پاکستان میں توہین کی وجہ
سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو قتل کیا جا سکتا ہے۔
اہم نکات:
1. پاکستان میں توہین رسالت قوانین کے تحت 1500 افراد کے خلاف مقدمہ
چلایا جا رہا ہے۔
2. 1990 سے اب تک مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام میں 70 افراد کو
عدالتی طور پر قتل کیا جا چکا ہے
3. قرآن توہین رسالت کے لیے کوئی جسمانی سزا تجویز نہیں کرتا
4. ارتداد بھی توہین مذہب میں ہی شامل ہے
5. توہین مذہب ایک سیاسی ہتھیار ہے جو مسلم ممالک میں اختلاف کو دبانے
کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
-----
نیو ایج اسلام
اسٹاف رائٹر
12 اکتوبر 2021
اسلام کے علمی حلقوں میں توہین
رسالت یا تحقیر آمیز تقریر یا تحریر پر کافی بحث ہوئی ہے۔ بہت سے اسلامی دانشوروں کا
ماننا ہے کہ توہین ایک جرم نہیں ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے
خلاف ایک سنگین گناہ ہے اور اس لیے اس کے مرتکب کو قانونی طور پر سزا نہیں دی جا سکتی،
خدا اپنی، اپنے فرشتوں کی اور اپنے نبیوں (نہ کہ صرف پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم)
کی توہین کی مذمت کرتا ہے، بلکہ قرآن توہین کرنے والوں کے لیے کوئی جسمانی سزا تجویز
نہیں کرتا ہے۔ اس کے بجائے قرآن مسلمانوں کو توہین رسالت پر تحمل اور رواداری کی نصیحت
کرتا ہے۔
لیکن 11 ویں صدی میں اسلامی
علماء کے ایک طبقے نے طاقت کے بھوکے مسلم حکمرانوں کے ساتھ مل کر توہین رسالت کو ایک
مجرمانہ جرم بنا دیا ہے جس کی سزا موت ہے۔ ان علماء نے توہین رسالت کی سزا کی تائید
میں قرآنی آیات کی تشریحات اور وضاحتیں پیش کیں۔ مثال کے طور پر 11 ویں صدی کے اسلامی
مفکر امام غزالی نے یہ نظریہ پیش کیا کہ خدا اور قیامت کے بارے میں غیر روایتی خیالات
پھیلانے والوں کو سزائے موت دی جانی چاہیے کیونکہ وہ یونانی فلسفہ اور شیعہ سے متاثر
ہیں تاکہ سنی اسلام میں فساد پیدا کیا جائے۔ اس کے بعد کئی مسلم سائنسدانوں اور فلسفیوں
کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھانسی دی گئی۔
اسلام میں توہین کو ایک مجرمانہ
جرم سمجھنے کی اس روایت کو آگے بڑھایا گیا اور یہاں تک کہ 20 ویں صدی کے بعض علماء
نے اسے تقویت دی حالانکہ لبرل علماء کے ایک طبقے نے ان قرآنی آیات کی بنیاد پر توہین
رسالت کی سزا کے نظریہ کی مخالفت کی جن میں مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ تحمل
کا مظاہرہ کریں اور توہین کرنے والوں کو زبانی مذمت کے بعد چھوڑ دیں۔ لیکن دور جدید
کے اکثر علماء یہاں تک کہ اکیسویں صدی کے علماء بھی یہی مانتے ہیں کہ توہین رسالت ایک
مجرمانہ جرم ہے اور موت سے کم اس کی سزا نہیں ہونی چاہیے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا دیکھا
گیا ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک کے علماء توہین کرنے والوں کے لیے سزائے موت کے حق میں
ہیں اور مسلم اقلیتی ممالک کے علماء صرف زبانی احتجاج اور مذمت کے حق میں ہیں۔ مثال
کے طور پر ہندوستان کے ایک اسلامی اسکالر مولانا وحید الدین خان کا خیال تھا کہ قرآن
نے ارتداد کے لیے موت کا حکم نہیں دیا ہے۔ اسی طرح کا نظریہ قرآن کے ایک عالم محمد
یونس اور ہندوستان کے دیگر اسلامی اسکالروں کا بھی ہے۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان کے
اکثر علماء کا خیال ہے کہ توہین رسالت کی سزا موت ہونی چاہیے۔
واضح رہے کہ ان علماء نے ارتداد
کو توہین رسالت کے زمرے میں شامل کیا ہے۔ حالانکہ قرآن ارتداد کے لیے بھی سزائے موت
تجویز نہیں کرتا، لیکن علمائے کرام ارتداد کو ایک قسم کی توہین اور اس پر موت کی سزا
کے لیے علماء کی اکثریت کے اجماع کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔
اگرچہ بہت سے عیسائی ممالک
نے توہین کے قوانین کو منسوخ کر دیا ہے یا سزا ہلکی کر دی ہے، لیکن بہت سے مسلم اکثریتی
ممالک میں اب بھی توہین کے قوانین موجود ہیں جن کے تحت سیکڑوں مسلمانوں اور غیر مسلموں
کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا ہے اور انہیں غیر عدالتی طور پر قتل کیا جاتا ہے۔
پاکستان اور ایران میں توہین
رسالت کے قوانین سخت ترین ہیں۔ پاکستان میں اقلیتی برادریوں کے ارکان--- ہندو، عیسائی،
احمدیہ، شیعہ اور دوسرے لوگ جو مذہب کے بارے میں غیر روایتی خیالات کا اظہار کرتے ہیں
ان پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا جاتا ہے لیکن کوئی سزا نہیں دی جاتی۔ پھر بھی ملزمان
عدالت کے باہر ہجوم یا شدت پسندوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ عدالت میں ان کے خلاف مقدمات
نہ ٹکنے کے بعد تقریبا 70 افراد کو غیر عدالتی طور پر قتل کیا گیا ہے۔ یہ انتہائی مایوس
کن صورت حال ہے کہ سخت گیر علماء کی منظوری سے بنایا گیا قانون ملزموں کو مجرم نہیں
سمجھتا اور پھر بھی انہیں غیر عدالتی طور پر قتل کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں کسی پر بھی توہین
مذہب کا الزام لگایا جا سکتا ہے خواہ وہ علماء کے رویے کو ہی کیوں نہ چیلنج کر رہا
ہو۔ اس صورتحال کو بدلنا ضروری ہے۔ پاکستان کے لبرل مفکرین اور دانشور اس روایت کے
خلاف آواز اٹھاتے ہیں لیکن انہیں ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے۔ توہین رسالت کے قوانین کو
منسوخ کرنے کے مطالبے پر پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو ایک شدت پسند نے قتل کر دیا۔
صورت حال مایوس کن معلوم ہوتی ہے کیونکہ ڈاکٹر طاہر القادری جیسے اسلامی اسکالر بھی،
جنہوں نے خودکش بم دھماکوں اور دہشت گردی کے خلاف ایک زبردست فتویٰ شائع کیا تھا، توہین
رسالت کے لیے سزائے موت کی حمایت کرتے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ مسلمانوں پر بھی توہین
مذہب کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے۔
English
Article: Blasphemy Laws Have Turned Muslim Countries into
Killing Fields
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism