ارشد عالم، نیو ایج اسلام
31 مارچ 2022
جب تک توہین رسالت کا یہ قانون
نافذ العمل ہے اس طرح کے بہیمانہ قتل کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اہم نکات:
1. پاکستان میں مدرسہ کی
ایک معلمہ کو اس کے ساتھیوں نے توہین مذہب کے الزام میں قتل کر دیا
2. ملزمان کو کسی دوسرے
شخص کے خواب میں بتایا گیا تھا کہ مقتولہ کو رسمی طور پر ذبح کر دیا جائے
3. مقتولہ اور ملزم کے درمیان
نظریاتی اختلافات تھے، حالانکہ اب تک اس اختلاف کی صحیح نوعیت کا پتہ نہیں چل سکا ہے
4. صرف پاکستان ہی نہیں
بلکہ اب پوری مسلم دنیا کو توہین رسالت کے شرعی قانون کو ختم کرنے کا عزم کر لینا چاہیے
-----
(Representational
Photo)
----
پاکستان میں ایک مدرسے کی
17 سالہ معلمہ کو اس کے تین ساتھیوں نے توہین مذہب کے الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔
یہ واقعہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پیش آیا ہے جو اپنی رجعت پسندانہ مذہبی اقدار و
روایات کے لیے مشہور ہے۔ تینوں ملزمان نے پولیس کو بتایا ہے کہ ان کے ایک نابالغ رشتہ
دار نے خواب میں دیکھا کہ مقتولہ لڑکی نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے اور اسی خواب
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگلے ہی دن ان تینوں
اساتذہ نے متاثرہ لڑکی کا گلا کاٹ کر اسے مرنے کے لیے تڑپتا ہوا چھوڑ دیا۔ ملزمان اور
متاثرہ سبھی جامعہ اسلامیہ فلاح البنات نامی ایک مقامی مدرسے میں تعلیم دیتے تھے۔
امارت
اسلامی پاکستان میں توہین رسالت کے نام پر قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اور نہ ہی
یہ دردناک واقعہ آخری ہوگا۔ لیکن اس واقعے میں انوکھی بات مذہب کے نام پر قتل کے انسانیت
سوز عمل کو جواز فراہم کرنے کے لیے کسی کے خواب کا سہارا لینا ہے۔ خوابوں کو سیاسی
جواز تلاش یا ذات پات کا فائدہ اٹھانے جیسے دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے
مگر قتل کے لیے اس کا استعمال شاید پہلا واقعہ ہے۔ لیکن جو بات پریشان کن ہے وہ یہ
ہے کہ جس لڑکی کو قتل کیا گیا وہ نابالغ تھی لہٰذا اگر اس کے خلاف توہین مذہب کا کوئی
ثبوت ہوتا تب بھی اس کےساتھ یہ ستم نہیں کیا جاناچاہیے تھا۔ پریشان کن بات یہ بھی ہے
کہ سبھی ملزمان کم عمر ہیں، جن میں سے ایک نابالغ بھی ہے، اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے
کہ مذہبی انتہا پسندی نے مسلمانوں کے ذہنوں کو کس حد تک زہرآلود کر دیا ہے۔
جب جب ایسا کوئی ہولناک واقعہ
پیش آتا ہے، اسلام پسند معذرت خواہ توہین رسالت
کے قوانین کے دفاع میں یہ دلیل دینے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اس طرح کے قتل
کے پیچھے اکثر ذاتی دشمنی ہوتی ہے لہٰذا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہر کیف
یہ ایک مذہب کے نام پر قتل ہے۔ ملزمان کو کسی دوسرے شخص کے خواب میں بتایا گیا کہ مقتولہ
کو رسمی طور پر ذبح کرنا ہے۔ اور انہوں نے یقیناً ایسا ہی کیا، کیوں کہ وہ اسے نبی
ﷺ کا حکم سمجھتے تھے۔ ذبح کرنا شاید پوری دنیا میں اسلامی دہشت گردوں کا سب سے پسندیدہ
طریقہ ہے۔ چاہے مغربی ایشیا ہو چاہے یورپ داعش نے ہر جگہ اپنے شکار کو ذبح کر کے اسے
اسلامی سزا کے طور پر عام کیا ہے۔ اس معاملے میں بھی ملزم نے ہی پولیس کو اپنی اس بہیمانہ
حرکت کے بارے میں اطلاع دی۔ یعنی وہ ایسا کر کے عوامی طور پر یہ اعلان کر رہے تھے کہ
ہم نے گستاخ کو ایک مذہبی ذمہ داری سمجھ کر قتل کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک اعلیٰ تقویٰ
کا عمل تھا کیونکہ یہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں انجام دیا گیا
تھا۔ اسلام کے اندر موجودہ خامیوں سے انکار کرنے والوں کو اب جاگنا ہو گا کیونکہ گمراہوں
کو قتل کرنے کے اس جنونی کھیل کا شکار اب خواتین بھی ہونے لگی ہیں۔
رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ
مقتولہ پاکستان کے ایک مشہور اسلامی مبلغ مولانا طارق جمیل کی پیروکار تھی۔ مذہبی مسائل
پر اختلاف رائے کی وجہ سے توہین مذہب کا الزام لگا جو بالآخر اس قتل کا باعث بنا۔ یہ
ممکن ہے کہ لوگوں کے درمیان نظریاتی اختلافات پیدا ہوں لیکن یہ کہ اس طرح کے اختلافات
قتل کا باعث بن جائیں ، شاید ہی حیرت کی بات ہو۔ کیا ہمارے علماء اسلام کے قیام سے
لے کر اب تک توہین رسالت اور کفر کے الزامات میں ایک دوسرے کے ساتھ دست بہ گریباں نہیں
رہے ہیں؟ ابھی حال ہی میں جنوبی ایشیا کے اندر شیعہ سنی اختلافات کی وجہ سے مساجد میں
بم دھماکے ہوئے ہیں۔ احمدیوں کو اکثریتی مسلم طبقے نے اپنے خود کو مسلمان نہ کہنے پر
مجبور کر رکھا ہے۔ سنیوں کے اندر بریلویوں، دیوبندیوں اور اہلحدیث کے درمیان دشمنی
نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے تک محدود رہی ہے بلکہ انہوں نے ایک دوسرے کے
جسموں کا مثلہ بھی کیا ہے اور ایک دوسرے کے
مقامات مقدسہ کو بھی تباہ وبرباد کیا ہے۔ جب یہی لڑکیاں مذہبی اختلافات پر ایسے ہی
پرتشدد رویے کا مظاہرہ کرتی ہیں تو یہ ہم کیوں چونک جاتے ہیں؟ آخرکار، ارتداد کی پہلی
جنگ کی قیادت خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمائی تھی جسے ایک ایسا
قدم مانا جاتا ہے جس نے اسلام کو ٹوٹ کر بکھرنے سے بچا لیا۔ اگر اسلام کی بنیاد نظریاتی
تشدد پر مبنی ہے تو عصر حاضر کے مسلمانوں کو کیوں موردِ الزام ٹھہرایا جائے، کیونکہ
یہ تو صرف اپنےاسلاف کی تقلید کر رہے ہیں؟
اس میں شک نہیں کہ پاکستان
میں مدرسہ تعلیم کی اعلیٰ تنظیم وفاق المدارس سمیت تمام حلقوں سے اس قتل کی مذمت سامنے
آئی ہے۔ لیکن مذمت کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی مذہبی قیادت
کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور غور و فکر کرنا ہوگا کہ توہین رسالت کے نام پر اسلام کے
ساتھ کیا کیا کارستانیاں کی جا رہی ہیں۔ اور اس کے لیے صرف مذہبی علماء ہی ذمہ دار
نہیں ہیں بلکہ دردناک صورت حال کے لیے حکومت پاکستان بھی ذمہ دار ہے۔ توہین مذہب پر
اتنی ہلاکتوں کے باوجود، جن میں کچھ سیاسی برادری کے لوگ بھی شامل ہیں، نہ تو فوج اور
نہ ہی سیاسی قیادت نے اس کے خلاف لب کشائی کرنے کی ہمت کی ہے۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں
کہ اس آگ کی لپٹیں ان تک نہیں پہنچیں گی تو افسوس ہے کہ وہ ایک بہت بڑی غلط فہمی پالے
بیٹھے ہیں۔ اس آگ نے غریبوں امیروں اور سیاسی ہستیوں سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے،
اس سے سماج کا کوئی طبقہ بھی محفوظ نہیں۔ جب تک قانون کی کتابوں میں توہین رسالت پر
سزا باقی رہے گی، اس مذہبی مسئلے کا کوئی قابل
عمل حل نہیں نکالا جا سکے گا۔ حکومت پاکستان نے انسداد دہشت گردی کا ایک موثر آپریشن
شروع کرنے کی کوشش کی جس کے لیے اس کی مدح و ستائش بھی ہوئی۔ لیکن بڑھتی ہوئے داخلی
انتہا پسندی نےپاکستان کی اس حصولیابی کو محو کر دیا ہے، جس کا شکار پاکستانی آبادی
کا ہر طبقہ ہو رہا ہے ۔
وسیع پیمانے پر یہ صرف پاکستان
کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا کا مسئلہ ہے۔ ایک ایسے دور میں کہ جب دوسرے مذاہب
نے جمہوریت، تکثیریت اور اختلاف رائے کے جدید تصورات کو اپنا لیا ہے، اسلام کو اب تک
بدستور توہین کرنے والوں اور مرتدوں کو قتل کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ اگر آج اقوام
عالم میں یہ باتیں اٹھ رہی ہیں کہ اسلام کی اصلاح نہیں ہو سکتی تو یہ ایسے اسلامی نظریات
کی بدولت ہے جن میں مذہب کی حفاظت کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کی اجازت
ہے۔ مسلمان دوسروں پر اسلامو فوبیا کا الزام لگاتے ہیں، لیکن وہ اپنے اعمال کے ذریعے
ایسی فکر کو مسترد کرنے کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ آخرکار یہ خود مسلمانوں کی ذمہ داری
ہے کہ وہ بڑی تعداد میں باہر نکلیں اور بلند آواز میں کہیں کہ توہین رسالت اور اس سے
متعلق تمام شرعی احکام کو منسوخ کیا جائے۔
English
Article: Pakistan: Female Madrasa Teacher Killed for
Blasphemy; Muslims must discard the theology behind anti-Blasphemy laws in
several countries
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism