توہین رسالت کے الزامات تمام
مسلمانوں کو جنونی بنا دیتے ہیں
اہم نکات:
1. مشتاق پندرہ سال سے ذہنی مریض تھے
2. انہوں نے ہجوم کے سامنے اپنی بے گناہی کی التجا کی
3. 3 دسمبر کے دن سری لنکا کے ایک شہری کی لنچنگ کے بعد ہجومی تشدد
کا یہ دوسرا واقعہ ہے
4. پاکستان کی حکومت اس وقعہ کی مذمت میں باقاعدہ بیان جاری کرتی ہے
5. مذہبی حلقہ اس واقعہ پر خاموش ہے
----
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
16 فروری 2022
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Police
officers stand outside a mosque on Sunday, a day after a mob lynched a man in
Tulamba Village, in Mian Channu, Punjab. — Reuters
-----
پاکستان میں ایک بار پھر قرآن
کی بے حرمتی کے الزام میں ایک بے گناہ مسلم کو ہجوم نے قتل کر دیا۔ پاکستان پنجاب کے
ضلع خانیوال کے گاؤں میں ذہنی طور پر بیمار مسلمانوں کے ایک ہجوم نے ہفتے کی شام مشتاق
نامی ایک ذہنی مریض مسلمان کو قتل کر دیا۔ اسے درخت سے باندھ کر سنگسار کیا گیا۔ پولیس
بروقت موقعہ واردات پر پہنچی اور مشتاق کو حراست میں لے لیا لیکن ہجوم نے اسے پولیس
سے چھین لیا۔ جس کے بعد پولیس اس بہیمانہ قتل پر خاموش تماشائی بنی رہی۔
مقتول کے اہل خانہ کا کہنا
ہے کہ مشتاق تقریباً پندرہ سال سے ذہنی مریض تھا۔ وہ اکثر لاپتہ ہو جاتا اور بھیک مانگتا
اور جو ملتا اسے کھا لیتا۔
اس شام کو مقامی مسجد کے متولی
نے مبینہ طور پر مشتاق کو قرآن مجید کے اوراق جلاتے ہوئے دیکھا اور بظاہر ایک اور قرآن
جلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس سے خطرے کی گھنٹی بجی اور شام کی نماز کے لیے آنے والے
لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور مار مار کر مار ہی ڈالا۔ ان کے مطابق مشتاق نے مارے جانے
سے پہلے ہجوم کے سامنے اپنی بے گناہی کی التجائیں کی۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران
خان نے اس المناک واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس سے قانون سختی
کے ساتھ نمٹے گا اور ان کی حکومت قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کو بالکل برداشت
نہیں ہے۔
Maulana
Tahir Ashrafi, PM's special representative
-------
مذہبی ہم آہنگی پر وزیر اعظم
کے خصوصی نمائندے مولانا طاہر اشرفی نے ایک ٹیلی ویژن پریس کانفرنس میں کہا کہ اپنےمذہب
کی تشریح کے مطابق قتل کرنا ان کے نبی کا مذہب نہیں ہے۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق
شیریں مزاری نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ
کیا ہے۔
ان سب باتوں سے ہمیں یقین
ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے اس واقعے کو سنجیدگی سے لیا ہے اور وہ کچھ ایسا کرے
گی کہ جس سے اس ملک کے مذہبی انتہاپسند مستقبل میں ایسی غیر اسلامی حرکتوں سے باز رہیں
گے۔ لیکن عملی سطح پر وزیر اعظم اور ان کے وزراء اور مشیروں کے تمام بیانات دھوکہ دہی
معلوم ہوتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس واقعے نے بھی قوم کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑا، اور
یہ بھی ایک عام واقعہ کی طرح گزر گیا ہے۔
Muskan
Khan
-----
اس قیاس آرائی کی وجہ یہ ہے
کہ اگرچہ وزیراعظم، ان کے وفاقی وزیر اور ان کے مذہبی مشیر نے اس واقعے کی باضابطہ
مذمت کی ہے اور سینیٹرز ساجد میر اور اعجاز احمد چودھری نے سینیٹ میں اس واقعے کی باضابطہ
مذمت کی ہے، لیکن ان کے نمک خوار کسی بھی علمائے کرام نے اس واقعے کے بارے میں کچھ
بھی نہیں کہا، واقعہ کی مذمت کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ اردو کے دو بڑے اخبارات جنگ اور
نوائے وقت کے صفحات پلٹتے ہیں تو باقاعدہ کالم نگاروں کا کوئی بھی کالم اس واقعے کی
مذمت میں نہیں ہے اور نہ ہی کسی بھی کالم میں اسلامی نقطہ نظر سے اس واقعے پر بحث کی
گئی ہے۔ اس کے بجائے جمیعت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی پاکستان دونوں کی خواتین
ونگ نے ہندوستانی طالبہ مسکان کی بہادری کو سراہا ہے۔ جے یو آئی خواتین ونگ نے ایک
ریلی بھی نکالی جس میں خواتین نے مسکان زندہ باد، حجاب زندہ باد اور بھارت مردہ باد
کے نعرے لگائے۔ لیکن واضح طور پر انہوں نے مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے ہی ملک کے ایک ذہنی
مریض کو لنچ کیے جانے پر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ وقف اور
مذہبی امور کے وزیر سید سعید الحسن نے لنچنگ کے دو دن بعد منگل کو ایک پروگرام میں
کہا کہ پنجاب کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کے لیے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ
پنجاب عثمان بزدار کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کے تحت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پیغمبر
اسلام کے خلاف اس سے بڑی گستاخی نہیں ہو سکتی۔ یہ پنجاب ہی کی بات ہے کہ گزشتہ سال
3 دسمبر کو ایک سری لنکن ہندو کو مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام میں ہجوم نے قتل
کر کے جلا دیا تھا۔ پنجاب میں دراصل مسلمان اور غیر مسلم دونوں ہی مذہبی انتہاپسندوں
سے غیر محفوظ ہیں اور حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ پنجاب کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کے
لیے اقدامات کر رہی ہے۔
تقریباً دس سال قبل ایک حافظ
قرآن کو اس کے گھر میں نادانستہ طور پر قرآن مجید کو مٹی کے تنور پر گرانے کی وجہ سے
جلا کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ قرآن مجید کے کچھ اوراق بچانے کی اس کی
کوشش کے باوجود جل گئے تھے۔ لیکن مسلمانوں کے مشتعل ہجوم نے اسے تھانے سے گھسیٹ کر
باہر لے جاکر مارا پیٹا۔ اس کے بعد انہوں نے اس کے جسم کو آگ لگا دی۔
پاکستان میں مبینہ طور پر
توہین مذہب کے الزام میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کا قتل عام بات ہے۔ ایک تھنک ٹینک
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1947 سے 2021 تک
توہین مذہب کے 1415 واقعات درج ہوئے جن میں سے 18 خواتین اور 17 مرد ماورائے عدالت
قتل کر دئے گئے۔ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو ان کے محافظ نے اس لیے قتل کر
دیا کیونکہ وہ پاکستان کے توہین مذہب کے ان قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کر رہے تھے
جس میں ایک مجرم کے لیے سزائے موت تجویز کی گئی تھی۔ اتفاق سے اس قانون کے تحت بہت
کم سزائیں ہوئی ہیں لیکن مذہبی تنظیمیں مسلمانوں کو قانون سے بری ہونے والوں کو قتل
کرنے پر اکساتی ہیں۔
پاکستان کے توہین رسالت کے
قوانین کو عام طور پر اکثریتی سنی مسلم کمیونٹی اقلیتی برادریوں اور فرقوں کو ڈرانے
اور ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں
اور آزادی پسند مسلمانوں نے ان ظالمانہ قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کیا ہے لیکن پاکستان
کی حکومتیں عسکریت پسند مذہبی تنظیموں اور علما کے دباؤ کے سامنے جھک گئیں ہیں۔
پاکستان میں علمائے کرام کی
اکثریت کا خیال ہے کہ توہین رسالت کے جرم میں ایک مسلمان کو بھی قتل کیا جا سکتا ہے۔
لہٰذا پاکستانی مسلمانوں کا عام عقیدہ یہ ہے کہ توہین مذہب کے ملزم کو عدالتی کاروائی
مکمل ہونے کا انتظار کیے بغیر قتل کر دینا چاہیے۔ اگر عدالتیں انہیں بری کر دیں تو
بھی مسلمانوں کو انہیں بری نہیں کرنا چاہیے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان کا
پنجاب مذہبی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کا گڑھ بن چکا ہے۔ علماء قرآن و سنت کے پیغام
کو پھیلانے کی آڑ میں مسلمانوں میں فرقہ وارانہ اور مذہبی منافرت پھیلاتے رہتے ہیں۔
لہٰذا، لنچنگ کے خلاف وزیر
اعظم پاکستان کے سخت الفاظ کے باوجود، مجرموں کے کٹہرے میں آنے کی کوئی امید نہیں ہے
کیونکہ توہین مذہب کے قوانین مظلوم پر لاگو ہوں گے اور مجرموں کو عسکریت پسند مذہبی
گروہوں کے دباؤ کے تحت رہا کر دیا جائے گا جن سے یہ جنونی وابستہ ہیں۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism