے اور سلمیٰ نام کی
مسلمان بھی ان سے عقیدت رکھ سکتی ہے۔ ایک وسیع تناظر میں، اس خیال کو کہ مذہب
رومانوی جذبات پر پہرے نہیں بٹھا سکتا، نظم کے ذریعے بیان کیا جا رہا ہے۔
پروین لکھتی ہیں:
تو ہے رادھا اپنے کرشن کی
تیرا کوئی بھی ہوتا نام
مرلی تیرے بھیتر باجتی
کسی بن کرتی بسرام
یا کوئی سنگھاسن براجتی
تجھے کھوج ہی لیتے شیام
جس سنگ بھی پھیرے ڈالتی
سنجوگ میں تھے شیام
کیا مول تو من کی مانگتی
بکنا تھا تجھے بے دام
بنسی کی مدھر تانو سے
بسنا تھا یہ سونا دھام
گردھر آ کر بھی گئے اور
من مالا ہے واہی نام
جوگن کو پتا بھی کیا ہو
کب صبح ہوئی کب شام
یہ نظم میرا بائی، راسخاں
اور دیگر معروف شاعروں کی روایت سے دور نظر نہیں آتی۔ پروین شاکر نے پاکستان سول
سروسز میں بطور ریونیو اہلکار بھی خدمات انجام دیں۔ نظم کوئی تخریب نہیں ہے۔ پروین
نے اپنی شاعری میں کئی مقامات پر رادھا اور کرشن کی تصویر کشی کی ہے۔ اسی کتاب میں
ایک اور نظم ہے شیام! میں توری گیا چراؤں۔ اس نظم میں بھی محبت کے جذبات کی عکاسی
کے لیے رادھا اور کرشن کا استعمال کیا گیا ہے۔
یہ نظم عقیدت مندی پر
مبنی ہے۔ پروین لکھتی ہیں،
آئے سپنو مائی گوکل کے
راجہ
دینے سکھیو کو آئی بدھائی
کرشنا گوپال راستا ہی
بھولے
رادھا پیاری تو سدھ بھول
آئی
یہ نظم ایسی منظر کشی سے
بھری ہوئی ہے جہاں رادھا کرشن کی بانسری کے عشق میں دیوانہ وار ہے اور اپنے ہوش و
حواس کھو چکی ہے۔ یہ کتاب 1980 میں شائع
ہوئی تھی، اور پروین کا انتقال 1994 میں ہوا تھا۔ آج مجھے حیرت ہے کہ ایک مقبول
مسلم شخصیت بھگوان کرشن کے تئیں اتنی عقیدت کا مظاہرہ کر سکتا ہے اور اسے نشانہ
بھی نہیں بنایا جا سکتا اور یہاں ایک پاکستانی اہلکار سرعام بھگوان کرشن کی تعریف
کر رہا تھا۔
ماخذ: Parveen Shakir: A Pakistani Devotee Of Radha Krishna
English Article: Parveen Shakir: A Pakistani Devotee of Radha Krishna
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism