ارشد عالم،
نیو ایج اسلام
18 فروری 2023
اپنی شریعت
کے کچھ حصوں کو ترک کیے بغیر، یہ مسئلہ ختم نہیں ہوگا۔
اہم نکات:
1. پاکستان میں اس بار قرآن کی بے حرمتی کرنے پر ایک
اور شخص کو ہجومی تشدد میں مار دیا گیا۔
2. گزشتہ سال تک اس طرح تقریباً
89 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
3. جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس
کا اسلام سے کبھی لینا دینا نہیں ہے وہی اس مسئلے کی جڑ ہیں۔ انہیں اس طرح کے واقعات
کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔
4. جب ہم اس بات کو تسلیم کریں
کہ ہماری شریعت اس طرح کے قتل کی اجازت دیتی ہے، تبھی ہم اس کے بارے میں کچھ کر سکیں
گے۔
------
ایک ہجوم نے ننکانہ صاحب تھانے
پر دھاوا بول دیا، توہین مذہب کے الزام میں ایک شخص کو گھسیٹ کر مار ڈالا۔ (اسکرین
گریب)
-----
جیسا جب میں نے چند روز قبل ایک
پاکستانی شخص کی ویڈیو دیکھی جس کی ایک ہجومی تشدد جان لے لی، تب مجھے اس درد کا احساس
ہوا کہ اس معاشرے میں کچھ غلط ہو رہا ہے۔ ایک آدمی، جس کو مارا پیٹا گیا، سڑکوں پر
گھسیٹا گیا اور پھر اسے آگ لگا دی گئی، ایسا لگتا ہے کہ قرون وسطیٰ کی سزا کا منظر
نگاہوں کے سامنے ہے۔ لیکن یہ خوفناک تصاویر اسی سال کی ہیں۔ اس وحشیانہ انداز میں جس
شخص کو سزا دی جا رہی ہے اس پر توہین مذہب کا الزام ہے، جو کہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس
میں تقریباً کسی بھی چیز اور ہر شئی کو کچھ تخیلاتی تشریح کے ساتھ شامل کیا جا سکتا
ہے۔ پاکستان میں توہین مذہب کی سزا موت ہے، جیسا کہ دنیا کے بہت سے دوسرے مسلم ممالک
میں ہے۔ ایک پاکستانی تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق گزشتہ
سال تک توہین مذہب کے الزام میں 18 خواتین اور 71 مردوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا
چکا ہے۔ ایسے معاملات کا تعلق اکثر پنجاب سے ہوتا ہے جہاں بریلویوں نے توہین رسالت
کو ایک سیاسی مسئلہ بنا دیا ہے۔ اگر کوئی اب بھی اس غلط فہمی میں ہے کہ بریلوی اعتدال
پسند ہیں تو اسے صرف یہ دیکھ لینا چاہیے کہ وہ دنیا کے مختلف حصوں میں کیا کر رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی، ہیومن رائٹس کمیشن
آف پاکستان نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں توہین مذہب سے متعلق معاملات میں خطرناک
حد تک اضافے کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اسی طرح کی رپورٹوں کے باوجود کہ زیادہ تر معاملات
میں، توہین کا الزام ذاتی انتقام کا نتیجہ ہوتا ہے، توہین رسالت سے متعلق معاملوں کے
حوالے سے شواہد کی بار کو بڑھانے کے لیے کچھ خاص نہیں کیا گیا ہے۔
یہاں تک کہ اگر رپورٹ کی تجاویز
پر عمل کیا جاتا ہے اور شواہد کا بار بڑھا دیا جاتا ہے، اس سے ہجومی تشدد کی لعنت پر
لگام نہیں لگے گا۔ عام پاکستانی اس بات پر قائل نظر آتے ہیں کہ اگر ملزم کو قانونی
چارہ جوئی سے گزارا جاتا ہے تو ممکن ہے کہ اسے رہائی مل جائے۔ اور یقینا معاملہ بھی
یہی رہا ہے؛ توہین رسالت کے متعدد ملزمان کو عدالتوں نے عدم ثبوت کی بنا پر چھوڑ دیا
ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے عام لوگوں کے لیے قانونی عمل کی کوئی اہمیت ہی نہیں
ہے۔ ان لوگوں کے لیے توہین مذہب کا الزام ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ ملزم پر جھپٹ پڑیں
اور اس کی عزت، انسانی حقوق اور حتیٰ کہ اس کی جان بھی چھین لیں۔ آسیہ بی بی خوش قسمت
تھیں کہ ان کا مقدمہ عدالت میں چلا جسے بین الاقوامی توجہ حاصل ہوئی۔ آخر میں وہ آزاد
کر دی گئیں۔ سری لنکا کا ہندو پریانتھا اتنا خوش قسمت نہیں تھا۔ اس کے اپنے کارکنوں
نے اسے قتل کر دیا اور اس کی لاش کو آگ کے شعلوں کے حوالے کر دیا۔
یہ معاملہ بھی مختلف نہیں تھا۔
تیس سال کے محمد وارث پر قرآن کی بے حرمتی کا الزام تھا۔ اسے پولیس کی تحویل میں لے
لیا گیا لیکن ایک قاتل ہجوم نے اسے وہاں سے اغوا کر لیا، قتل کر دیا اور اس کی لاش
کو آگ لگا دی۔ اگر کوئی اس مسئلے کو قانون کی بالادستی کو نافذ کرنے میں پاکستانی پولیس
کی ناکامی سمجھتا ہے تو محض ایک جھوٹا مفروضہ ہے۔ یہ ریاستی اداروں پر اکثریت پسندی
کے مسلط ہونے کا ایک شفاف معاملہ ہے، جیسا کہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں ہوتا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ پولیس اہلکار بھی کہ جنہیں مظلوم کی حفاظت کرنی تھی،
خود اسلامی نظام کا حصہ ہیں۔ لہٰذا ان کے عمل یا جمود کو پاکستان میں بڑھتی ہوئی اسلامی
جنونیت کے تناظر میں ہیں دیکھا جانا چاہیے۔
یہ ویڈیو انتہائی دلخراش ہے۔ مذہبی
لنچنگ کے اس عمل میں مقامی آبادی کی شرکت سب سے زیادہ پریشان کن ہے۔ گویا ہر شخص اس
نیکی میں حصہ لینا چاہتا ہے، وہاں موجود ہر شخص کو یقین ہے کہ ملزم کو قتل کرنا اللہ
تعالیٰ کے نزدیک نیکی کا کام ہے۔ یہ ایک ایسی نسل ہے جسے ایسی اسلامی تعلیم دی گئی
ہے جس سے وہ سوچنے سمجھنے سے عاری مشین محض بن کر رہ گئے ہیں۔ اوہ بالکل حیوان بن چکے
ہیں۔ گویا وہ اپنی تمام عقلی صلاحیتوں سے خالی ہو چکے ہیں اور وہ کسی ایسے شخص کے حکم
کی تعمیل کر رہے ہیں جو ان کے سروں میں سرگوشی کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ بچوں کو بھی اس
مذہبی جنون میں حصہ لیتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ سوچ کر ہی انسان کانپ جاتا ہے کہ
وہ کس قسم کے انسان بنیں گے اور پاکستان کو آخر کس قسم کے ملنے والے ہیں۔
معذرت کے ساتھ، لیکن مہذب دنیا
میں، اب ایسا نہیں ہوتا ہے۔ کئی معنوں میں، قرون وسطی کا یورپ اتنا ہی سفاک تھا، لیکن
اجتماعی طور پر، آج وہ ان چیزوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جو چیز یورپیوں کو
ہم سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ مذہبی بندشوں سے آگے نکل چکے ہیں۔ مذہب اب ان کے
لیے قبر کے انتظام کا سامان نہیں رہا۔ اپنی روزمرہ کی زندگی میں انہوں نے مذہب کو بڑی
حد تک پس پشت ڈال دیا ہے۔ اگرچہ ایک اوسط مسلمان کے لیے یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔ ہماری
فکر ابھی اتنی بالغ نہی ہوئی ہے کہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ انسان اب بھی کسی مذہب کی مدد
کے بغیر بالکل عام زندگی گزار سکتا ہے۔
اس کے علاوہ، بطور ایک قوم کے،
ہم فکری طور پر بے ایمان ہیں کیونکہ ہم ابھی تک اسلام کو اپنی زندگیوں پر اس قدر اہمیت
دینے کے اثرات سے نظریں چرا رہے ہیں۔ اس طرح کے ہر وحشیانہ واقعے کے بعد ہم اس دعوے
کو کس نظریہ سے دیکھیں کہ یہ اسلام نہیں ہے۔ اس طرح کے رویے میں ملوث لوگ اس مذہب کا
صحیح مفہوم نہیں سمجھتے۔ ہمیں ہمیشہ یہی بتایا جاتا ہے کہ اسلام امن اور رواداری کانام
ہے۔ یہ سراسر بکواس اور خالص منافقت ہے۔ مذاہب امن کی بات کرتے ہیں لیکن وہ تشدد کی
بھی بات کرتے ہیں۔ اسلام اس سے الگ نہیں ہے۔ محمد وارث کی لاش کو جلانے والے مسلمان
تھے اور وہ یہ کام اس لیے کر رہے تھے کہ ان کا ماننا تھا کہ اسلام کے اصولوں کے مطابق
ایسا کرنا صحیح ہے۔ انہوں نے اس کی لاش کو جلا دیا کیونکہ یہ بھی مسلمانوں کے عقیدے
کا حصہ ہے کہ توہین مذہب پر ہمیشگی کے لیے جہنم کا عذاب ہے۔
مسلم دنیا میں توہین رسالت کے لیے
قتل کی ایک طویل تاریخ رہی ہے اور اس کی شروعات خود پیغمبر اسلام سے ہوتی ہے۔ احادیث
کے مطابق، محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے کچھ لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا جنہوں نے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی تھی۔ اسی طرح، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ایک
مسلمان کو بھی معاف کر دیا تھا جس نے اپنی حاملہ لونڈی کو اس لیے قتل کیا تھا کہ اس
نے نبی کی توہین کی تھی۔ اسلام کئی معنوں میں نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی پیروی کرنے
کا ہے۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان قتلوں کی منظوری دی ہے تو کیا ہم یہ
کہہ سکتے ہیں کہ یہ غیر اسلامی ہے؟ اگر یہ بات ہماری روایت کا حصہ نہ ہوتی تو یہ تنازعہ
کا باعث بن سکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے علمائے کرام نے ان روایات کو قلمبند
کیا ہے اور اب یہ اسلامی شریعت کا حصہ ہیں۔ اور اسی لیے اس بات پر اجماع ہے کہ جو بھی
اسلام کی توہین کرے اسے قتل کر دیا جائے۔
لہذا اسلام بنیادی طور پر توہین
مذہب سے متعلق ہر قتل میں ملوث ہے۔ اچھا ہو گا کہ مسلمان اس بحث سے نہ کترائیں۔ اور
اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کے ہمارے معاشرے میں کچھ تو غلط ہے اور ہم اس
کے حوالے سے کچھ کر سکتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان، ہمیں متفقہ طور پر اعلان کرنا چاہیے کہ
اس طرح کے اعلانات کا اطلاق ہم پر مزید نہیں ہوتا۔
English
Article: Pakistan Lynching: Muslims Should Call Out Their Own
Theology
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism