بلال احمد پرے، نیو ایج اسلام
15 نومبر 2021
نومبر ۸ پیر کے روز صدرِ ہند شری
رام ناتھ کوند نے سنہ ۲۰۲۰ء
کے لئے ۱۱۹
شہریوں کو مختلف زمروں کے اندر ملک کے دوسرے عظیم ترین سیول انعام سے نوازا ہے -
پدما (سنسکرت میں کنول) جیسا عظیم ترین انعام ۱۹۵۴ سے قائم ہے اور یہ انعام
ملک کے ان شہریوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبہ ہائے میں نمایاں
کردار انجام دیا ہو جن میں فن، تعلیم، صنعت، ادب، سائنس، کھیل، ادویات، سماجی
خدمات اور عوامی معاملات شامل ہیں - یہ انعام اُن غیر ملکی شہریوں کو بھی دیا جاتا
ہے جنہوں نے ملک ہند کے لئے مختلف طریقے سے مراسلہ (contribution) کیا ہو -
اس سال کے فہرست میں سات
لوگوں کو پدما وبھوشن، دس کو پدما بھوشن جب کہ ایک سو دو کو پدما شری انعام سے
نوازا گیا ہے - کل ملا کر انعام یافتہ گان میں ۲۹ عورتیں، ۱ خواجہ سرا اور ۲۹ ما بعد موت شہریوں کے
نام شامل تھے - انعام و اعزاز یافتہ شہریوں میں ایک عام نام بھی شامل تھا جس نے نہ
کبھی کسی ادارے سے اپنی رسمی تعلیم پائی تھی - اور نہ ہی فن، کھیل، ادب، تعلیم،
ادویات یا صنعت جیسے شعبوں میں کوئی غیر معمولی نمایاں کردار انجام دیا ہے - بلکہ
یہ نام ہندوستان کے عام شہریوں میں سے ایک ایسے غریب شہری کا ہے جو منگلورو کے
بازار میں سنترے بیچتا آیا ہے - کرناٹک کے شہر منگلورو کے دیہی علاقے کا یہ ۶۸ سال کا میوہ فروشی بزرگ
شہری کا نام ہریکالا حجابا (Harekala Hajabba) ہے -
تعلیم سے محروم حجابا ۱۷ اکتوبر ۱۹۵۲ء کو منگلورو کے گاؤں
نیوپاڑپو (Newpadpu) کے ایک غریب مسلم گھرانے میں پیدا ہوا ہے - معاشی طور پسماندہ
ہونے کے سبب آپ کو تعلیم سے محروم رہنا پڑا - اس طرح گھر کے اخراجات پورا کرنے کے
لئے آپ کو کم عمری میں ہی مزدوری کرنی پڑی - آپ منگلورو بس ڈپورٹ پر سنہ ۱۹۷۷ ء سے سنترہ فروشی کا کام
کر رہا ہے - آپ کے دل میں تعلیمی انقلاب پیدا کرنے کی خواہش اُس وقت پیدا ہوئی جب
سنہ ۱۹۷۸ء
میں ایک غیر ملکی سیاح نے اس سے انگریزی زبان میں سنتروں کی قیمت پوچھی - حجابا
صرف اپنی علاقائی زبان پر دسترس رکھتا تھا اور وہ اس انگریز سیاح خریدار سے نہ صرف
سنترے بیچ سکا بلکہ گفتگو کرنے سے بھی قاصر رہا ہے - اس واقع سے آپ بےحد غمگین
ہوئے کیونکہ اسکول جیسی بنیادی سہولیات کے میسر نہ ہونے اور گھریلو معاشی حالت
کمزور ہونے کی وجہ سے آپ کو تعلیم سے محروم رہنا پڑا تھا - اُسی روز سے حجابا
سنترے کی کمائی بچانے میں لگا اور ایک خواب سجائے بیٹھا کہ وہ اپنے گاؤں میں ایک
اسکول کی تعمیر ممکن بنا لے گا -
بالآخر آپ نے اپنی محنت
سے سنہ ۲۰۰۰ء
میں نیوپاڑپو میں ایک چھوٹا سا اسکول تعمیر کر دیا - جس سے "حجابا اسکول
" کے نام سے جانا جاتا ہے - اس طرح آپ نے سنترے بیچتے بیچتے منگلورو کے دیہی
علاقے میں تعلیمی انقلاب پیدا کر دیا ہے - یہ اسکول پہاڑی علاقے میں 1.33 ایکڑ
اراضی پر واقع ہے جہاں بچے تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آج بھی دور دراز سے پیدل چل
کر آتے ہیں - اور یہ اسکول کئیں پسماندہ طلباء کے مستقبل کا ضامن بن چکا ہے - آج
یہی اسکول سرکار کی امداد اور دیگر لوگوں کے پرائیویٹ عطیہ جات سے ترقی کے منازل
طے کرتا گیا ہے - سرکاری ذرائع کے مطابق اس وقت وہاں ۱۷۵ طلباء زیر تعلیم ہیں -
اسرار الحسن المعروف
مجروح سلطان پوری کا یہ شعر حجابا کے اس سفر کی عکاسی خوب کرتا ہے -
میں اکیلا ہی چلا تھا
جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور
کارواں بنتا گیا
حجابا کو لوگ محبت سے
'اکشرا سینٹا' (Letter Saint) یعنی تعلیمی پیر کے نام سے پکارتے ہیں - وہ اپنی غیر معمولی
خدمات سے مشہور و معروف ہے حتیٰ کہ اس سے اپنی ذاتی زندگی میں کئیں سارے مشکل
حالات سے گزرنا پڑا تھا - اسی غیر معمولی سماجی خدمات کے لئے آپ کو ۲۰۲۰ء کے لئے ملک کا چوتھا
عظیم سیول انعام " پدما شری " سے نوازا گیا ہے - اس عظیم الشان انعام کو
صدر ہند کے ہاتھوں لیتے ہوئے حجابا عزت و اکرام کے طور ننگے پیروں چلا - اور اس سے
حاصل کرنے کے بعد یہی الفاظ دہرائے کہ " یہ میرا انعام نہیں ہے بلکہ یہ اسکول
کے لئے ہے - میں اتنا عظیم انسان نہیں ہوں - یہ اسکول دراصل کئیں رحم دل انسانوں
کے عطیہ اور سرکاری امداد کا نتیجہ ہے -"
آپ کا مقصد صرف یہی نہیں
تھا بلکہ آپ کا دوسرا خواب اپنے علاقے میں کالج بنانے کا ہے - تاکہ آپ کے سماج کے
لوگ بھی بہتر زندگی گزار سکیں - یہی وہ حقیقت ہے جس سے ہم معاشرے کو بدل سکتے ہیں
- آپ کو اس سے پہلے بھی کئیں اعزازات سے نوازا گیا ہے جس میں انعام برائے اصلی
ہیرو (Real Heroes Award) اور " پرسن آف دی ایئر" قابل ذکر ہیں - آپ کی نجی
زندگی کے متعلق کافی کچھ لکھا گیا ہے لیکن قومی سطح پر آپ ک پہچان اس وقت ہوئی جب
آپ کا نام پدما ایوارڈز کے لئے منتخب کیا گیا ہے - یہ اعزاز ملنا آپ کے اس غیر
معمولی تعلیمی انقلاب کی نہ صرف حوصلہ افزائی ہے بلکہ آپ کے اس خلوص کام کی پہچان
بھی بن گیا ہے - جو اپنے آپ میں ایک نمایاں کردار کی عکاسی کرتی ہے -
جس طرف بھی چل پڑے ہم
آبلہ پایانِ شوق
خار سے گل اور گل سے
گلستاں بنتا گیا
الغرض یہ حجابا کی محنت،
لگن، ذاتی دلچسپی، شوق و زوق اور تعلیم کے تئیں وہ جنون تھا جس سے آپ نے میوہ فروشی
کی کمائی سے تعلیمی انقلاب پیدا کیا اور اسطرح آپ عوام الناس کے لئے عموماً اور
اساتذہ کرام کے لئے خصوصاً ایک جوش دلانے والی متاثر کن تحریک (inspiration) بن چکے ہیں - آپ
تعلیم سے محروم ہوتے ہوئے اس کی اہمیت اور افادیت کو سمجھ سکے ہیں لیکن ہم تعلیم
یافتہ ہوتے ہوئے بھی تعلیمی اداروں کو بنانے کے بجائے منہدم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں
- آپ نے واقعی اپنے سماج کے لئے ہمدرد، خیر خواہ اور رفیق ہونے کا ثبوت پیش کیا -
ہمارے یہاں سرکار سے تسلیم شدہ تعلیمی اداروں میں تمام قسم کی سہولیات میسر ہونے
کے باوجود طلباء کی تعداد نہ کے برابر ہیں - جس پر شعبہ تعلیم کو غور و خوض کرنے
کی اشد ضرورت ہے - لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے ان تعلیمی اداروں کی زینت
بڑھانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں اور تعلیم سے محروم سبھی عمر کے شہریوں کے
تعلیم حاصل کرنے کی فکر پیدا کریں –
-----
( جناب بلال احمد پرے نیو ایج اسلام کے ایک مستقل کالم نگار ہیں ۔ آپ کا تعلق ریاست جموں و کشمیر کے جنوبی علاقہ ترال سے ہے ۔ انہوں نے کشمیر یونیورسٹی سے اسلامیات میں ماسٹرس کیا ہے۔ آپ کے مضامین اکثر اسلامی سماجی مسائل پر ریاست کے متعدد روزناموں میں انگریزی و اردو زبان میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔)
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism