تحریک لبیک پاکستان کا
مطالبہ ہے کہ انہیں ایک سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنے دیا جائے۔
اہم نکات:
ان کا مطالبہ ہے کہ
پاکستان سے فرانسیسی سفیر کو بے دخل کیا جائے
ان کا مطالبہ ہے کہ
پاکستان میں فرانسیسی سفارت خانے کو بند کیا جائے
بریلوی جماعت ٹی ایل پی
پاکستان میں دیوبندی جماعت کی کامیابی سے متاثر ہے
دیوبندی جماعتوں سے
سمجھوتہ کرکے، پاکستانی حکومتوں نے بریلوی جماعتوں کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا
راستہ دکھایا ہے
----
نیو ایج اسلام اسٹاف
رائٹر
5 نومبر 2021
Imran
Khan, Prime Minister of Pakistan (File Photo)
------
بریلوی بنیاد پرست جماعت
تحریک لبیک پاکستان کے سامنے عمران خان کا ہتھیار ڈالنا ملک میں مذہب کی سیاست کا
ایک نیا باب ہے جس نے طویل عرصے سے دیوبندی اور وہابی انتہا پسند گروہوں کا عروج
اور ان کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھا ہے۔ اب تک دیوبندی اور وہابی مذہبی گروہ ہی
سماجی اور سیاسی طاقت کے حامل تھے۔ ٹی ٹی پی، سپاہ صحابہ اور لشکر طیبہ جیسے
گروپوں کو حکومت اور فوج کی حمایت حاصل تھی۔ انہوں نے پاک فوج اور بیوروکریسی میں
مداخلت کی اور کئی مواقع پر حکومت کو اپنے مطالبات ماننے پر مجبور بھی کیا ہے۔
ٹی ٹی پی نے تو نواز شریف
کو انتخابات جیتنے میں مدد بھی کی اور جب وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو ان کے
بھائی شہباز شریف کی حمایت بھی حاصل کی۔ دیوبندی جماعتوں کے زیر انتظام مدارس سے
وابستہ علماء کو پاکستان میں زبردست حمایت حاصل ہے۔
بریلوی جماعتیں اگرچہ تشدد
اور دہشت گردی کی حامی نہیں ہیں، لیکن ختم نبوت اور توہین رسالت کے بارے میں ان کے
اپنے انتہا پسندانہ عقائد ہیں اور انہوں نے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ احمدیوں کو
جگہ دینے والے قانون میں کچھ معمولی تبدیلیوں کو واپس لے۔ انہوں نے پنجاب کے سابق
گورنر سلمان تاثیر کی جانب سے توہین رسالت کے قانون میں کسی بھی تبدیلی کے مطالبہ
کی بھی مخالفت کی۔ پرتشدد انتہا پسندی کا مظاہرہ سب سے پہلے اس وقت ہوا جب ایک
بریلوی جنونی ممتاز قادری نے توہین رسالت کے قوانین کو منسوخ کرنے کے مطالبے پر
سلمان تاثیر کو گولی مار دی۔
تب سے ہی بریلوی انتہا
پسندی عروج پر ہے اور بریلوی علما ملک کے سیاسی میدان میں اپنی موجودگی کا احساس
دلانے کے لیے اپنی فرقہ وارانہ چال چل رہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال ملک میں اس وقت
پرتشدد مظاہرے کیے جب فرانسیسی صدر میکرون نے کہا کہ اسلام بحران کا شکار ہے اور ہم
نے فرانس میں وہابی انتہا پسندی کو روکنے کے لیے سلسلہ وار اقدامات شروع کیا ہے۔
بریلوی جماعت ٹی ایل پی نے پاکستان میں فرانسیسی سفارت خانے کو بند کرنے کا مطالبہ
بھی کیا۔
(File
Photo)
-----
تحریک لبیک پاکستان نے اب
دو ہفتوں سے ایک بار پھر پرتشدد احتجاج کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے جس میں پولیس کے
ساتھ پرتشدد جھڑپوں میں سرکاری املاک کی تباہی اور متعدد پولیس اہلکاروں کی موت کی
خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ وہ فرانسیسی سفارت خانے کو بند کرنے اور فرانسیسی سفیر
کو واپس بلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں ایک
سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنے دیا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اقتدار پر قبضہ
کرنا چاہتے ہیں اور مرکز میں بریلوی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ افغانستان میں
وہابی جماعت طالبان کی حکومت کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بریلویوں کو یہ
احساس ہو کہ پاکستان میں اکثریت میں ہونے کے باوجود، ملک میں سرگرم ٹی ٹی پی یا
دیگر وہابی جماعتوں جیسی طاقتور سیاسی نمائندگی نہیں ہے۔ اس لیے بریلوی جماعت
تحریک لبیک پاکستان نے اپنے سیاسی استحقاق کا مطالبہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے
پرتشدد مظاہرے ہوئے۔
احتجاج کی شدت اور سختی
کے باعث عمران خان کو اس جماعت کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑا۔ اس میں عمران خان کی
حکومت کے لیے یہ سبق بھی ہے کہ ملک میں وہابی جماعتوں کے سامنے ہتھیار ڈال کر اس
نے بریلوی جماعتوں کو اقتدار پر چڑھنے کا راستہ دکھایا ہے۔ اب تک بریلوی جماعت
اپنی تحریکوں کو صرف توہین رسالت اور ختم نبوت تک محدود رکھتی تھی۔ لیکن اب لگتا
ہے کہ انہوں نے پاکستان میں بریلوی حکومت قائم کرنے کے لیے اقتدار پر قبضہ کرنے کا
فیصلہ کر لیا ہے۔ اگر یہ ممکن ہو جاتا ہے تو پاکستان میں بڑے پیمانے پر انتہا
پسندی، تشدد اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا ایک سلسلہ دیکھنے کو ملے گا۔ اس سلسلے
میں عائشہ صدیقہ کے درج ذیل مضمون سے عمران خان حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان
ہونے والے معاہدے سے پاکستان میں سیکولرازم اور مذہبی ہم آہنگی کا ایک بھیانک اور
تاریک مستقبل معلوم ہوتا ہے۔
-----
عمران خان کے ٹی ایل پی کے
ساتھ خفیہ معاہدے نے بریلوی جن کو بوتل سے باہر نکال دیا ہے
عائشہ صدیقہ
3 نومبر 2021
عمران خان حکومت نے کہا
تھا کہ وہ قانون شکنی کرنے والے ٹی ایل پی کے غنڈوں کو برداشت نہیں کرے گی۔ پھر
آرمی چیف باجوہ نے اس جماعت کے ساتھ معاہدہ کرنے میں مدد کرنے کے لیے سرکردہ
تاجروں اور مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کی۔
-----
Representation
image | A demonstration of protest by Tehreek-e-Labbaik (TLP) supporters
against the top court's verdict on Asia Bibi | @nailainayat/Twitter
-----
عمران خان کی حکومت نے
بھی اپنے پیشروؤں کی طرح، بریلوی مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ
ایک معاہدہ کیا ہے، جو اپنے قائد کی رہائی اور پاکستان سے فرانس کے سفیر کو بے دخل
کرنے کے مطالبات کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ کر رہی تھی۔ حکومت کے ساتھ بات
چیت کے علاوہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی بروقت مداخلت نے تباہی سے بچا لیا۔
قومی سلامتی کے مشیر معید
یوسف سمیت عمران خان کی کابینہ کے ارکان کو غلط ثابت کرتے ہوئے، جنہوں نے دعویٰ
کیا تھا کہ حکومت ٹی ایل پی کے شرپسندوں کی قانون شکنی کو برداشت نہیں کرے گی،
جنرل نے ایک اور خفیہ معاہدہ کرنے میں مدد کرنے کے لیے سرکردہ تاجروں اور مذہبی
رہنماؤں سے ملاقات کی۔ حکومت نے انتظامات کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا ہے
تاہم یہ واضح ہے کہ سیاسی طور پر ایک مہنگا معاہدہ طے پایا ہے جس کے نتیجے میں ٹی
ایل پی کو اپنا مارچ واپس لینے پر بڑا فائدہ ہونے والا ہے۔
پہلا معاہدہ جس پر ٹی ایل
پی نے 2017 کے اواخر میں نواز شریف کی سابقہ حکومت کے ساتھ دستخط کیے وہ انتخابی
قوانین میں معمولی تبدیلیوں کے خلاف تحفظ کو ختم کرنا تھا، جس سے احمدیہ برادری کو
فائدہ ہوتا، جسے پاکستان اور دنیا بھر کے اکثر مسلمان، مسلمان نہیں مانتے۔ یہاں تک
کہ پاکستان نے 1974 میں ایک آئینی ترمیم منظور کر کے انہیں غیر مسلم قرار دیا ہے۔
اس کے بعد سے احمدیہ
برادری کے افراد کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 2017 کے معاہدے کو مبینہ
طور پر سبکدوش ہونے والے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ
جنرل فیض حمید نے انجام دیا تھا جس میں ایک اور جنرل، رینجرز پنجاب کے سربراہ،ٹی
ایل پی کے مظاہرین کو پیسے تقسیم کرتے ہوئے کیمرے میں پکڑے گئے تھے۔ اس کے بعد
بریلوی جماعت نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، جو کہ اپنے لیڈر خادم حسین رضوی کی
وجہ سے بھی کافی مقبول ہوئی جو اپنی بد زبانی کے لی مشہور تھے۔
کون ہیں ٹی ایل پی؟
سطحی طور پر ٹی ایل پی
پاکستان میں کسی بھی دوسرے مذہبی جماعت کی ہی طرح ہے، جسے یا تو فوج نے بنایا یا
تشکیل میں مدد کی ہے۔ سب ایک دوسرے گروہ سے مشابہت ہیں، مثلا دیوبندی جیش محمد،
سپاہ صحابہ پاکستان، حرکت المجاہدین، یا اہل حدیث لشکر طیبہ۔ – معاشرے میں اپنی
نظریاتی بنیاد کو مضبوط کرنے کے بدلے میں اپنی بقا کے لیے سبھی کو فوج کی حمایت
حاصل تھی۔
لیکن ٹی ایل پی ان گروپوں
سے مختلف ہے کیونکہ یہ کبھی بھی پاکستان سے باہر تشدد میں ملوث نہیں رہی ہے۔ جنوبی
پنجاب کی ایک چھوٹی اکائی کو چھوڑ کر یہ بریلوی مذہبی گروہ بیرون ملک ریاستی جنگوں
سے بڑی حد تک دور رہے ہیں۔
ٹی ایل پی کا ایجنڈا
بالکل سیاسی اور رد عمل پر مبنی ہے اور اس کی تخلیق پاکستان کی داخلی سیاست کا
نتیجہ ہے۔ ٹی ایل پی باضابطہ طور پر 2016 میں اس وقت ایک جماعت بن گئی جب ممتاز
قادری کو پھانسی دی گئی تھی، جس نے 2011 میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو توہین
مذہب کی ملزمہ مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی حمایت کرنے پر گولی مار کر ہلاک کر دیا
تھا۔
ٹی ایل پی کو 2017 کے
دھرنے اور پولیس کے ساتھ مٹھ بھیڑ کے بعد اعتماد و حوصلہ حاصل ہونا شروع ہوا، جس
میں آئی ایس آئی نے نہ صرف مدد کی بلکہ اسلام آباد میں پولیس افسران کو مارنے میں
ٹی ایل پی کے غنڈوں کی مدد بھی کی۔ میں نے بارہ کہو (مضافاتی اسلام آباد) پولیس
اسٹیشن کے افسران سے ذاتی طور پر ملاقات کی جنہوں نے کیلوں سے جڑی ہوئی لکڑی کی
لاٹھیوں سے حملہ کئے جانے کی بات کی۔ پولیس اہلکار اپنے حملہ آوروں کو جانتے تھے۔
یہ ایک افسوسناک معاملہ تھا جس میں ریاستی اداروں نے اپنی طاقت کو زیادہ کرنے کے
لیے دوسرے ریاستی اداروں کو نقصان پہنچایا۔ پہلے دھرنے اور انکاؤنٹر کے بعد سے، ٹی
ایل پی نے ختم نبوت اور توہین رسالت جیسے دو اہم مسائل پر کم از کم تین بار اور ہر
بار بڑے پیمانے پر احتجاج کی دھمکی دی ہے جو کہ پارٹی کا اہم مدعا بھی ہے۔
ایک خطرناک معاہدہ
حکومت نے ایک خطرناک جنی
کو بوتل سے باہر نکال دیا ہے۔ معاہدے کا اثر چار سطحوں پر پڑے گا۔
سب سے پہلے نظریاتی طور
پر، ٹی ایل پی نے جو ایجنڈا ترتیب دیا ہے وہی دیگر تمام جماعتوں کی بھی رہنمائی
کرے گا۔ توہین رسالت یا ختم نبوت کے معاملے میں کوئی دوسری جماعت اس حد سے تجاوز
نہیں کر سکتی ہے۔ جب سے یہ جماعت سماجی و سیاسی میدان میں اتری ہے، دیوبندی اور
اہلحدیث جیسے اس کے نظریاتی حریفوں کو بھی ان مسائل پر ان کے نعروں کی تہہ دل سے
حمایت کرنی پڑی۔ اس حوالے سے اب یہ پاکستان کی مذہبی قوم پرستی کا رنگ پہلے سے
زیادہ گہرا کر دے گا۔
دوسری بات، اس بریلوی
جماعت نے نظریاتی اور سیاسی ایجنڈا طے کرنے کے لیے پیروں کے اختیارات کو زیر کر
لیا ہے۔ پنجاب اور سندھ کی سیاست پر پیروں کا غلبہ ہے یا کسانوں یا زمیندار پیروں
کے مفادات کا مجموعہ ہے۔ درگاہوں کا ایک طویل عرصے تک سیاست پر غلبہ رہا، جس کا
مطلب اس سماجی بیانیہ کا کنٹرول بھی ہے جس نے اقلیتی جماعتوں کے لیے کچھ گنجائش
پیدا کیا ہے۔ اگرچہ کافی پہلے سے اس میں تبدیلی شروع ہوئی، لیکن سیاست میں ٹی ایل
پی کی آمد نے پیروں کے لیے رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ ان دونوں صوبوں میں چھوٹے
شہروں کی بڑھتی ہوئی تعداد، ٹیکنالوجی کی آمد، سوشل میڈیا، اور کچھ خواندگی (اسے
تعلیم کے ساتھ نہ ملایا جائے) کے ساتھ مل کر بڑھتی ہوئی شہری کاری نے اس حلقے کا
سیاسی مزاج بدل دیا ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والے یا سیاست میں کچھ اثر رکھنے
والے پیروں کا فیصلہ اب اس بات پر کیا جائے گا توہین رسالت اور ختم نبوت کے بارے
میں ان کا کیا موقف ہے۔ پیروں کو ایک چیلنج در پیش ہے لیکن ٹی ایل پی انہیں اقتدار
میں بھی لاتی ہے۔ دیوبندیوں اور اہل حدیثوں کی عسکریت پسندی کے لئے ریاست کی حمایت
نے پیروں کے لیے بھی پریشانی کھڑی کر دی ہے۔ بریلوی سیاسی عسکریت پسندی نے انہیں
نہ صرف مذہبی طور پر بلکہ ریاست کی سیاست میں بھی مرکز حیثیت کا حامل بنا دیا ہے۔
ملک بھر کے ایک درجن سے زیادہ بڑی درگاہوں کے پیروں نے ہی ٹی ایل پی اور حکومت کے
درمیان تنازعہ سے بچنے کے لیے وزیراعظم سے ملاقات کی ہے۔
تیسرا، حکومت کے لیے ٹی
ایل پی کی افادیت ملک کے سیاسی توازن کو ایڈجسٹ کرنا ہے، خاص طور پر قدامت پسند
پاکستان مسلم لیگ نواز (PMLN) کو پیچھے کرنے میں۔ عمران خان کی بڑھتی ہوئی غیرمقبولیت کے
باوجود، جرنیلوں کو حوالے سے اس بارے میں شکوک و شبہات برقرار ہیں کہ وہ نواز شریف
کو اقتدار کی راہداریوں میں واپس لائیں گے یا ان کی بیٹی مریم کو سیاست میں داخل
ہونے کی اجازت دینگے ۔ اگرچہ ٹی ایل پی کے تازہ احتجاج کی اصل وجہ کے حوالے سے بہت
سی باتیں گردش کر رہی ہیں اور یقینی طور پر اس سے حکومت کے اندر تناؤ ظاہر ہو رہا
ہے، لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام آباد مارچ کی بنیادی وجہ
نواز شریف کی حمایت کو ختم کرنا یا غیر جانبدار ووٹر کو بہکانا تھا۔ اگرچہ ٹی ایل
پی 2018 کے انتخابات میں پنجاب سے ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی، لیکن اس حقیقت کو نظر
انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اب اس کا ہر حلقے میں ایک ٹھوس نظریاتی ووٹ بینک موجود
ہے، جسے دیوبندی ووٹ بینک کی طرح مقامی اور قومی سطح پر بڑی جماعتوں کے ساتھ ساز
باز کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
آخر کار بریلوی جن
دیوبندیوں یا اہل حدیثوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس کی نظریاتی پیروکار ہر
حلقے میں ہیں اور اس میں مسلح افواج بھی شامل ہیں۔ اگرچہ فوج پیشہ ورانہ طور پر
منظم اور منضبط رہتی ہے، لیکن اس کے جوانوں کی نظریاتی حس ٹی ایل پی کی بیان بازی
سے یکساں طور پر متاثر ہوتی ہے۔ ایک آرمی چیف اپنا کام کرنا جاری رکھ سکتا ہے لیکن
ادارے کے اندر کسی ایسی جنگ کی صورت میں وہ خود کو بندھا ہوا محسوس کرے گا جس میں
نظریہ اس کے خلاف استعمال کیا گیا ہو۔ جنرل باجوہ کو بریلوی علما سے رابطہ کرنا ہی
تھا، جس سے کہ سیاسی مسائل کے حل میں ان کی اپنی اہلیت کا اشارہ تو ملتا ہی ہے
لیکن اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست کی مذہبی قوم پرستی کو ترک نہیں کیا جائے گا۔
بہر حال، باجوا نے اپنے پورے کیریئر میں بطور سروس چیف اپنے لوگوں کی حمایت حاصل
کرنے کے لیے اور بھی نجی مذہبی اجتماعات کا اہتمام کیا ہے۔ اگرچہ گزشتہ انتخابات
کے دوران ٹی ایل پی پنجاب میں ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی تھی، لیکن یہ پنجاب کو
کنٹرول کرنے کی جنگ ہے جہاں سے زیادہ تر فوج آتی ہے۔ لوگ 2000 کی دہائی کے ان دور
اوائل کو یاد کرتے ہیں کہ جب اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی پنجاب میں امن و
استحکام متاثر ہونے کے باعث قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن
کرنے کی ہمت نہیں کرتے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ
بالآخر ٹی ایل پی کے ساتھ ساز باز کر ہو جائے گا۔ اسے مذہبی حریفوں کی جانب سے ہی
چیلنج کیا جائے گا۔ علماء کونسل کے دیوبندی سربراہ مولانا طاہر اشرفی کی اس معاہدے
سے ناخوشی ایک نظریاتی مقابلہ آرائی اور بے چینی کی طرف نشاندہی کرتی ہے۔ کسی بڑے
خطرے کی صورت میں حکومت پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کا فارمولا استعمال کر سکتی ہے۔
اس کے علاوہ، ایک بار جب فوج اور آئی ایس آئی کی قوت برداشت کی انتہا ہو جاتی ہے
یا پارٹی کے اندر حکومت کرنے کی طاقت دم توڑ دیتی ہے تو حکومت وہی طریقہ استعمال
کرے گی جو وہ عام طور پر کسی گروپ کی طاقت کو کم کرنے کے لیے کرتی ہے: ایک حریف
جماعت تخلیق کر کے اس جماعت میں داخل کر دی جائے اور مجموعی طور پر اس کی طاقت کو
ختم کرنے کے لئے داخلی تنازعات کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ لیکن حکمت عملی کے لحاظ
سے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹی ایل پی کا نیا حریف اپنے ایجنڈے میں اور بھی زیادہ
خطرناک اور سخت ہوں گا۔ آج کے پاکستان میں، مولویوں کا طبقہ ایک سنجیدہ اسٹیک
ہولڈر ہے جو قلیل مدتی فوائد لیکن طویل مدتی سماجی و سیاسی اثرات کے لیے حکومت کے
ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
-----
ماخذ: پرنٹ
English Article: Imran Khan Government’s Agreement with the
Tehreek-e-Labbaik Pakistan Will Usher Pakistan into Another Era of Religious
Extremism
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism