سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
17 جولائی 2021
پاکستان میں
یوٹیوب اور ٹی وی چینلز پر اجنہ کے پروگرام بکثرت دستیاب ہیں
اہم نکات:
1. ڈراؤنے شو کے پروڈیوسر آسیبی گھروں میں جاتے ہیں اور اجنہ کو حاضر
ہونے کا حکم دیتے ہیں
2. ناظرین کے اندر سسپنس اور جستجو پیدا کرنے کے لیے جعلی مناظر تخلیق
کیے جاتے ہیں۔
---------
اجنہ --- انسانی صفات کی حامل اس
پوشیدہ مخلوق کو کسی بھی اسلامی معاشرے میں ایک خاص مقام حاصل ہوتا ہے۔ ان کا تذکرہ
قرآن و حدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روایات میں موجود ہے۔ ان کا تذکرہ مسلمانوں
میں خوف اور لرزا پیدا کر دیتا ہے۔ اس لیے جنات اور انسانوں کے درمیان تصادم کی کہانیاں
مسلمانوں میں بہت مشہور ہیں۔ جنوں پر کتابیں ہمیشہ مسلمانوں میں مقبول رہی ہیں۔
چونکہ پاکستان ایک اسلامی
ملک ہے، اس لیے اجنہ کو بھی میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی کافی اہمیت اور شہرت حاصل ہو چکی
ہے۔ اس دور میں کہ جب یوٹیوب لائکس اور ویوز اور ٹی وی ریٹنگ کا تعلق براہ راست مالی
فوائد سے ہے، پاکستان میں یوٹیوبرز اور ٹی وی چینلز اجنہ کا استحصال کرتے ہیں ہے تاکہ
زیادہ سے زیادہ ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کر کے مالی فوائد حاصل کیا جا سکے۔ ٹی وی
چینلز اجنہ پر مبنی ڈراؤنے پروگرام پیش کرتے ہیں اور یوٹیوبرز جنوں یا بھوتوں سے آسیب
زدہ گھروں پر طرح طرح کے پروگرام بناتے ہیں۔
اجنہ پر کچھ پروگرام یہ ہیں
جو مختلف چینلز پر نشر کئے جاتے ہیں، ایکسپریس نیوز ٹی وی چینل پر "وہ کیا ہے"
اور "راز کی بات" اور ایم کے ٹی وی پوسٹ کا پروگرام۔ ان ڈراؤنے شوز کے پروڈیوسر
آسیب زدہ گھروں میں جاتے ہیں اور غیر معمولی سرگرمیاں ریکارڈ کرتے ہیں جس سے دیکھنے
والوں میں سنسنی پیدا ہوتی ہے۔ یہ پروگرام ناظرین میں بہت مقبول ہیں اور لاکھوں لوگ
اسے دیکھتے ہیں۔ ان پروگراموں کی کامیابی نے دوسروں کو بھی اجنہ پر اسی طرح کے پروگرام
بنانے کی ترغیب دی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ پروڈیوسر
ایسے بھی ہیں جو نہ صرف آسیب زدہ گھروں میں جا کر غیر معمولی سرگرمیوں کو ریکارڈ کرتے
ہیں بلکہ اپنے "عاملوں" کی مدد سے اجنہ کو "بھگانے" کا بھی دعویٰ
کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر Mux9TV کے پروڈیوسر جام شوکت کی ٹیم میں ایک عامل ہے۔ عاشق
حسین نامی یہ عامل ہر آسیب زدہ گھر میں جام شوکت کے ساتھ ہوتا ہے اور اپنے علمیات
(بری قوتوں سے بچاؤ کے علم) سے اس جگہ کو پاک کرتا ہے۔ اپنے اس عمل میں ماورائے طبعیات
حرکتوں کو ریکارڈ کرتے ہیں اور یا یہاں تک کہ بعض اوقات ان نادیدہ قوتوں سے خوف زدہ
بھی ہوتے ہیں اور انہیں جسمانی طور پر نقصان بھی پہنچتا ہے۔ ان مناظر سے دیکھنے والوں
میں سنسنی پیدا ہوتا ہے۔
ایم کے ٹی وی پوسٹ ایک ایسا
ہی ایک پروگرام ہے جس کی ٹیم میں ایک عامل ہے۔ عامل اپنے علم کی مدد سے اس جگہ یا گھر
کو پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ ٹیم کے دیگر ممبران پر اجنہ حملہ کرتے ہیں اور بعض
اوقات ان پر اجنہ حاوی بھی ہو جاتے ہیں اور جن اور عامیل کے درمیان جھگڑا بھی ہوتا
ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پروڈیوسر ناظرین
میں سسپنس اور سنسنی پیدا کرنے کے لیے جعلی مناظر تخلیق کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر،
جب عامل قرآن کی آیات تلاوت کر رہا ہوتا ہے اور اجنہ کو کسی بھی شکل میں ظاہر ہونے
کے لیے کہتا ہے، تو دوسرے کمرے میں آگ کے شعلے نظر آتے ہیں۔ دیکھنے والوں کو یہ یقین
دلایا جاتا ہے کہ جنات شعلے کی شکل میں اپنا غصہ دکھا رہے ہیں۔ بعض اوقات کیمرے کے
پیچھے سے ٹیم کے ارکان پتھر پھینکتے ہیں تاکہ دیکھنے والوں کو یقین ہو جائے کہ جنات
پتھر پھینک رہے ہیں۔
ایکسپریس نیوز پر وہ کیا ہے
کے ایک ایپیسوڈ میں، ایک خاتون جنی ایک عمارت کی چھت پر چلتی ہوئی نظر آتی ہے اور ٹیم
ممبران کے قریب آکر ان سے کہتی ہے "آؤ قریب آؤ، تمھیں ڈر لگتا ہے؟) خوفزدہ ہو
کر ٹیم کے ارکان نے اس پر سمندر کا پانی چھڑک دیتے ہیں اور جنی ان کی طرف کلہاڑی پھینک
کر فرار ہو جاتی ہے۔ کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک ڈرامہ تھا جسے پروڈیوسر نے رچا
تھا۔
دوسری جانب پاکستانی ٹی وی
چینلز اور یوٹیوب پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے پروگرام بہت کم ہیں اور یہ پروگرام
بہت کم ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایکسپریس نیوز کے پروگرام
"سائینس اینڈ ٹیک" کے ایک ایپیسوڈ کو چار ماہ میں صرف 250 ویو ہی ملے۔ اس
ایپیسوڈ میں اینکر نے بتایا کہ 60 کی دہائی میں پاکستان کے مختلف شہروں میں کوانٹم
فزکس پر ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد معمول کے مطابق ہوتا رہتا تھا لیکن رفتہ رفتہ
پاکستان میں سائنس میں دلچسپی کم ہوتی گئی۔ یوٹیوب پر سائنس کے ایک اور پروگرام کو
ایک سال میں 1.4 ہزار ناظرین ہی ملے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں اجنہ اور انسانوں
کے جعلی تصادم کے پروگرام سائنسی پروگراموں سے زیادہ مقبول ہیں۔
پاکستان میں مذہب ہمیشہ مسلمانوں
کی نفسیات پر حاوی رہا ہے اور اس عام غلط فہمی کی وجہ سے کہ سائنس مذہب کے خلاف ہے،
پاکستان کے مسلمانوں نے سائنس کو زیادہ اہمیت نہیں دی ہے۔ 1979 میں ڈاکٹر محمد عبدالسلام
نے 60 کی دہائی کے دوران پاکستان میں سائنس کلچر کی وجہ سے اپنے الیکٹرویک یونیفیکیشن
تھیوری کے لیے سائنس میں نوبل انعام جیتا تھا۔ لیکن جنرل ضیاءالحق کے دور میں مذہب
نے سائنس کو پیچھے کر دیا اور مذہبی انتہا پسندی مرکزی حیثیت حاصل کر گئی۔ بعد کے ادوار
میں پاکستان کی مختلف شدت پسند تنظیمیں مثلا طالبان پاکستان، لشکر طیبہ، لشکر جھنگوی،
سپاہ صحابہ وغیرہ ابھریں جنہوں نے جدید تعلیم کی حوصلہ شکنی کی اور یہاں تک کہ تعلیمی
اداروں پر حملے کرکے انہیں تباہ و برباد بھی کیا۔
میڈیا پاکستان میں سائنسی
مزاج کو فروغ دینے میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے اس نے مسلم معاشرے
میں توہم پرستی اور غیر سائنسی رجحانات کو فروغ دیا ہے۔ آسیب زدہ گھروں میں جانے کے
بجائے، جام شوکت اور سجاد سلیم جیسے لوگ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں جا کر نوجوان
سائنسدانوں کو دریافت کر سکتے تھے اور پاکستانیوں میں سائنس کو فروغ دے سکتے تھے۔
جن خدا کی مخلوق ہیں اور انسانوں
کے ساتھ اسی دنیا میں رہتے ہیں۔ ان کے اپنے خاندان، اپنے اسکول اور بازار ہیں۔ ان کا
اپنا معاشرہ ہے۔ چونکہ وہ انسانوں کے ساتھ رہتے ہیں لہٰذا مفادات کا تصادم اور ٹکراؤ
ان کے درمیان ایک فطری بات ہے۔ لیکن یہ تصادم اور ٹکراؤ شاذ و نادر ہی ہے کیونکہ دونوں
ہی تصادم سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب ایسا ہوتا ہے تو کہانیاں بنتی ہیں۔ عام طور
پر نادیدہ مخلوق انسانوں کو پریشان نہیں کرنا چاہتی لیکن جب جام شوکت اور سجاد سلیم
جیسے لوگ اجنہ کے آباد گھروں میں جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "کیا آپ نے آ سکتے
ہیں؟" وہ کچھ ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ
وہ اپنی جگہ چھوڑ دیں۔ ان یوٹیوبرز اور ٹی وی چینل کے پروڈیوسرز کا ان کی رازداری میں
دخل اندازی کرنا اور ان کے امن میں خلل ڈالنا انتہائی غیر سائنسی طریقہ ہے۔
English Article: In Pakistan, Djinns are more popular than science and
scientists
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism