کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام
نکاح کو آسان،زندگی کو خوشحال
، جہیز کے مطالبہ سے گریز اور طلاق کو ناپسند کیجیے
اہم نکات :
مذہب اسلام نے زندگی کے ہر
گوشے میں نرمی اور آسانی کا اختیار دیا ہے لیکن اس کے باوجود مسلمان آج دقت و پریشانی
سے کیوں متصادم ہے ؟
طلاق کی وجہ یہ ہو سکتی ہے
کہ بیوی اپنے شوہر کی نافرمان ہے یا ساس کو بہو پسند نہیں یا پھر یہ کہ عورت جہیز کے
سامان سے گھر کو بھر نہیں پائی۔ان تینوں صورتوں میں کیا کریں ؟
کچھ حالات ایسے ہوتے ہیں کہ
جنھیں بھلانا آسان نہیں ہوتا انھیں میں سے ایک وقت وہ ہوتا ہے جب کسی بابا کی شہزادی
تین طلاق کا بوجھ اٹھائے ہوئے اپنے ماں بابا کے پاس مایوس ہوکر آتی ہے۔ یقیناً خون
کے آنسو اس وقت بہتے ہیں جب ایک ماں اپنی ممتا کا گلا گھونٹ کر اپنے لخت جگر کو چھوڑ
کر مجبوراً اپنے مائکے آجاتی ہے۔ روح تو اس وقت کانپ سی جاتی ہے جب ایک گھر ٹوٹ جاتا
ہے اور اس کا ایک ایک دانہ بکھر کر چور چور ہوجاتا ہے۔
کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ
وہ لڑکیاں جو اپنے میکے میں رہتی ہیں انہیں کتنی تکلیف ہوتی ہوگی، انھیں کتنا دکھ ہوتا
ہوگا۔ جب اپنے بھائی بہن کے بچوں کو اپنی گود میں کھلاتی ہوں گی انہیں اپنے بچوں کی
کتنی یاد آتی ہوگی ۔ ان کے گھر کو آباد دیکھ کر اپنے گھر کی کتنی کمی محسوس ہوتی ہوگی
، آہ تکلیف سے ان کا کلیجہ پھٹ جاتا ہوگا؛ واقعی ایسی تکلیف ہوتی ہوگی انھیں جسے کما
حقہ ہم محسوس کر ہی نہیں سکتے ۔
لیکن اتنا تو سوچیے کہ ایسا
کیوں ہے؟ اس کے پیچھے کیا وجہ ہے؟
١______کیا طلاق اس وجہ سے ہوئی ہے کہ وہ
اپنے شوہر کی نافرمان ہے؟
٢______کیا طلاق اس وجہ سے ہوئی ہے کہ ساس
کو بہو پسند نہیں؟
٣______ کیا طلاق اس وجہ سے ہوئی ہے کہ
وہ جہیز کے سامان سے گھر کو بھر نہیں پائی ؟
اللہ اکبر! اگر یہ بات ہے
کہ طلاق شوہر کی نافرمانی کی وجہ سے ہوئی ہے، تو آخر اسلام نے صلح کرکے زندگی کو خوشگوار
بنانے کا طریقہ بھی تو بتایا ہے۔ اسلام نے مردوں کو سنجیدگی کے ساتھ عورت سے بات چیت
کرکے گھر کو آباد کرنے کا خوبصورت طریقہ بھی تو بتایا ہے۔ تو کیوں نہیں ایک مرد اپنے
غصے اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر اپنی اور اپنی بیوی بچوں کی زندگی کو آسان بنا
لیتا ہے
اگر طلاق ساس بہو کے درمیان
نا اتفاقی اور نا پسندیدگی کی وجہ سے ہوئی ہے تو بڑے افسوس کی بات ہے ۔ ساس اور بہو
کو ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق کے لیے سب سے پہلے اپناپن، ممتا، اور پیار کی ضرورت ہے۔
اگر ساس اپنی بہو کو بہو نہیں بلکہ بیٹی سمجھے، اسے اپنے گھر کی خوشحالی، گھر کی رونق
سمجھے، اسے اپنی بیٹی کی طرح پیار دے تو آپ دیکھیں گی بہو آپ سے کتنی بھی متنفر ہو،
آپ کو ماں کا درجہ بالکل نہیں دینا چاہتی ہو پھر بھی آپ سے ضرور متاثر ہوجائے گی۔ وہ
بھی آپ کو ساس نہیں بلکہ ایک ماں کا مقام دے گی۔ پھر جہاں آپ کو اپنا گھر بہت تکلیف
دہ معلوم ہوتا ہے وہی گھر خوشحال کا مرکز ہوجائے گا۔(ان شاء اللہ عزوجل ضرور)۔ بہو
اپنی ساس کو ساس نہیں بلکہ ایک ماں کا مقام دے۔ جب اپنےمیکے سے سسرال آئے تو وہ یہ
سوچ کر آئے میرا گھر میری فیملی، میری خوشی، میرا غم سب کچھ یہیں ہے۔ اپنے آپ کو ایک
بناؤٹی دلہن نہیں بلکہ حقیقی دلہن بنا کر لائے۔ اپنی ماں کو چھوڑ کر آنے کا غم بے شک
اس کے دل میں درد پیدا کر رہا ہو، اور آنکھوں میں آنسو لارہا ہو، لیکن اپنی ساس کو
اپنی ماں مان لے، اپنےسسر کو اپنا بابا مان لے، اور دوسرے لوگوں کو بھی اپنے دل میں
اچھا مقام اور اچھی جگہ دیں۔
تو حقیقت میں شادی کے بعد
خوشحالی ہی خوشحالی ہوگی۔
الغرض، اسلام نے زندگی کے
ہر موڑ میں آسانیاں ہی آسانیاں رکھی ہے، بس ضرورت ہے ہمیں ہر صحیح پہلو کو ڈھونڈنے
اور قبول کرنے کی۔
اللہ رب العزت ہمیں اپنے بچپن
سے ملی گھر سے دور کرتا ہے تو اس کا بدل سسرال کی صورت میں عطا فرماتا ہے۔
تو ضرورت ہے ساس بہو کو اپنا
مزاج بدلنے کی اور زندگی کو خوش گوار بنانے کی۔
٣ __ اور اگر طلاق جہیز کی وجہ سے ہوئی
ہے تو (نعوذبااللہ) والدین اپنے بچوں کو تعلیم و تربیت دے کر شادی کی صورت میں خریداری
کے لیے تیار کرتی ہیں۔ آج والدین اپنے بچوں کو شادی کے خوشگوار بندھن میں نہیں باندھ
رہی ہیں بلکہ بیٹے کو جہیز اور سلامی کے نذر کر رہے ہیں۔ بیٹا کی تعلیم کے مطابق ڈیمانڈ
کرتے ہیں۔ بیٹا انجینئر تو پانچ لاکھ، ڈاکٹر ہے تو دس لاکھ۔ (استغفراللہ) کیا والدین
کے پیار کا رشتہ اتنا برا ہو چکا ہے؟ کیا والدین اپنی اولاد کو روپے اور پیسے کمانے
کا ذریعہ سمجھ رہے ہیں؟
افسوس ہے!!! سماج کا ماحول
ایسا نا گفتہ بہ ہو گیا ہے کہ باپ اپنی شہزادی (بیٹی) کو اپنے اوقات کے مطابق جہیز
وغیرہ دے کر رخصت کرتے ہیں پھر بھی سسرال والے اسے قبول کرنے کے بجائے بیٹے سے طلاق
دلوا کر گھر بھیج دیتے ہیں۔
اللہ اکبر!!! کیا ہمیں بھائی
چارگی کا درس نہیں دیا گیا ہے؟ کیا شادی میں ناجائز رسومات سے پرہیز کرنے کا حکم نہیں
دیا گیا ہے؟ کیا جہیز کے نام پر لڑکی کے گھر والوں کو تکلیف دینے سے منع نہیں کیا گیا
ہے؟ کیا کسی انسان کو اس کی وسعت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے منع نہیں کیا گیا ہے؟
بالکل ایسا ہی حکم دیا گیا
ہے؛ اللہ رب العزت فرماتا ہے :یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ
الْعُسْرَ٘.
ترجمہ :اللہ تم پر آسانی چاہتا
ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا(البقرہ ١٨٥)
مذکورہ بالا آیت کریمہ کی
روشنی میں کیا مسلم خواتین وحضرات نے کبھی خود سے یہ سوال کیا ہے مذہب اسلام میں اتنی
نرمی اور آسانی ہونے کے باوجود مسلمان آج دقت و پریشانی سے کیوں متصادم ہونا چاہتا
ہے ؟ اگر اب تک سوال نہیں کیا ہے تو اب کر لیں اور اپنے سماجی حالات کو درست کرنے کی
ہر ممکن کوشش کریں اور جب کبھی نکاح کے بندھن میں بندھنا چاہیں تو پہلے عفو و در گزر
، مصالحت ، نرمی و بھلائی جیسی تعلیمات کا درس لے لیں پھر اپنی ازدواجی زندگی کو نبھانے
کی بھرپور کوشش کریں۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism