New Age Islam
Sun Feb 09 2025, 10:54 PM

Urdu Section ( 10 Aug 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Self-Proclaimed Islamic Countries Shy Away From Their Responsibility Towards Palestine خود ساختہ اسلامی ممالک فلسطین کے تئیں اپنی ذمہ داری سے چشم پوشی کر رہے ہیں

او آئی سی کے رکن ممالک ناکاروں کی ایک ٹولی ہیں جو فلسطینیوں کی مدد کرنے سے معذور ہیں

اہم نکات:

1.      سعودی عرب اور دیگر سنی ممالک مشرق وسطیٰ میں ایران کو مضبوط کرنے کی قیمت پر اسرائیل کو شکست نہیں دینا چاہتے

2.       حماس ایران کا اتحادی ہے لہٰذا حماس کو مضبوط کرنے سے عرب ممالک کے مفادات کو نقصان پہنچے گا

3.      سوڈان، متحدہ عرب امارات، مراکش اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں

4.      او آئی سی ممالک کے درمیان فرقہ وارانہ تقسیم فلسطین کے مسئلے پر اختلاف کا سبب ہے

5.      عالم اسلام کے خود ساختہ خلیفہ اردگان خود کو بے بس پاتے ہیں

------

نیو ایج اسلام نامہ نگار

17 مئی 2021

فلسطینیوں کے خلاف حالیہ اسرائیلی جارحیت نے ایک بار پھر عرب اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک کی بے حسی اور بزدلی کو بے نقاب کیا ہے جو اس بنیاد پر اسلامی مملکت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا آئین قرآن و حدیث پر مبنی ہے۔ جب جھڑپیں فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین غیر اعلانیہ جنگ کی شکل اختیار کر گئیں تھیں اور 150 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے تھے جن میں 40 بچے بھی شامل  تھے  تب نام نہاد اسلامی ممالک بے یار و مددگار فلسطینیوں کے لیے صرف بیان بازیاں ہی کر رہے  تھے۔ ان میں سے کچھ پاکستان اور ایران جیسے ایٹمی طاقت والے ممالک بھی تھے۔ پاکستان جوکہ بار بار ہندوستان کے خلاف ڈیگیں ہانکتا ہے اور اسے اپنے ایٹمی بم سے تباہ کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے، اس کے وزیر اعظم عمران خان فلسطین کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی پر بیان بازی کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ وہ نوم چومسکی کی ایک شاعری کا حوالہ بھی دیتے ہیں:

"تم میرا پانی لے لو، میرے زیتون کے درخت جلا دو، میرے گھر کو تباہ کر دو، میری نوکری لے لو، میری زمین چوری کر لو، میرے باپ کو قید کر دو، میری ماں کو قتل کر دو، میرے ملک پر بمباری کرو، ہم سب کو مفلوک الحال کر دو لیکن میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ میں نے ایک راکٹ مار گرائی ہے۔"

Protesters attend a rally in London to express solidarity with Palestinians on Saturday.Chris J Ratcliffe / Getty Images

-----

یہی سب کچھ تھا، یعنی محض کھوکھلی بیان بازی، ایک ایٹمی طاقت سے لیس خود ساختہ اسلامی ملک پاکستان کے سربراہ کے پاس ان فلسطینیوں کو دینے کے لئے یہی کچھ تھا جو اپنے محدود وسائل کے ساتھ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

ایک دووسرا ایٹمی طاقت والا ملک ایران جو اکثر اسرائیل کو ختم کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے حماس کو خفیہ طور پر میزائلوں کی فراہمی کے علاوہ فلسطینیوں کی کھل کر حمایت نہیں کر سکا۔ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے بشار الاسد سے ملاقات کے لیے شام کا دورہ کیا لیکن اس سے کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے مصری وزیر خارجہ سے فلسطین کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا لیکن وہ بھی فلسطینیوں کی مدد کے لیے کچھ نہیں کر سکے۔ ترکی کے صدر طیب اردگان جنہوں نے 4000 داعش جنگجوؤں کو آزربائیجان بھیجا تھا آرمینیا کو شکست دینے کے لیے، وہ بھی اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کرنے کی ہمت نہیں کر سکے۔

یہ تمام ممالک دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ قرآن اور احادیث کے احکامات پر عمل کرتے ہیں اور اپنی حکومت کو شریعت کے مطابق چلاتے ہیں۔ تو آئیے معلوم کرتے ہیں کہ قرآن مسلمانوں اور مسلم ممالک کو اس صورت حال میں کیا ہدایات دیتا ہے جس کا آج فلسطینی باشندے شکار ہیں۔

فلسطینیوں کی سرزمین اسرائیل نے غصب کر لی ہے اور اسرائیلی فوجیں ان پر حملے کر رہی ہیں، انہیں ان کے گھروں سے بے دخل کر رہی ہے اور انہیں اپنے ہی وطن میں پناہ گزین بنا رہی ہے۔ پچھلے 70 سالوں کے دوران صہیونیوں نے فلسطین کے 95 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ اب وہ انہیں زبردستی شیخ جراح نامی 35 ایکڑ کے پلاٹ سے نکال رہے ہیں۔ فلسطینی اب غزہ پٹی اور ویسٹ بینک تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان حالات میں قرآن ان سے کہتا ہے:

"وہ لوگ جنکی جان فرشتے نکالتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے انسے فرشتے کہتے ہیں تم کاہے میں تھے کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور تھے کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اسمیں ہجرت کرتے، تو ایسوں کا ٹھکانا جہنم ہے، اور بہت بری جگہ پلٹنے کی۔ مگر وہ جو دبا لیے گئے مرد اور عورتیں اور بچے جنہیں نہ کوئی تدبیر بن پڑے نہ راستہ جانیں۔ تو قریب ہے اللہ ایسوں کو معاف فرمائے اور اللہ معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے،۔ " (النساء: 99-97)

مذکورہ بالا آیات کہتی ہیں کہ فلسطینی جیسے لوگوں کو ایسی جگہ چھوڑ دینی چاہیے جہاں ان پر مسلسل ظلم کیا جاتا ہو اور جہاں انہیں اپنے مذہبی فرائض پر عمل درآمد کی اجازت نہیں دی جاتی ہو اور انہیں دیگر انسانی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہو اور جہاں زندگی اور عزت کے حق کی ضمانت نہیں دی جاتی ہو۔ اگر ان کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ جگہ چھوڑ دیں لیکن اسے نہ چھوڑیں اور خود کو ذلت کی زندگی میں جھونک دیں تو ان پر خدا کی لعنت ہے۔ لیکن اگر وہ پھنس گئے ہیں اور وہ جگہ چھوڑنے کی خواہش کے باوجود ایسا نہیں کر سکتے تو خدا ان کو معاف کر دے گا۔

Image: Associated Press

----

فلسطینیوں کے ساتھ صورتحال یہ ہے کہ جدید دور میں جب کہ کسی ملک کے شہری بغیر اجازت کے کسی دوسرے ملک میں داخل نہیں ہو سکتے اور کوئی بھی ملک کسی مخصوص علاقے کی پوری آبادی کو اپنی زمین میں ہجرت کرنے اور آباد ہونے کی اجازت نہیں دے گا، فلسطینیوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ہجرت کر کے کسی اور ملک میں چلے جائیں۔ اس لیے انہیں اس سرزمین پر اسرائیل سے اپنی بقاء کے لیے لڑنا پڑے گا جہاں وہ ماقبل تاریخ سے سے آباد ہیں۔

اب آئیے معلوم کرتے ہیں کہ قرآن اسلامی ممالک کو فلسطینیوں جیسے لوگوں کے لیے کیا کرنے کی ہدایت دیتا ہے جنہیں اسرائیل مشق ستم بنا رہا ہے۔ قرآن کہتا ہے:

"اور تمہیں کیا ہوا کہ نہ لڑو اللہ کی راہ میں اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کے واسطے یہ دعا کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی دے دے اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار دے دے۔ "(النساء: 75)

اس آیت کے مطابق اسلامی ممالک کا یہ مذہبی فریضہ ہے کہ وہ مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی مدد کے لیے تمام ضروری وسائل کے ساتھ سامنے آئیں۔ اسلامی ممالک کو فلسطینیوں کو سفارتی یا عسکری طور پر تحفظ فراہم کرنے اور ان کی مدد کرنے کے لئے قدم آگے بڑھائیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا نام نہاد اسلامی ممالک اس ذمہ داری کو نبھا رہے ہیں؟ کیا وہ فلسطینیوں کی حفاظت کرنے اور انہیں اس مصیبت سے نجات دلانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں؟ جواب ہے: نہیں۔ جب اسرائیل شہریوں، پریس کی عمارتوں، رہائشی مکانوں پر حملہ کر رہا ہے اور بچوں، عورتوں اور غیر مسلح شہریوں کو قتل کر رہا ہے اور مستقبل میں حملے جاری رکھنے کی کھلی دھمکی بھی دے رہا ہے تو صرف مذمت والی زبانی بیان بازی ہی قرآن کا مسلم ممالک سے مطالبہ نہیں ہے۔

فلسطینیوں کی حالت زار پر بے حسی کے اظہار کے لئے عالمی برادری کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے کافی تاخیر سے اس مسئلے پر اپنا اجلاس منعقد کیا اور وہ بھی امریکہ کے دباؤ کی وجہ سے اس پر باضابطہ پریس ریلیز جاری کرنے میں ناکام رہا۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ترکی کے سفیر فرید الدین سنیرلیوگلو نے یو این ایس سی کو ایک تحریری بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ "ایسے مسئلے پر ایک پریس ریلیز تک جاری نہ کرنا جو کہ ابتداء سے ہی کونسل کے ایجنڈے میں شامل ہے، ناقابل قبول ہے۔" انہوں نے اقوام متحدہ کو مشورہ دیا کہ وہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے اور فلسطینی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک بین الاقوامی طریقہ کار تیار کرے۔

مسلم ممالک نے اقوام متحدہ کو اسرائیل کے خلاف کوئی موثر اقدام نہ اٹھانے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن 57 مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت میں صرف پریس ریلیز جاری کرنے کے سوا کیا ہی کیا ہے؟ او آئی سی ممالک بالکل ناکارہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ ممالک شام کی خانہ جنگی کے دوران شام کے خلاف اتنے متحرک تھے کہ بندر بن سلطان روسی صدر سے ملنے چلے گئے اور اسے دھمکی دے ڈالی کہ "ہم شام پر حملہ کرنے جا رہے ہیں۔ شام میں سرگرم تمام دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی امریکہ کرتا ہے۔ اگر تم بشار الاسد کو بچانے کے لیے نہیں آتے تو ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے ملک میں منعقد ہونے والے سوچی اولمپکس کے دوران کسی قسم کی پریشانی پیدا نہیں کریں گے‘‘۔

Image: Associated Press

----

یہ پوتن کو سعودی عرب سے براہ راست خطرہ تھا۔ بندر کے جانے کے فورا بعد پوتن نے اپنی فوج کو چوکس ہونے کا کا حکم دیدیا۔ پوتن نے واضح طور پر کہا تھا کہ اگر امریکہ نے شام پر حملہ کیا تو روس سعودی عرب پر حملہ کر دیگا۔ اس نے امریکہ اور سعودی عرب کو شام پر حملہ کرنے سے روک دیا۔

حیرت کی بات ہے کہ اب وہ تمام بہادر بندر اور سلطان اور خلیفہ کہاں چھپے ہوئے ہیں جب فلسطینی مدد کے لیے پکار رہے ہیں اور اسرائیلی ٹینکیں غزہ میں گھسنے کے لیے تیار ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ او آئی سی کے کچھ اراکین (متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش) نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے ہیں۔ لہٰذا وہ ایسا کچھ بھی نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی کر سکتے ہیں جس سے اسرائیل کو نقصان پہنچے۔ سنی ممالک کی پریشانی یہ ہے کہ وہ حماس کو مضبوط نہیں کر سکتے کیونکہ حماس ایران کا اتحادی ہے۔ اگر عرب ممالک حماس کی حمایت کرتے ہیں تو اس کا مطلب مشرق وسطیٰ میں شیعہ ایران کو مضبوط کرنا ہوگا۔ وہ اسرائیل کی قیمت پر خلیج میں ایران کو مضبوط نہیں کر سکتے۔ اگر اسرائیل کو حماس کی مدد سے شکست ہوئی تو مشرق وسطیٰ میں ایران کو کوئی روکنے والا نہیں ہوگا۔ چنانچہ سنی عرب ممالک کی بقا کا انحصار اسرائیل کی بقا پر ہے یا کم از کم وہ تو ایسا ہی سوچتے ہیں۔

فلسطینی یہ توقع بھی نہیں کر سکتے کہ سعودی عرب، پاکستان، ترکی اور ایران، چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات کا استعمال کریں گے تاکہ ان عالمی طاقتوں کو اسرائیل کے خلاف موثر اقدامات کرنے پر آمادہ کر سکیں کیونکہ ان مسلم ممالک کے ان دو عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات مساوی نہیں ہیں بلکہ وہ صرف ان کے مہرے ہیں۔ اویغور کے معاملے پر چین کا دفاع کرنے والا سعودی عرب چین سے اسرائیل کی مذمت کرنے کے لئے نہیں کہہ سکتا۔ سعودی دولت پر انحصار کرنے والا پاکستان اسرائیل کے خلاف کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ سعودی اسرائیل سے دشمنی نہیں کرنا چاہتے۔

مختصر یہ کہ اس قدر بکھرے ہوئے مسلم ملکوں سے فلسطینیوں کے لئے ٹھوس مدد فراہم کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی جب تک کہ حالات غیر متوقع موڑ نہ لے لیں۔

-------------------

English Article: Self-Proclaimed Islamic Countries Shy Away From Their Responsibility Towards Palestine

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/palestine-gaza-oic-palestinians/d/125200


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..