New Age Islam
Sun Mar 23 2025, 04:53 PM

Urdu Section ( 21 Jan 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

An Overview of Jihad Bil-Qitaal and Jihad Bin-Nafs جہاد بالقتال اور جہاد بالنفس کا جائزہ

غلام غوث صدیقی، نیو ایج اسلام

21 جنوری 2023

آج مسلمانوں کو جہاد بالقتال کی نہیں بلکہ اپنے نفس کے خلاف جہاد لڑنے کی ضرورت ہے

اہم نکات :

• آج مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن اس کا نفس ہے جو انہیں بیشتر بد اخلاقیوں اور بد اعمالیوں پر ابھارتا ہے ۔

• اس لیے مسلمانوں کو اپنے اندر کے دشمن نفس کے خلاف جہاد کرنے کی ضرورت ہے۔

• جہاد بالنفس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاد اکبر سے تعبیر فرمایا ہے ۔

• سیریا ، عراق وغیرہ مسلم ممالک کی صورتحال سے نتیجہ نکلتا ہے کہ جہاد بالقتال کی دعوت دینے والا خود مسلمانوں کے دین ، جان و مال اور عزت و آبرو کا دشمن ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاد آج ہر جگہ موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ خاص طور پر انگریزی رسائل ، جرائد ، اخبارات اور ویب سائٹس پر جہاد کے متعلق گرما گرمی بحث ہوتی ہے ۔ ہر کوئی اپنی فکری حدود اور دائرہ معلومات کے مطابق گفتگو کرتا نظر آتا ہے ۔ہندوستان کے مسلم عوام کا حال یہ ہے کہ ایک مسلمان پر جب لنچنگ کی صورت میں ظالمانہ حملہ ہوتا ہے تو احتجاج اور انصاف کی آواز کی دھاڑیں نکلنا شروع ہوتی ہیں مگر مسلم ممالک میں اب تک لاکھوں مسلمانوں کو انتہا پسند تنظیموں نے موت کے گھاٹ اتار دیا مگر لازمی احساس ندارد ۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ انتہا پسند تنظیمیں خونی ہولی کھیلنے اور ناحق انسانوں کا خون بہانے کے لیے جہاد جیسی اصطلاح کا ناجائز استعمال کرتی ہیں ۔اس صورت میں جہاد کے موضوع کو اخبارات اور سوشل میڈیا کا موضوع بننا یقینی ہے ۔انتہاپسند تنظیموں کے رویوں کا نتیجہ آج یہ ہوا ہے کہ لوگ جہاد لفظ کو سننا پسند نہیں کرتے کیونکہ جب بھی لفظ جہاد ان کے کانوں پر دستک دیتا ہے تو انتہاپسند تنظیموں کا ظالمانہ رویہ ان کی نگاہوں کے سامنے تصویر بن کر ابھرنا شروع کر دیتا ہے ۔

دنیا کے کسی بھی خطے میں جائیں ہر جگہ کے مسلم اسکالرز آپ کو بتاتے ہیں کہ اسلام میں بہت طرح کے جہاد ہیں، لیکن دو نام ایسے ہیں جو اکثر لوگوں کے نزدیک موضوع بحث بنا رہتا ہے:

ایک کا نام جہاد بالنفس ہے۔

دوسرے کا نام جہاد بالقتال ہے۔

آج دنیا کے کسی بھی خطہ میں چلے جائیں اور کسی بھی انسان کو جہاد بالنفس کا اگر معنی و مفہوم صحیح طور پر سمجھانے میں کامیاب ہو گئے تو وہ انسان جہاد بالنفس پر اگرچہ عمل کرنے کی استطاعت نہ رکھ پائے لیکن اس جہاد بالنفس کی کم از کم مذمت تو نہیں کرے گا۔ وجہ آپ یقینا جانتے ہوں گے کیونکہ جہاد بالنفس کے اندر وہ ساری چیزیں داخل ہوتی ہیں جن کا تعلق عمدہ اخلاق اور اچھے اعمال سے ہوتا ہے۔ جہاد بالنفس تمام انسانوں کی خیر خواہی، انسانی اقدار و روایات، عدل و انصاف، حق و صداقت، صبر و تحمل، امن و سلامتی اور بد اعمالیوں سے اجتناب کرنے پر ابھارتی ہیں۔

جھوٹ، غیبت، چوری، ظلم، سرکشی، فساد، ڈکیتی، لوٹ مار، ناپ تول میں کمی کرنا ، کسی کی زمین جائیداد پر ناحق قبضہ کر لینا، تہمت و بہتان باندھنا، اور اسی طرح کی دیگر بد اعمالیوں سے بچنے کا سلیقہ بھی جہاد بالنفس دیتا ہے۔ اس جہاد بالنفس کے ذریعہ ایک صالح مومن کے قلب و دماغ میں ایمان و صداقت کی روشنی اتنی منور ہوتی ہے کہ اس کا قلب رقت و نرمی سے پر ہو جاتا ہے اور پھر وہ انسانی ہمدردی اور خیر خواہی، دور اندیشی ، غربا پروری اور خود فقیرانہ زندگی کو اپنے لیے بہار حیات سمجھ لیتا ہے، اور اس طرح اس کے قلب میں ایسا سکون حاصل ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا تصور کبھی جنم نہیں لے سکتا بلکہ اسے دہشت گردی کے تصور سے ہی اس قدر نفرت ہو جاتی ہے کہ دہشت گردی کے موضوع کو زیر بحث لانا بھی درست نہیں سمجھتا۔

 وجہ یہ ہے کہ جہاد بالنفس کرنے والا بخوبی جانتا ہے کہ دہشت گردی کا تصور ہی اس کے سکون کو مار گرائے گا۔ اللہ تعالٰی کی محبت اور خالص بندگی میں مست ہوکر اس کا قلب رقت و نرمی کو قبول کرنے اور ہر طرح کی سختی اور انتہا پسندی سے دور رہنے کا عادی بن جاتا ہے۔ تو خلاصہ کلام یہ کہ جہاد بالنفس کرنے والوں سے کسی انسانی جان پر ظلم و زیادتی ہونے کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ یہ اللہ کے ایسے سچے بندے ہوتے ہیں کہ وہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ چکے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی کسی بھی زندگی کو ناحق برباد کرنا یا اس کا غیر قانونی طور پر خاتمہ کرنا خود ان کے لیے آخرت میں اللہ تعالیٰ کے حضور ذلت و رسوائی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لیے وہ ہر طرح کے ظلم وستم، ناانصافی، بے ایمانی، وعدہ خلافی اور ناحق قتل و قتال کے ارتکاب سے خود کو بچانے کے لیے اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے گا۔ پھر اسی طرح اگر وہ تمام دیگر نفسانی برائیوں سے بچنے میں کامیاب ہو جائے تو اس شخص کے حق میں کہا جائے گا کہ اس نے واقعی میں جہاد بالنفس کیا ہے۔

اس مختصر رسالہ سے دل میں یہ بات بٹھا لینا ضروری ہے کہ نفس ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے کیونکہ یہی وہ نفس ہے جو طاقت، سیاست، حکومت، دولت وغیرہ کی خاطر دہشتگردی اور انتہا پسندی کی راہ اختیار کرنے پر ابھارتا ہے۔ کچھ لوگوں کے نفس کی حالت یہ ہے کہ اپنی نفسانی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے وہ (استغفر اللہ) اللہ تعالی کے مبارک کلام اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کرنے میں بھی شرم و عار اور خوف خدا محسوس نہیں کرتے۔ وہ کلام الہی جو انسانیت کو ہدایت کی روشنی دینے کے لیے آیا تھا آج اس کا استعمال ناجائز دہشت گردانہ افعال کے لیے کیا جا رہا ہے۔ انسانی خون کے پیاسے ظالم کی حد کا عالم یہ ہے کہ رب العالمین کے کلام کا استعمال ناجائز امور کے لیے کر رہے ہیں۔

ناجائز امور سے میری مراد چند انتہاپسند تنظیموں کے وہ اعمال ہیں جن کا جواز دینے کے لیے وہ قرآن و سنت کے نصوص کو سیاق و سباق سے ہٹا کر استعمال کرتے ہیں اور پھر وہ خانقاہوں ، مسجدوں ، مزارات اولیا ، عوامی مجلسوں اور بازاروں پر بمباری ، خودکشی اور دہشت گردانہ افعال کو جہاد کا نام دیتے ۔ایسے امور کو انجام دیتے وقت جب وہ جہاد لفظ کا استعمال کرتے ہیں تو ان سے ان کی مراد جہاد بالقتال ہوتی ہے ۔ اسلامی نصوص میں جہاد بالقتال کی صورت کو اگر آج کے دور میں سمجھا جائے تو ملیٹری آپریشن سے کئی لحاظ سے ملتا ہے کیونکہ ملیٹری آپریشن ایک ملک کی حکومت کے فیصلے کے تابع ہوکر وقوع پذیر ہوتا ہے ، اسی طرح جہاد بالقتال بھی انسانی جانوں کے دفاع اور ظلم وستم کے خاتمے میں لڑی جانے والی ایک ایسی جنگ ہے جس کا فیصلہ کوئی اسلامی ملک، حاکم یا سلطان اسلام ہی کر سکتا ہے ۔یہ جنگ جانبین کے جنگجووں کے درمیان ہی لڑی جاتی ہے، اس میں نہتے عوام ، عورتوں ، بچوں ، راہبوں ، پادریوں اور نہتے مذہبی رہنماووں پر حملہ کرنے کی سخت ممانعت اسلام میں وارد ہوئی ہیں ۔ لیکن ان ممنوعات کے باجود ، انتہا پسند تنیظیموں کے ذریعے عوام پر بمباری اور خود کش حملہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ۔

حکومت اور طاقت کی لالچ میں آکر انتہا پسند تنظیموں نے اسلام کے حدود کو بالائے طاق رکھ دیا اور اپنی آرزووں کی تکمیل کی خاطر اسلامی نصوص میں مذکور جہاد ، شریعہ ، اور اسلامی احکام جیسی اصطلاحات کا ناجائز استعمال کرکے نوجوانوں کو گمراہ کیا اور نتیجہ یہ ہےکہ جن مسلم ممالک میں ان تنظیموں نے اپنے پیر پسارے وہاں کی تباہی و بربادی آپ کی نگاہوں کے سامنے ہے ۔ سیریا ہو یا عراق ، افغانستان ہو یا کشمیر ، خواہ کوئی بھی ملک ہو ، جہاں جہاں انتہاپسندانہ نظریات نے عوام پر اپنا اثر ڈالنا شروع کیا وہاں مسلم عوام ، خواتین اور بچوں نے سوائے تباہی کے کوئی اور منظر نہیں دیکھا۔

جو مظلوم ہیں آج ان کا کوئی پرسان حال نہیں ۔کوئی عورت بیوہ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے تو کوئی بچہ یتیمی کی ، تو کسی والدین نے بڑھاپے میں اپنا جوان بیٹا کھو دیا ہے ۔بہتوں نے نہ صرف اپنے اعزاو اقارب کھوئے بلکہ اپنی زمین اور وطن سے دور پناہ گزینی کی زندگی گزارنے کے لیے در در سرحدوں پر بھٹکنے پر مجبور ہیں ۔ ان میں سے بیشتر مغربی ممالک میں پناہ لے چکے ہیں اور مسلم ممالک ان کو گود لینے سے خوفزدہ ہے ۔ ان حالات کے ذمہ دار کون ہیں ؟ یقینا ان حالات کے ذمہ دار وہ انتہا پسند تنظیمیں ہیں جنہوں نے جہاد جیسی اصطلاح کا ناجائز استعمال کرکے اپنے ہی ملک کو تباہ وہ برباد کر ڈالا ۔

اگر قرآن و سنت پر بصیرت رکھتے ہیں تو آپ کے قلب سے آواز آئے گی کہ آج مسلمانوں کو جہاد بالقتال کی نہیں بلکہ جہاد بالنفس کی ضرورت ہے ۔ جہاد بالنفس کرنے میں جو شخص کامیاب ہوگا اسے اس بات کا اندازہ یقینا ہو جائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو جہاد بالقتال واقع ہوئی تھی وہ دفاعی جنگ کی صورت میں تھی، وہ ایک ناگزیر حالت میں واقع ہوئی ، مکہ کے تیرہ سالوں کی اذیتوں اور ظلم و ستم کا سامنا کرنے کے بعد جب مسلمان اپنے ہی وطن سے نکلنے پر مجبور ہو گئے اور جب مدینہ پہنچے تو دشمنوں اور ظالموں نے وہاں بھی مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کی کوششیں کیں تو ایسی صورت میں جان و دین کے دفاع اور ظلم و ستم کے خلاف جہاد بالقتال کرنے کی اجازت دی گئی تھی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں جہاد کی فضیلت ، شہداء کی عظمت اور جنت کی بشارت دی گئی تاکہ مسلمان اس میں شرکت کرنے میں کوئی کوتاہی نہ کرے اور اس طرح ظلم و ستم کا خاتمہ ہو جائے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جس جہاد کی عملی صورت پیش کی اس کی مذمت تاریخ کا انصاف پسند مورخ کبھی نہیں کر سکتا ۔راقم الحروف کے لفظوں میں سمجھیں تو اس وقت کی دہشتگردی کو ختم کرنے کے لیے جہاد بالقتال کی اجازت دی گئی تھی ، اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے جو جہاد کیا گیا وہ عمدہ جہاد تھا ۔ لیکن آج اس جہاد بالقتال کو دہشتگردانہ افعال کے لیے جواز کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔یہ تو یقینا سراسر خود اسلام کے خلاف ایک منصوبہ بند جنگ ہے ، جس کا مقصد مسلمانوں کو معاشی ، سماجی اور معاشرتی طور پر کمزور کرتے ہوئے انہیں ہمیشہ ختم کردینے کے مترادف ہے ۔ اگرچہ اتنہاپسند اس بات کا اقرار نہ کریں لیکن ان کے افعال سے ایسے نتائج آتے ہیں اور یہ حقیقت سب کے سامنے ہے ۔

آج مسلمانوں کو جہاد بالقتال کی نہیں بلکہ اپنے نفس کے خلاف جہاد لڑنے کی ضرورت ہے ۔ اپنے نفس کی بد اعمالیوں سے اجتناب کرنے کی انہیں اشد ضرورت ہے ۔ جھوٹ ، ظلم ، ناپ تول میں کمی ، سود خوری ، زنا ، چوری ، وعدہ خلافی ، نماز جیسی عظیم عبادت سے وسیع پیمانہ پر غفلت ، اخلاق وآداب سے لا پرواہی ، جھوٹے کیسیز میں ایک دوسرے کو پھنسانے کی وبا ، ایک دوسرے کی زمین جائیداد پر ناحق قبضہ کر لینا ، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی خلاف ورزیاں ، نیز بیشتر نفسانی ، اخلاقی اور روحانی بد اعمالیاں آج مسلمانوں کے قلب و دماغ پر دشمن کی صورت میں حملہ آور ہیں۔لہذا ، آج مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن اس کا نفس ہے جو انہیں بیشتر بد اخلاقیوں اور بد اعمالیوں پر ابھارتا ہے ، اس لیے مسلمانوں کو پہلے اپنے اندر کے دشمن نفس کے خلاف جہاد کرنے کی ضرورت ہے، یعنی انہیں جہاد بالنفس کرنے کی ضرورت ہے ، جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاد اکبر سے تعبیر فرمایا ہے ۔اس کے علاوہ ، سیریا ، عراق وغیرہ ممالک کی صورتحال دیکھ کر یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ جہاد بالقتال کی دعوت دینے والا خود مسلمانوں کے دین ، جان و مال اور عزت و آبرو کا دشمن ہے ۔ نفس ہمارا داخلی دشمن ہے تو انتہا پسند تنظیمیں ہماری ظاہری دشمن ہیں ، لہذا دونوں دشمنوں کے شر سے خود کو محفوظ رکھنا ہماری اولین ذمہ داری ہے ۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غلام غوث صدیقی نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار ، علوم دینیہ کے طالب اور ہندی ، انگریزی ، اردو کے مترجم ہیں ۔

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/overview-jihad-bil-qitaal-jihad-bin-nafs/d/128930

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..