لاؤڈ اسپیکر پر اذان کے
محدود استعمال کے مشورے پر مسلمانوں نے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کو گلوکار
سونو نگم کے ساتھ جوڑ دیا
جھلکیاں:
1. مولانا خالد سیف
اللہ رحمانی نے اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے محدود استعمال کی بات کی۔
2. انہوں نے کہا کہ
ایسا ہو سکتا ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کسی علاقے کی صرف ایک مسجد میں استعمال کی جائے
اور باقی تمام مساجد میں اذان بغیر لاؤڈ اسپیکر کے دی جائے۔
3. مسلمانوں نے اس
مشورے کے لیے مولانا رحمانی کی مذمت کی۔
4. کچھ لوگوں نے اس کے
بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔
5. مولانا رحمانی کو
اپنا بیان واپس لینا پڑا۔
-----
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
21 اپریل 2021
-------
Maulana
Khalid Saifullah Rahmani
-------
اردو روزنامہ راشٹریہ
سہارا کے 15 اپریل کے شمارے میں ظفر ڈارک قاسمی نے اہم سماجی اور فرقہ وارانہ
مسائل پر عام مسلمانوں کے تنگ نظر طرز عمل پر افسوس کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں
انہوں نے اذان کے لیے مسلمانوں کی جانب سے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے متعلق ایک
تنازعہ کا حوالہ پیش کیا۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پچھلی ایک یا دو دہائیوں کے
دوران پنج وقتہ نماز کی اذان کے لیے مائیک کے استعمال کی مخالفت بڑھ گئی ہے۔ مائیک
کے استعمال کی مخالفت سب سے پہلے بال ٹھاکرے نے 90 کی دہائی میں یہ کہہ کر کی تھی
کہ وہ مائیک پر اذان تین سیکنڈ تک بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ اس عرصے میں مسلمانوں
نے اذان دینے کے لیے مساجد میں مائیک لگانا شروع کر دیا تھا۔ اس سے پہلے 70 یا 80
کی دہائی تک اکثر اور خاص طور پر دیہی یا نیم شہری علاقوں کی مساجد میں مائیک کا
استعمال نہیں کیا جاتا تھا اور موذن اذان گاہ سے اذان دیتے تھے۔
لاؤڈ اسپیکر صرف بڑے
شہروں میں استعمال ہوتے تھے۔ لیکن 90 کی دہائی تک مائیک کا استعمال بڑھتا گیا اور
یہ شہری اور دیہی علاقوں کی ہر مسجد کا ایک لازمی حصہ بن گیا۔ بعد کے ادوار میں
لاؤڈ اسپیکر نے مسلمانوں کی مذہبی سرگرمیوں میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا ہے یہاں
تک کہ پنج وقتہ نمازیں لاؤڈ اسپیکر پر ادا کی جانے لگیں حالانکہ پنج وقتہ نمازوں
میں شرکت کرنے والے باقاعدہ نمازیوں کی تعداد بہت کم ہوتی تھی۔ فجر کی نماز میں
نمازیوں کی تعداد دس سے بھی کم ہوتی تھی۔ لیکن اذان کہنے کے لیے مائیک کا استعمال
کیا جاتا تھا۔ کچھ مساجد میں تین یا چار لاؤڈ اسپیکر ایک مینار سے بندھے ہوئے ہوتے
ہیں۔
جیسے جیسے ہندوستان میں
مذہبی عدم برداشت بڑھتی گئی لاؤڈ اسپیکر کے اس استعمال کی غیر مسلموں نے اس بنیاد
پر مخالفت تیز کر دی کہ لاؤڈ اسپیکر پر اذان ان کے ذہنی سکون یا نیند میں خلل پیدا
کر دیتی ہے۔ بالی ووڈ کے گلوکار سونو نگم نے جب اپنے ان احساسات کا اظہار کیا کہ
فجر کے وقت لاؤڈ اسپیکر پر اذان سے ان کی نیند میں خلل پیدا ہوتا ہے تو مسلمانوں
میں غصہ پھوٹ پڑا۔ واضح رہے کہ ممبئی اپنی رات کی زندگی کے لیے جانا جاتا ہے اور
زیادہ تر لوگ رات کے آخری حصے میں سوتے ہیں۔ لہٰذا جب لوگ گہری نیند میں ہوتے ہیں
تو لاؤڈ اسپیکر پر اذان ان کی نیند میں خلل ڈالتی ہے۔
گزشتہ رمضان کے مہینے میں
کئی دیہاتوں اور قصبوں میں غیر مسلموں نے مخلوط آبادی میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی
مخالفت کی اور بعض جگہوں پر مخالفت پرتشدد ہو گئی۔ بعض مقامات پر مقامی انتظامیہ
نے لاؤڈ اسپیکر پر اذان پر پابندی بھی عائد کر دی۔
لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی
بڑھتی ہوئی مخالفت کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم دانشوروں اور یہاں تک کہ بعض علماء نے
تصادم سے بچنے کے لیے اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے محدود استعمال کی بات کہی۔
مولانا خالد سیف اللہ
رحمانی بھی انہیں علماء میں سے ایک ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو محدود طریقے سے اذان
کے لیے لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ راشٹریہ سہارا میں شائع ہونے والے
اپنے مضمون میں ظفر قاسمی نے لکھا کہ
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے حال ہی میں مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اذان کے
لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کم کریں۔ انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر کسی مسلم
علاقے میں ایک سے زیادہ مساجد ہیں تو صرف ایک مسجد سے لاؤڈ اسپیکر پر اذان دی جائے
اور بقیہ مساجد سے بغیر لاؤڈ اسپیکر کے اذان پکاری جائے۔ یہ تجویز بری نہیں بلکہ
عقلمندی کے عین مطابق تھی۔ لیکن بدقسمتی سے یہ مشورہ مسلم کمیونٹی کے اندر منفی
ردعمل کا باعث بنا یہاں تک کہ کچھ نام نہاد دانشوروں نے مولانا خالد سیف اللہ
رحمانی کے سماجی بائیکاٹ کا مطالبہ بھی کر ڈالا۔ مصنف کے مطابق ان کے بیان کی
مسلمانوں کے ایک طبقے نے مذمت کی اور اس کے نتیجے میں مولانا رحمانی نے اپنا بیان
واپس لے لیا۔
اس سے لاؤڈ اسپیکر پر
مسلمانوں کی ضد کا پتہ چلتا ہے۔ اب لاؤڈ اسپیکر ان کے لیے اتنا اہم ہو چکا ہے کہ
مائیک کے استعمال کی مخالفت کو وہ اسلام کی مخالفت سمجھتے ہیں حالانکہ لاؤڈ اسپیکر
اسلامی مذہبی تقریبات کے لیے لازم نہیں ہے۔ اذان پکارنے کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا
استعمال ہندوستان کے اندر 20 ویں صدی کے آخری میں شروع ہوا۔ اس سے پہلے چھوٹے
علاقوں میں اذان یا محفل میلاد کے لیے لاؤڈ اسپیکر استعمال نہیں کیے جاتے تھے۔
لاؤڈ اسپیکر صرف بڑی جماعتوں یا مجالس کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ مولانا خالد سیف
اللہ رحمانی جیسی مذہبی شخصیت کو اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے خلاف
مشورہ دینے کی مذمت اس حد تک کی گئی کہ انہیں اپنا بیان واپس لینا پڑا جو کہ مسلم
کمیونٹی کے حق میں اچھا نہیں ہے۔ مسلم معاشرہ اب اپنے ہی علماء کی باتیں ماننے کو
تیار نہیں ہے اور شاید اب مسلمانوں کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ جو بھی اذان کے لیے
لاؤڈ اسپیکر استعمال نہ کرنے کا مشورہ دے وہ اسلام کا دشمن ہے۔ اس معاملے میں
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور گلوکار سونو نگم کو ایک ہی پلے میں رکھا گیا ہے۔
یہ بہت خطرناک ہے۔
لاؤڈ اسپیکر کو صرف اذان
ہی نہیں بلکہ دیگر سماجی تقریبات مثلا شادیوں یا تہواروں کے لیے بھی ضروری مانا جاتا
ہے۔ آج کل ڈی جے کا استعمال عید میلاد النبی کے موقع پر یا شادی بیاہ کے موقع پر
نعت یا فلمی گانوں کی کیسٹ چلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ مقامی رہائشی اسلام کے دشمن
کہے جانے کے خوف سے تیز آواز والے ساؤنڈ باکس پر نعت بجائے جانے کی مخالفت نہیں کر
سکتے یا فلمی گانوں کی بھی مخالفت اس وجہ سے نہیں کرتے کہ ان پر تہوار کا ماحول
خراب کرنے کا الزام لگا دیا جائے گا۔ پورے دن ڈی جے کی بلند آواز سے علاقے کے
مسلمانوں اور غیر مسلموں کو ہونے والی تکلیف کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔
اب وقت آگیا ہے کہ مسلم
علماء و دانشور اور ائمہ مساجد سماجی اور مذہبی تقریبات کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے
استعمال کے مسئلے پر غور کریں اور لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر ایک اجتماعی پالیسی
بنائیں اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے دیگر کمیونٹیز
اور خود مسلم کمیونٹی کو کیا کیا پریشانیاں ہوتی ہیں۔ لاؤڈ اسپیکر اسلام کا لازمی
حصہ نہیں ہیں لہذا ایک کثیر مذہبی معاشرے میں قیود و شرائط کے ساتھ اس کا استعمال
کیا جا سکتا ہے۔ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے قرآن میں وارد ہونے والے پڑوسیوں کے
حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔
English Article: Limit use of loudspeakers for Azan, says Maulana Rahmani, invites Muslim anger
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism