نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
31 جنوری 2023
پاکستان آج تاریخ کے مشکل
ترین دور سے گزر رہاہے۔ اس بحران کی وجہ بیرونی نہیں داخلی ہے۔ اس بحران کے سیاسی ،
معاشی اور سماجی اسباب ہیں۔ اگرچہ اس بحران کے لئے ملک کی سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں
کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے لیکن اس تباہی کے لئے وہ اکیلے ذمہ دار نہیں ہیں۔حیرت
ہے کہ اس تباہی کے لئے دینی و ملی قیادت کو ذمہ دار نہیں مانا جارہا ہے۔ ملی قیادت
خاموشی سے تماشہ دیکھ رہی ہے۔
پاکستان نے آزادی کے بعد سے
ہی ہنددشمنی کو اپنی خارجہ پالیسی کے طور پر اپنایا۔اسے اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیا
اور اس کے ساتھ چار جنگیں لڑیں۔ اس کی خارجہ پالیسی کا محور کشمیر رہا جبکہ کشمیر کا
آدھا حصہ اس کے قبضے میں رہا اس کے باوجود کشمیر میں اس نے ایک نہ ختم ہونے والی پراکسی
وار لڑی۔1971 ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد اس کی ہند دشمنی ہسٹریا کی شکل اختیار
کرگئی اور وہاں کے ،دانشور صحافیوں اور سیاسی قائدین میں ہندوستان سے بنگلہ دیش کا
بدلہ لینے اور ہندوستان کو توڑنے کی خواہش ایک نفسیاتی بیماری بن گئی۔ اس دشمنی میں
انہوں نے ہر وہ پالیسی اپنائی جس سے ان کو امید تھی کہ ہندوستان کو توڑا اور نقصان
پہنچایا جاسکتا تھا۔اس نے 80 کی دہائی میں پنجاب اور کشمیر میں دہشت گری کو فروغ دیا۔
پنجاب کی دہشت گری تو اندراگاندھی
کے قتل کے بعد غیر مقبول ہوگئی لیکن کشمیر کی دہشت گردی کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ اور
پاکستان نے اپنی تمام توانائی کشمیر میں خونریزی اور دہشت گردی کو جاری رکھنے میں جھونک
دی۔اس کے لئے اس نے بالواسطہ جنگ کی حکمت عملی اپنائی اور لشکر طیبہ جیسی دہشت گرد
تنظیموں کو فنڈ اور ٹریننگ مہیا کی۔اس نے کشمیر میں دہشت گرد تنظیموں کو فنڈ اور ٹرینگ
دی اور وہاں اپنے سیاسی ایجنٹ مقرر کئے۔ا س نے ہندوستان کو گھیرنے کے لئےبنگلہ دیش
کو بھی استعمال کیا ۔
2008 میں پاکستان کے فوجی ہ آمر پرویز مشرف کی مدد سے لشکر طیبہ نے
ممبئی میں دہشت گردانہ حملے کئے۔ پرویز مشرف ہند دشمنی میں اتنے اندھے ہوگئے کہ وہ
دہشت گرد تنظیم الفا کے لیڈر سے ملنے کے لئے ڈھاکہ کی جیل تک چلے گئے۔ تاریخ میں غالباً
یہ پہلا واقعہ تھا جب کسی ملک کا صدر کسی دہشت گرد سے جیل میں ملنے گیا ہو۔
لیکن ان سب کے باوجود پاکستان
ہندوستان کو نہ توڑ سکا اور نہ اس کے سیاسی نظام میں عدم استحکام۔پیدا کرسکا۔ہاں اس
کوشش میں وہ خود عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔
پاکستان نے ہندوستان کو نقصان
پہنچانے کے لئے افغانستان میں طالبان کو مدد پہنچائی۔ کرزئی اور اشرف غنی حکومت کے
دوران افغان حکومت سےبھارت کے مضبوط معاشی اور سفارتی تعلقات تھے۔ پاکستان نے طالبان
کو ہندوستان کے خلاف استعمال کیا۔دہشت گردی کو پاکستان نے ایک فوجی حکمت عملی اور خارجہ
پالیسی کے تحت استعمال کیا۔ پاکستان میں طالبان کو شہباز شریف اور نواز,شریف نے الیکشن
میں الیکشن جیتنے کے لئے استعمال کیا اور اس کی مدد,سے اقتدار میں آئے۔پنجاب میں اس
وقت کے وزریر,اعلی شہباز شریف نے طالبان کو دہشت گردانہ سرگرمیوں کی چھوٹ دے رکھی تھی۔
لیکن جب 2014 میں طالبان نے ملٹری اسکول پر دہشت گردانہ حملہ کیا تو دنیا کو دکھانے
کے لئے پاکستان حکومت نے اس پر کریک ڈاؤن کیا اور یہ پروپیگنڈہ پھیلایا کہ حکومت نے
طالبان کی کمر توڑدی ہے۔ جبکہ ایک حکمت عملی کے تحت طالبان نے کچھ عرصہ کے لئے اپنی
سرگرمیاں معطل رکھی تھیں۔
پاکستان نے دہشت گردی کو امریکہ
سے اربوں روپئے کی امداد کے لئے بھی فروغ دیا۔ اسے معلوم تھا کہ ملک میں دہشت گردی
جاری رہے گی تو امریکہ سے دہشت گردی سے لڑنے کے نام پر اربوں ڈالڑ کے فنڈ ملتے رہیں
گے۔ امریکہ سے ملنے والا فنڈ دہشت گردی سے لڑنے میں کم اور لیڈروں کی عیاشیوں اور ہندوستان
کے خلاف دہشت گردی کے فروغ میں زیادہ ہوتا تھا۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار
میں آنے کے بعد طالبان کو پاکستان کی ضرورت نہیں رہی اور اب طالبان نے پاکستان پر بھی
اقتدار جمانے کا خواب دیکھنا شروع کردیا۔ اس کے لئے اس نے تحریک طالبان پاکستان کا,استعمال
کرنا شروع کر دیا۔ افغان طالبان کی مدد سے ٹی ٹی پی نے خیبر پختونخواہ میں دہشت گردانہ
حملوں میں شدت پیدا کر دی۔ چونکہ خیبر پختونخوا میں عمران خان کی پارٹی کی حکومت ہے
اس لئے عمران خان کی پشت پناہی کے امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پاکستانی
سیاستداں سیاسی دشمنی میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔یہ بات ماضی کے واقعات سے ثابت
ہوچکی ہے۔
پاکستان نے سیاسی اور معاشی
فائدے کے لئے چین سے دوستی کی اور اس کی دوستی میں اسنے ایغور مسلمانوں پر چین کے مظالم
سے نہ صرف پردہ پوشی کی بلکہ چین کی حکومت کی پیٹھ بھی تھپتھپائی۔لیکن چین کی دوستی
سے پاکستان کی معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہوا الٹا چین نے اسے قرض کے جال میں جکڑ لیا۔
بلوچستان کے قبائلیوں سے چین نے ان کا روزگار چھین لیا۔ ماہی گیری جو بلوچیوں کا خاص
ذریعہ معاش ہے اس پر چین نے قبضہ کر لیا جس کے خلاف کچھ عرصے سے بلوچستان کے ماہیگیر
اور عوام احتجاج پر بیٹھے ہیں۔ ان پر پاکستانی فوج حملےکررہی ہے۔17 جنوری کو سندھ میں
سندھیوں کے جلسے پر پاکستانی فوج نے گولی چلادی جس سے کئی لوگ ہلاک ہوگئے۔
سندھ کے لوگوں کا الزام ہے
کہ پاکستان حکومت نے صرف لاہور کراچی اور اسلام آباد کی ترقی پر توجہ دی ہے۔سندھ کو
انہوں نے نظرانداز کیا ہے۔ یہاں بجلی پانی اور طبی سہولیات نہیں کے برابر ہیں۔ یہی
حال بلوچستان گلگت بلتستان اور مقبوضہ کشمیر کا ہے۔
حکمرانوں نے قرضے لے لیکر
ملک کو گردن تک قرض میں ڈبودیا اور ان قرضوں کی رقم سے اپنے بینک بیلینس بڑھائے۔دہشت
گردی کی وجہ سے یہاں بیرونی سرمایہ کاری نہ کےبرابر ہے جس کی وجہ سے اقتصادی ترقی نہیں
ہوئی۔ملک میں ڈالر کی کمی سے ضروری اشیاء کی درآمد رک گئی ہے جس سے ملک میں ضروری اشیاء
کی قلت ہو گئی ہے۔پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ متحدہ عرب
امارات اور سعودی عرب جاکر بھیک مانگ رہے ہیں۔ لیکن قرضے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اب مزید
قرضے ملنے کی بھی امید نہیں ہے اور جتنا ملا ہے وہ ملک کی معیشت کو راہ پر لانے کے
لئے ناکافی ہے۔
آج حالت یہ ہے کہ پاکستان
کے مسلمان خصوصاً مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگ ہندوستان کی طرف امید سے دیکھ
رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے عوام ہندوستان سے الحاق چاہتے ہیں ۔پاکستان نے گزشتہ 75 برسوں
سے ہند دشمنی کا جو طلسم بن رکھا تھا وہ عوام کی نظروں سے تحلیل ہو چکا ہے اور اب وہ
خود کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان ہمارا دشمن نہیں ہے۔ اس وقت ہم۔پر افغانستان اور ایران
حملے کررہے ہیں جنہیں ہم اپنا دوست سمجھتے تھے اور ہندوستان کی طرف سے ہمارے خلاف کوئی
کارروائی نہیں ہورہی ہے جبکہ ہمیں یہ بتایا جاتا تھا کہ ہندوستان ہمارا بدترین دشمن
ہے۔
----------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism