ارشد عالم، نیو ایج اسلام
30 اکتوبر 2021
پاکستان: ٹی ایل پی کی
شورش پھر عروج پر
اہم نکات:
1. ٹی ایل پی، حکومتِ پاکستان پر فرانس کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع
کرنے اور اس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے لیے ایک بار پھر سراپا احتجاج ہے
2. پاکستانی حکومت سخت موقف اپنانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی
ہے جس سے صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔
3. عمران خان نے ریاست مدینہ کی بازیافت کا وعدہ کیا ہے تو اب
انہیں ٹی ایل پی کی مخالفت کیوں کرنی چاہیے جب کہ وہ بھی اسی بات کا مطالبہ کر رہے
ہیں؟
-----
تحریک لبیک پاکستان (ٹی
ایل پی) ایک بار پھر متحرک ہے۔ وہ ایک بار پھر مطالبہ کر رہے ہیں کہ پاکستان فرانس
کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کرے اور اس کے سفیر کو ملک سے نکال دے۔ ٹی ایل پی کا
کہنا ہے کہ حکومت ان کے مطالبات ماننے سے انکار کر کے پیغمبر اسلام کی توہین کرنے
والوں کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ فرانس کے اخبار چارلی
ہیبڈو نے شہادت کی اسلامی خواہش پر مضحکہ خیز کارٹون کی اشاعت کا ایک سلسلہ شروع
کیا تھا جسے دنیا بھر کے مسلمانوں نے شدید اہانت آمیز پایا تھا۔ ٹی ایل پی کے لیے،
جو کہ ایک ایسی جماعت ہے جس نے توہین مذہب کو اپنا بنیادی مسئلہ بنا رکھا ہے، اسے
اپنی طاقت کے اظہار کا موقع مل گیا۔ انہوں نے اہم شہروں اور دارالحکومت کا محاصرہ
کیا جس کے بعد حکومت پاکستان ان کے ساتھ مذاکرات کرنے اور ان کے بیشتر مطالبات
تسلیم کرنے پر مجبور ہوئی۔ تاہم چند مہینوں کے بعد اسی حکومت نے ٹی ایل پی کو ایک
دہشت گرد تنظیم قرار دیا جس سے ان لوگوں کو کافی راحت ملی جو علماء کی قیادت والی
اس جماعت کی بلیک میلنگ کو روکنا چاہتے تھے۔ حکومت پاکستان کے اندر بھی یہی الجھن
اب بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے ایک وزیر کا کہنا ہے کہ وہ مظاہرین سے بات کرنے کے
لیے تیار ہیں جب کہ دیگر نے یہ الزام لگاتے ہوئے ان کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار
کر دیا ہے کہ ٹی ایل پی کو بھارت فنڈز فراہم کر رہا ہے۔
پاکستانی حکومت کا یہ
نقصان اور بالآخر ہتھیار ڈالنے کا عمل طویل عرصے سے جاری ہے اور بنیادی طور پر اس
کی وجہ سیاسی اسلام کے ساتھ اس کا دست و گریباں ہونا ہے۔ اپنے اعلانات اور پالیسی
اقدامات کے ذریعے مسلسل عمران خان کی حکومت لوگوں سے یہ وعدہ کرتی رہی ہے کہ وہ اس
پیغمبرانہ دور کا احیاء کریں گے جب مساوات، انصاف اور فلاح و بہبود ریاست کی بنیاد
تھی۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ دعویٰ کتنا درست ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر تصورات
ماقبل جدید دور میں معدوم تھے۔ مثال کے طور پر اسلامی قانون میں انصاف جدید قانون
کے برعکس بحالی کے بجائے انتقامی اصول پر مبنی ہے۔ اسی طرح عمران خان جیسے مسلمان
خیرات کو فلاح و بہبود کے مساوی بتانے کی غلطی کرتے ہیں جو کہ صریحاً لغو ہے۔ جدید
فلاح و بہبود کا آغاز ایک قومی ریاست سے ہوتا ہے جو انفرادی شہریوں کے حقوق اور
وقار کے تحفظ کے لیے وقف ہوتی ہے، جو کہ قرون وسطیٰ کے ممالک میں ندارد تھے خواہ
مسلم ہو یا عیسائی۔
عمران خان نے پاکستانی
عوام سے وعدہ کیا ہے کہ میں ریاست مدینہ کا احیاء کروں گا جسے پیغمبر اسلام ﷺ نے
قائم کیا تھا جس میں لوگوں کی تمام ضروریات کا خیال رکھا جاتا تھا۔ وہ اس نظریہ کو
پر زور انداز میں رکھتے ہیں اور خود کو ایک مخلص مومن کے طور پر پیش میں ضیاء الحق
سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں اسلام کا سہارا لینا پڑا اس کا
مطلب یہ ہے کہ بنیادی طور پر کہیں کچھ غلط ضرور تھا۔ معیشت بدستور گہرے بحران کا
شکار رہی اور اسٹریٹجک معاہدے کے شعبوں میں چین کی گرفت مضبوطی سے محسوس ہو رہی
ہے۔ امدادی معیشت، جس پر حکومتِ پاکستان اتنے سالوں سے انحصار کر رہی تھی، امریکہ
کے اسٹریٹیجک مفادات افغانستان سے ہٹتے ہی اب ختم ہو رہی ہے۔ پاکستان تباہی کا
شکار ہے اور ممکنہ طور پر اس امید کو زندہ رکھنے کا واحد راستہ اسلام کے لیے نئی
اپیلیں پیدا کرنا ہے۔
Imran
Khan, Pakistan Prime Minister
------
عمران خان حکومت کی نئی
تعلیمی پالیسی کو ہی دیکھ لیں۔ بظاہر اس کا مقصد ایک قومی نصاب تجویز کر کے
پاکستانی تعلیم کو یونیفائی کرنا ہے۔ تاہم، جیسا کہ پرویز ہودبھائے جیسے ناقدین نے
نشاندہی کی ہے، یہ ایک سیاسی چال کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پرائیویٹ اور گورنمنٹ
اسکولوں کے درمیان واضح فرق ایسی کسی بھی یکسانیت کا سد باب کرتا رہے گا جس کا
حکومت وعدہ کر رہی ہے۔ اس پالیسی سے صرف وہی ملا مستفید ہوں گے جنہیں نصابی کتابوں
کی مقامی کمیٹیاں نصابی کتابوں سے کسی بھی 'برائی اور اسلام مخالف' مواد کو روکنے
کے لیے مقرر کریں گی۔ وہ نصابی کتب میں مذہبی تعلیم کے بہت بڑے مواد سے بھی مستفید
ہوں گے۔ اسلام مخالف مواد کچھ بھی ہو سکتا ہے: ڈارون کے ارتقاء سے لے کر اس مضحکہ
خیز دلیل تک کہ تمام خواتین کو ان نصابی کتب میں مکمل طور پر پردے میں ہی دکھایا
جانا چاہیے۔ یہ ملّا، جنہیں سائنس یا لبرل تعلیم سے کوئی غرض نہیں، اب یہ فیصلہ
کرنے بیٹھیں گے کہ ایسی نصابی کتابیں کیسے لکھی جائیں اور کر طرح پڑھائی جائیں۔
کسی بھی سمجھدار ملک میں اسے ایک اسکینڈل مانا جاتا، لیکن پاکستان میں اسے حکومت
خود ہی انجام دے رہی ہے۔
(File Photo: Representational)
------
پتہ نہیں لوگ عمران خان
کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں۔ لیکن مسلمانوں کی عادت ہے کہ جب بھی اسلام کا
نام لیا جاتا ہے تو وہ خاموش ہو جاتے ہیں اور سوال کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ پاکستان
میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ عمران خان سے کبھی یہ سوال نہیں کیا گیا کہ انہوں نے
اپنے آسمانی خیال کو زمین پر لانے کی تجویز کیسے پیش کی۔ لیکن انہوں نے ملک کی
توقعات کو بڑھا دیا ہے، خاص طور پر مذہبی طرز حیات کو اپنانے کے سلسلے میں۔ ایک
طرح سے ٹی ایل پی تحریک حکومت پر یہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ اپنے وعدے
کو پورا کرے۔ آخر کار حکومت نے ہی نبی ﷺ کو پوری انسانیت کے لیے نمونہ بنا کر پیش
کیا ہے۔ لہٰذا، جب ٹی ایل پی پوچھتی ہے کہ حکومت توہین رسالت کے معاملے پر خاموش
کیوں ہے، تو شاید وہ صحیح سوال کر رہے ہے۔ لہذا، اگر ٹی ایل پی کے مظاہرین یہ
مطالبہ کر رہے ہیں کہ پاکستان میں شریعت کے مطابق حکمرانی ہونی چاہیے جیسا کہ نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہوا تھا، تو ان مطالبات میں حرج کیا ہے؟ اگر حکومت خود
یہ کہتی ہے کہ وہ ریاست مدینہ کے احیاء کے لیے پرعزم ہے تو وہ ان تمام ممالک سے
تعلقات منقطع کرنے میں کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہے جنہوں نے نبی ﷺ کا مذاق اڑایا؟
اس لیے کئی طریقوں سے
حکومت پاکستان ہی نے اس تحریک کو جنم دیا ہے۔ حکومت اب پیچھے ہٹ کر ٹی ایل پی کے
مظاہرین پر ملک کو یرغمال بنانے یا بھارت کے کہنے پر کام کرنے کا الزام نہیں لگا
سکتی۔ اگر آپ اسلام کے نام پر سیاست کرتے ہیں تو پھر آپ کسی کو ایسا مطالبہ کرنے
سے کیسے روک سکتےہیں؟
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism