نیو ایج اسلام اسٹاف
رائٹر
23 ستمبر 2022
گزشتہ جمعہ کو ایران کی
راجدھانی تہران میں مہسا امینی نام کی ایک بائیس سالہ دوشیزہ کی پولیس حراست میں
موت ہو گئی۔ اسے تہران کے ایک پارک میں اپنے بھائی کے ساتھ ٹہلتے ہوئے تہران کی
اخلاقی پولیس جسے گشت ارشاد کہا جاتا ہے نے حراست میں لیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ
اس نے اپنے سر کو پوری طرح سے نہیں ڈھانپ رکھا تھا ۔ تہران میں عورتوں کے لیے سر کو پوری طرح ڈھانپنا اور ڈھیلے ڈھالے کپڑے
پہن کر باہر نکلنا لازمی ہے۔ مہسا کو گشت ارشاد والے حراست میں لیکر ایک وین میں
ایک گھنٹے کے وعظ کے لئے لے جارہے تھے۔ مبینہ طور پر پولیس نے راستے ہی میں اس کے
ساتھ مارپیٹ شروع کردی جس کے نتیجے میں اس کی طبیعت خراب ہو گئی اور ہسپتال میں اس
کی موت واقع ہوگئی۔
اس کی موت سے عوام خصوصاً
خواتین میں غم وغصہ بھڑک اٹھا اور وہ احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکل آئیں۔۔ تہران اور
مہسا کے آبائی وطن سقیز میں احتجاج شدید ہو گیا۔ عورتوں نے احتجاج میں اپنے حجاب
اتار پھینکے اور اپنے سر کے بال ترشوالئے۔ سقیز میں پولیس نے احتجاج کو دبانے کے
لئے دوسری غیر انسانی اور غیر قانونی کارروائی کی۔ اس نے مظاہرین کے سروں پر
گولیاں چلائیں جس سے دو نوجوان نچیروان معروفی اور کیان درخشاں کو سر اور آنکھ میں
گولی لگی۔ نچیروان کی داہنی آنکھ کی روشنی چلی گئی ہے۔
تہران کی پولیس نے اپنی
غیر قانونی کارروائی کو چھپانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا ہے جبکہ وہ خود کو
ایرانیوں کی اخلاقیات کا ٹھیکہ دار سمجھتے ہیں۔ تہران پولیس کے سربراہ نے کہا ہے
کہ اس پر مہسا کے ساتھ مارپیٹ اور قتل کا الزام جھوٹا ہے ۔اس نے کہا ہے کہ مہسا کو
پہلے سے کئی طرح کی بیماریاں لاحق تھیں اور وہ حراست کے دوران بیمار پڑگئی۔ لیکن
ہسپتال کی پوسٹ مارٹم رپورٹ پولیس سربراہ کی اس جھوٹ کی قلعی کھولتی ہے۔ لندن کی
سیٹیلائٹ نیوز چینل ایران انٹرنیشنل نے دعوی کیا ہے کہ اس نے مہسا کے کاسہءسر کا
سی ٹی اسکین حاصل کیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کے سر کو شدید چوٹ پہنچی
تھی۔مہسا کے والدین نے بھی پولیس سربراہ کے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ
مہسا کو کوئی بیماری نہیں تھی۔
واضح ہو کہ مہسا سقیز سے
تہران اپنے بھائی کے ساتھ گھومنے گئی تھی۔ اس دوران اس کا سر پوری طرح سے ڈھکا ہوا
نہیں تھا۔ اسی جرم۔کی پاداش میں تہران کی اخلاقی پولیس نے اسے موت کے گھاٹ
اتاردیا۔
تہران یونیورسٹی کی
طالبات نے اس قتل کی مذمت کی ہے اور اسے خواتین کی شخصی آزادی پر حملہ قرار دیا
ہے۔ انہوں نے احتجاج کے دوران زن, ،زندگی ، آزادی کے نعرے لگائے۔ یوروپین یونین
کےسفارتی محکمے نے اس قتل کی مذمت کی ہے اور قصورواروں کو سخت سزا کامطالبہ کیا
ہے۔
ایران میں عورتوں کے ڈریس
کوڈ کانفاذ 1979 کے انقلاب کے بعد ہوا تھا۔ اس ڈریس کوڈ کےمطابق سات سال کی عمر سے
ہی لڑکیوں کو پورا سر ڈھانپنا اور پورے جسم کو چھپانے والے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہننا
لازمی ہے۔ عوامی مقامات پر غیر مناسب کپڑے پہنے ہوئے سر کے بالوں کو کھلا رکھ کر
گھومتے ہوئے پائے جانے پر اخلاقی پولیس خواتین کو ری ایجوکیشن سینٹر لے جاتی ہے
جہاں انہیں ایک گھنٹے پردہ کی اہمیت اور اخلاقیات پر وعظ سنایا جاتا ہے۔ خلاف ورزی
کرنے پر قانونی کارروائی بھی ہوتی ہے۔
ایرانی خواتین ایک عرصے
سے اس ڈریس کوڈ کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہیں اور اسے عقرتوں کے انسانی حقوق کے
خلاف قرار دیتی ہیں۔ انہیں سات سال کی عمر سے ہی لازمی حجاب کی پابندی کرنی ہوتی
ہے۔
مہسا امینی کی حراستی موت
نے پوری دنیا میں حجاب اور پردے کے موضوع پر ایک بار پھر بحث چھیڑ دی ہے۔
افغانستان میں پردے کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ التوا میں ہے۔ طالبان
افغان خواتین کو اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت
نہیں دے رہے ہیں۔ گزشتہ سال طالبان کے ایک جنگجو نے بیچ سڑک پر ایک لڑکی کو گولی
ماردی تھی کیونکہ اس نے حجاب نہیں پہن رکھا تھا۔
مہسا کی پولیس کے ہاتھوں
موت پر اسلامی دنیا کے معروف علما کا کوئی مؤقف نہیں آیا ہے کیونکہ پردے کے معاملے
میں طالبان، تہران کی پولیس اور مین اسٹریم اسلامی علماء کا مؤقف ایک ہے۔ ان کا
عقیدہ ہے کہ اسلام عورتوں کو پوری طرح سے کپڑے میں ڈھانک کر رکھنے کا حکم دیتا
ہے۔پاکستان کے عالم دین ڈاکٹر اسرار احمد انہیں اتنی رعایت دیتے ہیں کہ وہ اپنے
برقع کی ایک آنکھ کے سامنے سوراخ رکھ سکتی ہیں تاکہ وہ تمام۔مردوں کو ایک آنکھ سے
دیکھ سکیں۔ قرآن میں پردے پر احکامات ہیں مگر علماء نے ان آیتوں کی مختلف توضیحات
پیش کی ہیں ۔ علماء کا ایک طبقہ اس رائے کا حامی ہے کہ پردہ اسلام۔میں آفاقی ہے
اور لڑکیوں ، کم عمر بچیوں، شادی شدہ، عمر دراز بیوہ، طلاق شدہ اور عمر دراز
کنواری عورتوں کے لئے یکساں طور پر لازمی ہے۔ ایک طبقہ تو عورتوں کے لئے آواز کا
پردہ بھی لازمی قرار دیتا ہے۔بے شک قرآن حیاداری کی تلقین کرتا ہے مگر یہ تلقین
صرف عورتوں کے لئے نہیں ہے بلکہ مردوں کے لئے بھی ہے۔سورہ نور میں اللہ فرماتا ہے:
۔۔"مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں۔
اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے۔ اور جو کام
یہ کرتے ہیں خدا ان سے خبردار ہے۔"(نور:٣٠).
اگلی آیت میں خدا خواتین
کے لئے بھی یہی حکم دیتا ہے۔:
۔۔"اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی
رکھا کریں۔اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔اور اپنی آرائش کو ظاہر نہ کیا کریں
مگر ان میں سے جو کھلا رہتا ہو اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھےرہا کریں اور اپنے
خاوند، اور باپ اور خسر اور بیٹوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور
اپنی عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا اور ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں
اور ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے واقف نہ ہوں کسی پر اپنی زینت کو
ظاہر نہ ہونے دیں اور اپنے پاؤں زمین پر نہ ماریں کہ ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو
جائے۔ "(نور: 31).
ان آیتوں میں عورتوں کے
لئے آفاقی پردے کا بیان نہیں ہے اور نہ ہی عورتوں کو پوری طرح ڈھکے رہنے کا حکم
دیا گیا ہے۔ بلکہ کچھ خاص حالات میں عورتوں کو کچھ رعایت بھی دی گئی ہے۔ سورہ
النور ہی کی ایک آیت میں کہا گہا ہے کہ بڑی عمر کی عورتیں جن کو شادی کی امید نہیں
رہی وہ سر سے آنچل اتار سکتی ہیں:
۔۔"اور بڑی عمر کی عورتیں جن کو نکاح کی توقع نہیں رہی وہ
اپنے سر سے کپڑے اتار لیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔بشرطیکہ اپنی زینت کی چیزیں ظاہر
نہ کیا کریں اور اس سے بھی بچیں تو بہتر ہے۔ ان کے حق میں" (نور٦٠).
عمر دراز کنواری عورتیں
اگر سر پر آنچل نہ رکھیں تو ان پر کوئی گنا ہ نہیں۔ لیکن اگر رکھ لیا کریں تو ان
کے لئے بہتر ہے۔ قرآن کی ایک آیت میں مسلم عورتوں سے کہا گہا ہے کہ جب وہ باہر
نکلیں تو اپنے آنچل کو تھوڑا نیچے سرکا لیں تاکہ پردہ ہوجائے۔
۔۔" اے پیغمبر اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں
سے کہہ دو کہ اپنے اوپر چادر لٹکا لیا کریں یہ امر ان کے لئے موجب شناخت ہوگا اور
کوئی ان کو ایذا نہ دےگا۔"(الاحزاب : 59 ).
قرآن کی آیتوں سے پردہ کا
ایک متوازن تصور ابھرتا ہے کہ جہاں انہیں شر کا خوف ہو وہاں آنچل تھوڑا لٹکا لیں
اور جہاں محرم ہوں وہاں پردے کی ضرورت نہیں ہے۔ کہیں بھی عورتوں کو پوری طرح سر سے
پاؤں تک ڈھکے رہنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے اور دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک میں
پردے کا یہی معتدل تصور ہی رائج ہے مگر کچھ اسلامی ممالک میں اور کچھ غیر اسلامی
ممالک میں بھی کچھ علماء نے پردے کے آفاقی نفاذ کی وکالت کی ہے اور عورتوں کو پوری
طرح سے ڈھانپ کر رکھ کر انہیں سماج سے بالکل کاٹ کر رکھنے والے پردے کے تصور کو
عام کیا ہے جو قرآن اور حدیث میں پیش کئے گئے پردے کے تصور کے منافی ہے۔ اور پردے
کے اسی دقیانوسی تصور کی وجہ سے ایران اور افغانستان و دیگر چند ممالک کی مسلم
خواتین حکومتی بندشوں کا شکار ہیں۔ انہیں پردے کے نام پر تعلیم اور اپنی تخلیقی
اور صنفی صلاحیتوں کے اظہار سے روکا جارہا ہے اور عالم اسلام کا ایک بڑا طبقہ
حکومتوں اور تنگ ذہن علما کے اس غیر اسلامی روئیے پر خاموش ہے۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism