سعید نقوی
29اکتوبر،2023
مغربی ایشیا میں جوبائیڈن
نے جس طرح مہمان نوازی کے فقدان کا سامنا کیا،اس کی امریکہ اوراسرائیل کو تبدیل
ہوتے عالمی نظام میں توقع کرنی چاہئے۔ شروع سے رجحانات پر نظر ڈالتے ہیں۔ عالمی
میڈیا جس نے آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم کو ہمارے لیونگ روم میں لائیونشر کیا، اسی کو سی
این این کے پیٹر آرنیٹ نے الرشید ہوٹل کے چھت سے جنوری 1991 ء میں شروع کیا تھا۔
یہ میڈیا واحد سپرپاور کی پشت پر سوار ہوکر عالمگیریت کو وسعت دینے کے لئے آیا
تھا۔ 2008ء میں لیہمن برادرز کے خاتمے تک نظام نے معمولی ہنگامہ آرائی کے ساتھ سفر
کیا۔لیہمن برادرز کے خاتمے نے سرمایہ دارانہ منصوبہ میں ساختیانی کمزوری کا اشارہ
دیا جو امریکی طاقت اور استثنیٰ پر مبنی تھا۔
لیہمن برادرز کے بعد کے
عالمی نظام کو ایک میڈیا کے ذریعہ معتبر طریقے سے بیان کیا جاسکتاجس نے نائن الیون
کے بعد کی جنگوں کے دوران اس کی ساکھ کو ختم کردیا تھا۔میرے دوست آنجہانی فلپ
نائٹلی کی کتاب ’فرسٹ کیزوئلیٹی‘ ایک جنگی نمائندوں کاکیٹلاگ ہے۔ جب جنگیں چھڑتی
ہیں تو سب سے پہلا نقصان سچ کا ہوتاہے۔گلوبلائزیشن کے لیے ایک ’چیئر لیڈر‘ بننے کی
بجائے میڈیا امریکہ کی نہ ختم ہونے والی جنگوں کے لئے نقارچی بن گیا۔بالخصوص نائن
الیون کے بعد کی جنگیں،جو سراسر تکرار سے بھری تھیں، اس نے میڈیا کی ساکھ کو نقصان
پہنچایا۔لائز ڈوسیٹ، نک رابرٹسن، کرسٹن امان پور، وولف بلٹز ر کوٹی وی اسکرین پر
بہتات کے ساتھ پیش کیا گیا تاکہ امریکہ کی جنگوں کا جواز پیش کیا جاسکے۔لیکن ناظرین
کو کسی نے یہ جواب نہیں دیا کہ آخر امریکہ دنیا بھر میں 760 اڈوں کی ضرورت کیوں
ہے؟
20 سال کے قبضے کے بعد اگست 2021 ء میں افغانستان سے امریکہ کی ذلت
آمیز روانگی نے امریکی زوال کو ناقابل یقین حد تک او رنیچے پہنچا دیا۔یوکرین میں
عقبی دستہ کے ذریعہ کوشش کی گئی۔
آدھا سچ، جھوٹ سے زیادہ
نقصان دہ ہوتاہے۔ آدھا سچ جو میڈیا کی حماس اسرائیل جنگ کی کوریج کی وضاحت کرتاہے
وہ یوکرین کے بارے میں میڈیا کی کاربن کاپی ہے۔ ولادیمیر پوتن، جن کے قتل کا حل
سنیٹیٹر لنڈ سے گراہم نے تلاش کیا تھا اور جسے صدر جوبائیڈن نے ’قصائی‘ کہا تھا
انہوں نے کیمرے کے قریب جھاک نکالتے ہوئے جنگ کا الزام ’کریملن کے سفاک آمر‘ پر
لگایا۔
پوتن او رامریکہ کے نامور
اسٹریٹجک مفکرین کی طرف سے بار بار انتباہ کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا کہ
یوکرین میں روس کی سرحد تک نیٹو کی توسیع ایک سرخ لکیر تھی جس کی کبھی کوشش نہیں
کی جانی چاہئے۔ یہ روسیوں کے لیے وجود کا مسئلہ ہے،لیکن مغربی میڈیا کی طرف سے
ڈھول کی تھاپ منٹوں میں تیز ہوتی گئی کہ روسی حملہ ہونے جارہا ہے۔ شکاگو کے
پروفیسر جان میر شیمر جیسے امریکی سیاسی مفکرین نے بار بار خبردار کیا کہ روس کو
اکسایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جنگ مغرب کی تخلیق ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ
امریکہ جو ماسکو میں حکومت کی تبدیلی او راس کے ذریعے وقار بحال کرنے کے لیے نکلا
ہے، ایک بار پھر ایسی جنگ میں پھنس گیا ہے جسے وہ جیت نہیں سکتا۔
میڈیا آپ کو یہ کڑوا سچ
نہیں بتائے گا۔ جس طرح پوتن کو اکیلے ’وحشیانہ، غیر انسانی جنگ‘ کا ذمہ دار قرار
دیا گیا، اسی طرح حماس اسرائیل جنگ پر بھی یہ بات صادق آئی۔تمام گناہوں کاملبہ ایک
طرف کردیا گیا ہے جس سے اسرائیل اوراس کے
چاپلوسوں نے غیر یقینی کیفیت میں آنکھیں مل کر دیکھا۔ نکبہ کے بارے میں ایک لفظ
بھی نہیں کہا گیا اور فلسطینیوں کی پناہ گزینوں کے طور پر پرواز او رپنجر ے کی طرح
بند اسرائیل کے رحم وکرم پر غزہ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔گوا ہ رہیں کہ پانی،
کھانا، بجلی سب کی سپلائی کیسے ختم کردی گئی۔اسرائیل کابوٹ ہمیشہ فلسطینیوں کی
گردن پر رہا۔
جی ہاں، پوتن کو ایک ایسی
جنگ پر اکسایا گیا تھا جو امریکہ اپنے خیال میں جیت جائے گا۔ اسی طرح فلسطینیوں کو
بھی مسلسل اشتعال دلایا گیا۔حماس نے اسرائیل پر حملے کے لیے اس لمحے کا انتخاب
کیوں کیا، جس کے ثبوت اب مل گئے ہیں کہ عسکریت پسند گروپ برسوں سے منصوبہ بندی
کررہا تھا۔یہ وضاحت کرتاہے کہ غزہ میں حماس کے عسکری ونگ کے رہنما محمد وائف کیوں
مئی 2021ء میں یروشلم کی تلوار مہم کے بعد روپوش ہوگئے تھے۔
انہوں نے اسرائیلی فوج کو
اس وقت بھی اپنی تیاریوں پرچونکادیا۔غزہ پر اسرائیل کی کئی روزہ جارحیت میں سیکڑوں
فلسطینی شہید اور ہزارو ں زخمی ہوئے۔فلسطینی مزاحمتی گروپ نے پہلی بار یروشلم کی
جانب راکٹ فائر کیے ہیں۔اسرائیل میں فلسطینیوں نے الاقصیٰ کے تحفظ کے لیے مزاحمت
میں شمولیت اختیار کی، جو کہ مسلسل اسرائیلی فوج کی وجہ سے خطرے میں تھی۔ جس قدر
ہوشیار انٹیلی جنس ایجنسیاں اسرائیل کی ہے، ان ایجنسیوں کے پاس پکڑنے کے لئے کافی
کچھ ہورہا تھا۔ الزام یہ ہے کہ اسرائیلی سیکورٹی مغربی کنارے پر آباد کاروں کے
تحفظ اور حکومت مخالف مظاہروں پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے تھی۔ پیشن گوئی کرنے
والوں نے حماس کے 7/اکتوبر کے حملے کے وقت وضاحت مختلف طریقوں سے کی ہے۔ یہ سعودی
اسرائیل تعلقات کو ختم کرنے کے لئے تھی کیونکہ بائیڈن کو دونوں ممالک کے درمیان
تعلقات کی بہت خواہش تھی۔کیا سعودی عرب جس نے ابھی چینی سرپرستی میں ایران کے ساتھ
صلح کی تھی، اسے اپنے لیے دوناقابل برداشت دشمنوں یعنی ایران او راسرائیل کو گلے
لگانے کو کہا گیا؟
یہ تصور کرنا بے وقوفی
ہوگی کہ ریاض نے صرف امریکہ کے کہنے پر ایران کے ہاتھ پکڑلیے۔ اس طرح کی سوچ میں
ایک کلیدی نکتہ کا فقدان ہے۔ ریاض نے کیوں آگے بڑھ کر آیت اللہ سے مصافحہ کیا؟ شاہ
عبدالعزیز السعود نے فروری 1945ء میں نہرسویز میں یو ایس ایس کو کوئنسی پر ایک
تاریخی ملاقات کے دوران صدر روزویلٹ کے ساتھ ’بغیر کسی حد کے‘ دوستی قائم کی۔یہ
یہودی ریاست کی پیدائش سے قبل کی بات ہے۔ تہران کے لیے ریاض کا محور کسی بھی
پیمانہ سے ایک تاریخی قدم اوربہت زیادہ معنی رکھتاہے۔ ریاض مغربی کلب سے نکل کر
برکس میں قدم رکھ رہاہے، جوکہ عالمی جنوب میں پھیلتا گروپ ہے۔ اس ایک قدم نے
واشنگٹن میں بڑی بے چینی پیدا کی ہوگی۔ دوطاقتور علاقائی امریکی اتحادیوں اور
شراکت داروں میں ایک برکس کی طرف متوجہ ہوچکا تھا۔یہ اختیار اسرائیل کیلئے دستیاب
نہیں ہے جسے صدر کارٹر نے ایک نسل پرست ریاست قرار دیا۔ریاض نے جارج ڈبلیو بش کے
دور صدارت کے دنوں میں واشنگٹن سے یہ دوری پیدا نہیں کی ہوتی جب امریکہ واحد سپر
پاور تھا۔ آج کا امریکہ بہت کم طاقتور ہے۔ ابھرتی ہوئی طاقت عالمی جنوب میں ہے۔
اسرائیل کووجود امریکی
طاقت پر منحصر ہے۔عالمی سطح پر امریکی استثنیٰ اور علاقائی طو رپر اسرائیلی
استثنیٰ،دونوں ہی امریکی طاقت کا کام تھے۔ امریکہ اسرائیل کو چھوڑنے والا نہیں۔
لیکن یہ اس کے نازونخرے کو بھی اس طرح برداشت نہیں کرپائے گا۔ وقت کاتقاضہ یہ ہے
کہ اسرائیل خطے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے دن رات کام کرے اور فلسطینیوں
کو وہ دے جو ان کا حق ہے۔ امریکہ کے لیے دومحاذوں یوکرین اور اسرائیل پر امن کی
تلاش کامشکل کام ہے۔ ہرہفتے کی تاخیر کے ساتھ امریکہ اور زیادہ کمزور ہوتا جارہاہے
او راسرائیل اس سے بھی زیادہ کمزور ہورہا ہے۔
29 اکتوبر، 2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism