مشکوک روہینگیا تنظیمیں ان
کیمپوں میں سرگرم ہیں جو منشیات اور بھتہ خوری میں ملوث ہیں
اہم نکات:
1. محب اللہ روہینگیا کے
حقیقی نمائندے تھے
2. انہوں نے امریکی صدر
ٹرمپ سے ان کی مدد لینے کے لیے ملاقات کی تھی
3. 2019 میں انہوں نے بنگلہ
دیش میں روہینگیاؤں کی ایک بڑی ریلی کا اہتمام کیا تھا
4. انہوں نے روہینگیا کے
خلاف میانمار فوج کے مظالم کو دستاویزی شکل دی تھی
5. انہیں ان کے کاموں کے
لیے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل چکی تھیں
..................................
نیو ایج اسلام نامہ نگار
30 ستمبر 2021
میانمار میں ایک لاکھ سے زائد
روہینگیا مسلمانوں کی پرامن واپسی کی جدوجہد کو ایک اور دھچکا لگاتے ہوئے مسلح افراد
نے 29 ستمبر کو بنگلہ دیش میں کاکس بازار کے دفتر میں مقبول روہینگیا رہنما محب اللہ
کو گولی مار دی۔ حملہ آور ان سے کچھ مسائل پر بات کرنے آئے تھے لیکن ملاقات کے اختتام
پر انہوں نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ حملہ آوروں کی شناخت عبدالرحیم، راشد اور
لالو کے نام سے ہوئی ہے۔
محب اللہ اراکان روہینگیا
سوسائٹی فار پیس اینڈ ہیومن رائٹس کے سربراہ تھے اور انہیں روہنگیاؤں نے اپنا لیڈر
تسلیم کیا تھا۔ انہوں نے روہینگیاؤں کے خلاف میانمار کے مظالم کو دستاویزی شکل میں
پیش کیا تھا اور وہ بین الاقوامی سطح پر روہینگیاؤں کی وطن واپسی کے لیے لڑنے والے
ایک مخلص رہنما تھے۔ انہیں انکے کام کے لیے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔
ان کے قتل پر انسانی حقوق
کی تنظیموں نے مثلا ہیومن رائٹس واچ، فورٹیفائی رائٹس اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شدید مذمت کی ہے۔ ان سب نے حملہ آوروں کی گرفتاری،
سزا اور روہینگیاؤں کو مجرموں اور تخریبی عناصر سے تحفظ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
محب اللہ 2017 میں میانمار
کے فوجی کریک ڈاؤن کے بعد روہینگیا برادری کے دیگر افراد کے ساتھ میانمار سے فرار ہو
گئے تھے۔ ان کا تعلق منگدو علاقے کے گاؤں لنگچڑا سے تھا۔ انہوں نے کاکس بازار کے اُکھیا
مہاجر کیمپ میں پناہ لی ہوئی تھی۔
جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر ہیومن
رائٹس واچ نے ان کی ہلاکت پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا، '' محب اللہ روہینگیاؤں
کے لیے ایک اہم آواز تھے جو بنگلہ دیش میں پناہ گزین بن کر پہنچنے پر پہلے ہی ناقابل
تصور نقصان اور تکلیف اٹھا چکے تھے۔'' ایچ آر ڈبلیو میں ساؤتھ ایشیاء ڈائریکٹر میناکشی
گانگولی نے ایک ای میل بیان میں کہا کہ، "انہوں نے ہمیشہ روہنگیا کی محفوظ اور
باوقار واپسی کے حقوق کا دفاع کیا ہے اور ان کی زندگی اور مستقبل سے متعلق فیصلوں میں
اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ ان کا قتل ان خطرات کا واضح ثبوت ہے جو کیمپوں میں ان لوگوں
کو درپیش ہیں جو آزادی کے لیے اور تشدد کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ محب اللہ کی موت سے
نہ صرف روہینگیا مہاجرین کی پناہ گزین کیمپوں میں مزید حقوق اور تحفظ کے لیے جدوجہد
کو نقصان پہنچا ہے بلکہ ان کی میانمار میں محفوظ طریقے سے اپنے گھروں کو واپسی کی کوششوں
کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ بنگلہ دیشی حکام کو فوری طور پر روہینگیا پر دیگر حملوں کے
ساتھ محب اللہ کے قتل کی تحقیقات بھی کرنی چاہئیں۔
انہوں نے بنگلہ دیش کی حکومت
کو اس لئے بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ اپنے ناقدین کو طویل عرصے تک ہراساں کرتی
رہی۔ ایک طرح سے انہوں نے محب اللہ کے قتل کے لیے بالواسطہ طور پر شیخ حسینہ حکومت
کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
محب اللہ نے 2019 میں امریکی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی اور روہینگیاؤں کی وطن واپسی میں ان سے مدد مانگی
تھی۔ اگست میں انہوں نے بنگلہ دیش میں ایک بڑی ریلی کا انعقاد کیا تھا جس میں 2 لاکھ
سے زائد روہینگیاؤں نے شرکت کی تھی۔
ایک ٹوئٹر پیغام میں فورٹیفائی
رائٹس نمائندہ میتھیو اسمتھ نے محب اللہ کے قتل پر دکھ کا اظہار کیا اور ان کے لیے
انصاف کا مطالبہ کیا۔
آج بنگلہ دیش کے کٹوپالونگ
مہاجر کیمپ میں روہینگیا انسانی حقوق کے رہنما محب اللہ کے قتل کی تباہ کن خبر پہنچی۔
ہم ان تمام لوگوں کے ساتھ غمگین میں شریک ہیں جو انہیں جانتے اور پیار کرتے تھے۔ فورٹیفائی
رائٹس اس معاملے میں انصاف، اور تشدد کے بڑھتے ہوئے خطرے کے تحت بہت سے دوسرے لوگوں
کے تحفظ کا مطالبہ کرتا ہے۔
بنگلہ دیش کے روہینگیا پناہ
گزین کیمپوں میں قتل، آتش زنی اور دھمکیاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ منشیات فروش، بھتہ
خور اور دہشت گرد گروہ ان کیمپوں میں سرگرم ہیں۔ وہ ان روہنگیا رہنماؤں یا مذہبی رہنماؤں
کو قتل کرتے ہیں جو ان کے منشیات اور بھتہ خوری کے ریکٹ کی مخالفت کرتے ہیں۔ بنگلہ
دیش حکومت ان عناصر کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے جو اس طرح کی کارروائیوں کے
بعد دریا عبور کر کے میانمار چلے جاتے ہیں۔ حملہ آور روہینگیا انتہا پسند تنظیم الیاکین
کے رکن بتائے جاتے ہیں۔ ایسی مشکوک تنظیمیں جو روہینگیا کی خیر خواہ ہونے کا دعویٰ
کرتی ہیں، پناہ گزین کیمپوں میں سرگرم ہیں۔ انہیں میں سے ایک روہنگیا سالویشن آرمی
ہے۔ اے آر ایس اے منشیات اور بھتہ خوری میں ملوث ہے۔ ان تنظیموں نے اپنے پرتشدد اور
دہشت گردانہ نظریات کی وجہ سے روہینگیاؤں کی وطن واپسی کی جدوجہد کو نقصان پہنچایا
ہے۔
محب اللہ کا قتل ان قوتوں
کا کام معلوم ہوتا ہے جو روہینگیا کی وطن واپسی نہیں چاہتے اور حملہ آور روہینگیا کے
دشمنوں کے ایجنٹ لگتے ہیں۔
English
Article: Assassination of Rohingya Leader Mohibullah another Blow to Rohingya
Muslims’ Struggle for Repatriation
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism