New Age Islam
Mon Mar 17 2025, 01:08 AM

Urdu Section ( 5 Apr 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

What Is the Night of Decree? Sufi Insights into Shab-e-Qadr شب قدر کیا ہے اور کیسے گزاریں

غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام

4 اپریل 2024

بیشک ہم نے اسے شبِ قدر میں اتارا

وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ

اور تم نے کیا جانا کیا شبِ قدر،

لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ

شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر

تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ

اس میں فرشتے اور جبریل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے

سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ

وہ سلامتی ہے، صبح چمکتے تک

ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی عبداللہ بن انس رضی اللہ عنہ نے، آپ ﷺسے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، شب قدر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں تمہیں بتا دوں کہ یہ کون سی رات ہے، تو تم تمام دن اور تمام راتیں چھوڑ کر صرف اسی رات میں عبادت کرو۔ اور تم اس کے  علاوہ کچھ نہ کرو۔" 

زندگی کا  ہر لمحہ، ہر سیکنڈ، ہر منٹ، ہر گھنٹہ، ہر دن اور ہر رات عبادت، اطاعت اور اللہ کی فرمانبرداری میں گزارنا چاہیے۔ لیکن اسلام میں کچھ مخصوص دن، راتیں اور مہینے ہیں، جو انتہائی معنی خیز اور انتہائی قیمتی ہیں۔ ان کی اضافی خصوصیات کی وجہ سے ان کی ایک اپنی ہی اہمیت و افادیت ہے۔ ان مبارک ساعتوں میں ایک سب سے افضل شب قدر یا لیلۃ القدرہے، جو قرآن کریم کے مطابق تمام راتوں میں افضل ترین رات ہے۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے:

’’ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر‘‘ (سورۃ القدر:3)۔

اس مقدس رات کی سب سے بڑی اہمیت و فضیلت یہ ہے کہ، اسے غار حرا میں پیغمبر اکرم ﷺکے ذریعے تمام بنی نوع انسان پر قرآن نازل کرنے کے لیے منتخب کیا گیا ۔ رحمتوں اور برکتوں سے بھر پور ، رمضان کے آخری 10 دنوں میں، شب قدر خاص طور پر ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے کافی اہمیت رکھتی ہے، جسے تیسرا عشرہ یا عشرہ نجات (حصول نجات کے دس دن) کہا جاتا ہے۔  ان دنوں میں، برصغیر پاک و ہند میں رمضان کے اختتام، اور مسلمانوں کے سب سے بڑے تہوار عیدالفطر کی خوشی اور تہوار کا ماحول ہوتا ہے۔

مکمل طور سے ذکر الٰہی میں گزاری جانے والی یہ مقدس رات، جسے عربی میں لیلۃ القدر کہا جاتا ہے، اسلام کی صوفیانہ راتوں میں سے ایک ہے۔ یہ رات ہندوستان میں "شب قدر" کے نام سے مشہور ہے، جو کہ فارسی الفاظ ہیں، جس کا مطلب ہے 'طاقت والی رات'، اور یہ مانا جاتا ہے کہ یہ شب قدر، رمضان کے عشرہ نجات میں، ان طاق راتوں میں سے کسی ایک میں آتی ہے: 21ویں، 23ویں، 25ویں، 27ویں یا 29ویں ۔ اردو، فارسی اور عربی میں نجات کا مطلب ہے: غلطیوں یا گناہوں سے رہائی۔ لہذا،  شب قدر بھی نجات اور روحانی آزادی کا ذریعہ ہے۔ رمضان المبارک کی ان راتوں میں، خاص طور پر 27 کی رات کو یہ مانا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے نزول فرماتا ہے اور تمام گنہگاروں کی بڑی فراخدلی سے بخشش و مغفرت فرماتا ہے۔

اکثر محدثین اور مفسرین قرآن کا خیال ہے کہ شب قدر غالباً رمضان کی 27ویں رات کو ہوتی ہے۔ اس طرح اس سال یہ 5 اپریل کی رات ہوگی۔ تاہم، ان تمام طاق راتوں میں شب قدر کو تلاش کرنے کاحکم دیا گیا  ہے، نہ کہ صرف 27 تاریخ کوہی۔ شب قدر کے بارے میں صوفیانہ نقطہ نظر، گہرا اور بامعنی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت محمد صالح نے اپنے والد گرامی اور اپنے زمانے کے ایک نامور صوفی بزرگ، امام احمد الکبیر الرفاعی سے پوچھاشب قدر (لیلۃ القدر) کب ہوتی ہے؟ انہوں نے جواب دیا:

میرے بیٹے! اگر تمارے باطن کا آئینہ صالح فکر سے چمک اٹھا ہے تو تمہاری ہر شب، شب قدر جیسی ہو گی۔ ماخذ: الفجر المنیر از امام محمد ابو الہدی السیدی الرفاعی)۔

اسی طرح کے حکمت بھرے الفاظ کا اظہار، ایک ترک قبرصی صوفی بزرگ، اور نقشبندیہ کے جدید صوفی سلسلے کے شیخ  — شیخ محمد ناظم عادل الکبروسی الحقانی، نے بھی کیا ہے ۔ انہوں نے اپنے پہلے روحانی مرشد کو یہ کہتے سنا: ’’ہر رات کو شب قدر اور ہر شخص کو خضر سمجھو۔‘‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہر ایک کو خدا کا دوست (ولی) سمجھ کر اس کا احترام کیا جانا چاہئے، اور فرض نمازوں کو کسی بھی رات میں نہیں چھوڑنا چاہئے۔ یہ اس سب سے طاقتور رات پر ایک معنی خیز صوفی نقطہ نظر ہے۔ درحقیقت، صوفی نقطہ نظر سے شب قدر صرف طاقتور اور فرمان کی رات نہیں ہے، بلکہ انسان کی نجات، روحانی آزادی اور بخشش و مغفرت کی بھی رات ہے۔

شب قدر اسلام میں اس قدر مقدس ہے کہ اس رات کو تلاش کرنا بھی اس میں عبادت کرنے کے برابر ہے۔ سب سے اہم وجہ اس رات میں قرآن کریم کا نزول ہے۔ لیکن اس رات کی ایک اور امتیازی فضیلت یہ ہے، کہ اس رات میں فرشتے اور روح کا بھی نزول ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید (97:4) میں مذکور ہے۔ اس رات میں قرآن پاک کا نزول کیسے، کہاں اور کب ہوا اس کی مختلف تشریحات ہیں۔ عام طور پر یہی مانا  جاتا ہے کہ قرآن لوح محفوظ  سے اس آسمان دنیا پر، شب قدر کو نازل ہوا۔ یہ وہاں اترا، اور پھر جبرائیل علیہ السلام اسے حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لاتے رہے۔

درحقیقت دیگر صحیفے اور مقدس کتابیں بھی مبینہ طور پر، رمضان میں ہی نازل ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے جلیل القدر  انبیاء (رسولوں) کو، رمضان میں ہی کتابیں عطا کیں، جن میں وہ کتابیں جو ابراہیم علیہ السلام پر نازل ہوئیں، اور تورات جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی، زبور اور مقدس بائبل بھی شامل ہیں۔ بعض قرآنی تفاسیر کے مطابق 6، 12، 16 رمضان کو ان کا نزول ہوا۔ تاہم، قرآن جو رمضان میں نازل ہوا، شب قدر یعنی لیلۃ القدر میں ہی ہم انسانوں کو عطا  ہوا۔ اس لیے مسلمان شب قدر 27 ویں کی شب کو مناتے ہیں، اگرچہ یہ دوسری طاق راتوں میں بھی ہو سکتی ہے۔

قرآن کو کس طرح لوح محفوظ سے پیغمبر اکرم  ﷺپر نازل کیا گیا، اس حوالے سے  کچھ مستند روایات، قرآن کے عظیم صوفی عالم امام جلال الدین سیوطی نے نقل کی ہیں۔ آپ قرآنی علوم کے ایک انسائیکلو پیڈیا، اور اپنی عظیم الشان اور مایہ ناز تصنیف الاتقان فی علوم القرآن میں نزول وحی کے عمل کو اس ترتیب سے بیان کرتے ہیں:

1)        شبِ قدر میں، اللہ تعالیٰ نے قرآن کو مجموعی طور پر آسمان دنیادپر نازل کیا، جسے بعد میں اللہ نے  20، 23 یا 25 سال کے عرصے میں تھوڑا تھوڑا کرکے نبی اکرم ﷺ پر نازل کیا۔

2)        قرآن اپنی مکمل حالت میں شب قدر میں نازل ہوا، اور یہ ستاروں کے دائروں میں تھا۔ پھر خدا نے اسے اپنے رسول ﷺپر تھوڑا تھوڑا  کر کے نازل کیا۔

3)        ایک ہی رات (شبِ قدر) میں قرآن کا نزول آسمانِ دنیا پر ہوا، جس کے بعد 20 سال کے عرصے میں نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوتا رہا۔

4)        قرآن کو ذکر سے الگ کر کے نچلے آسمان میں مقامِ عظمت (بیت العزۃ) کے اندر رکھ دیا گیا، جس کے بعد جبرائیل علیہ السلام نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا۔

5)       قرآن جبرائیل علیہ السلام کو دیا گیا تھا، اور انہوں نے اسے بیت العزۃ  میں رکھ دیا، اور اس کے بعد رسول ﷺپر تھوڑا تھوڑا  کر کے نازل کیا ۔

کم و بیش تمام مسلمان، رمضان کے رخصت ہونے پر اداسی محسوس کرتے ہیں۔ تاہم، اس موقع پر ہم جو سب سے بہتر کام کر سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہم شب قدر میں اپنا محاسبہ کریں۔ ہمیں اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، کہ اتنے عرصے تک بھوکے پیاسے رہنے کے بعد، اب ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہمیں اپنے آپ سے کچھ سوالات کرنے چاہئیں، مثلاً، رمضان کی آمد سے قبل ہماری حالت کیا تھی اور اب تیس روزے گزارنے کے بعد ہماری حالت کیا ہے۔ یہ خود احتسابی ہمیں مہینے بھر میں کیے گئے اچھے کاموں پر لامحدود خوشی محسوس کرنے، اور ان برائیوں پر نادم ہونے کا موقع فراہم کرے گی، جو ہم میں ابھی تک موجود ہیں اور رمضان اپنے  اختتام کو پہنچنے والا ہے۔

اور اس کا سب سے بہترین وقت شب قدر کا آخری حصہ ہے، جیسا کہ ابو ہریرہ نے صحیح بخاری اور مسلم میں بیان کیا ہے۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یوں نقل کرتے ہیں :

’’جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے، تو ہمارا ربِ کریم آسمانِ دنیا کی طرف نزول اجلال فرماتا ہے اور ندا لگاتا ہے: ہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ ہے کوئی مجھ سے کچھ مانگنے والا کہ میں اسے عطا کروں؟ ہے کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا کہ میں اسے بخش دوں؟

English Article: What Is The Night Of Decree? And How Do We Make It Out? Sufi Insights Into Shab-e-Qadr

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/night-decree-sufi-insights-shab-qadr/d/132087

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..