ڈاکٹر یوسف رامپوری
16 دسمبر،2022
اس وقت جب ہم مختلف
شعبہائے حیات میں مسلمانوں کی کاردگی کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کی زبوںحالی
وپسماندگی کی داستانوں کو سنتے اورپڑھتے ہیں ،توسب سے پہلے یہی سوال ذہن کی سطح پر
مرتسم ہوتا ہے کہ آخر کونسا شعبہ یا میدان ایسا ہے جس میں مسلمان ناکام نہیں ہیں؟
ایسے حالات میں کس کس شعبے میں وہ ہاتھ پیرماریں ، کس کس میدان میں ثابت قدمی کا
مظاہرہ کریں ،اور کن کن راہوں کو استوار کریں ۔ کہتے ہیں کہ پریشانیاں آتی ہیں تو
چاروں طرف سے آتی ہیں اور مسلسل آتی ہیں کہ ان سے نجات کی راہ تلاش کرنا مشکل
ہوجاتا ہے،لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ مسلّم ہے کہ مسائل کی الجھی ہوئی گرہ میں کوئی
سرا ایسا ضرور ہوتا ہے کہ اگروہ ہاتھ آجائے تو گرہ کھل جاتی ہے۔
اس وقت اگر مسلمان مسائل
کے لامتناہی سلسلے کو توڑنے کے آرزومند ہیں اوروہ مسلسل پریشانی وناکامی کے حملوں
کو ناکام بنانا چاہتے ہیں تو ان کے لیے بھی کسی ایسے ہی سراغ کی دریافت ناگزیر
ہوگی جس کے بعد ہر شے واضح ہوجائے اور کوئی ابہام باقی نہ رہے ۔ مجموعی کامیابی کے
لیے زندگی کے تمام شعبوںمیں محنت وریاضت اپنی جگہ، تاہم من حیث المجموع بشری زندگی
کے کسی ایسے پہلو کی دریافت وبازیافت اپنی جگہ ہے جس پر بھرپورتوجہ کے ارتکاز کے
بعد دوسرے شعبوں میں بھی کامیابی کی راہیں استوار ہوجائیں ۔اس نقطۂ نظر سے جب ہم
انسانی زندگی کے مختلف شعبوں اور پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان کے درمیان
سماجیات کی شکل میں ایساپہلو نظرآتا ہے جس کی کامیابی انسانی زندگی کے دوسرے
شعبوںکے لیے بھی کامیابی کی ضامن بن سکتی ہے۔
اس بات سے بھلاکون انکار
کرسکتا ہے کہ فی زمانہ مسلمانوں کی معاشرتی زندگی بری طرح ناکامی سے
دوچار ہورہی ہے۔ ان کے معاشرے میں ایسی برائیاں عام ہیں ،جو ان کے زوال پذیرہونے
کا سبب بن رہی ہیں۔اس حوالے سے اگر مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے اختلاف
وانتشارکی بات کی جائے تو اس نے پورے مسلم سماج کے شیرازے کو بکھیر کر رکھ دیا
ہے۔تعلیمی معاملہ ہو یا سیاسی، معاشی مسئلہ ہو یا مسلکی،خاندانی تنازعہ ہو یا
علاقائی ونسلی ، ہر سطح پر مسلمانوں کے درمیان گروہ بندیاں قائم ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ جب مسلم معاشرے میں اس حد تک اختلافات ہوں گے تومسلمانوں کی کامیابی
کے لیے راہ کیسے ہموار ہوسکتی ہے۔
معاشرتی زندگی کی ایک
خوبصورت تصویر سادگی کی صورت میں ابھر کر سامنے آتی ہے،لیکن مسلم معاشرے کی تصویر
اس سطح پر بھی روز افزوں بے رنگ ہوتی جارہی ہے ۔تصنع اور بناوٹ کا عالم یہ ہے کہ
لوگ اسے اپنا شغل محبوب یا اپنی ساکھ دکھانے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں ۔ کھانے پینے
سے لے بڑی بڑی پارٹیوں اورمجلسوں تک میں دکھاواپایاجاتا ہے۔ لباس کا توکیا کہنا،
طرح طرح کے فیشن اپنائے جارہے ہیں۔ مسلمان مردہوں کہ خواتین عجیب و غریب ترا ش
خراش کے کپڑ ے پہن رہے ہیں۔ تاکہ وہ پرکشش نظرآئیں، اس تصور سے پَرے کہ ستر پوشی
کا مقصد کس حد تک پورا ہورہا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اب دکھاوے سے پاک عبادت بھی
نظر نہیں آتی ۔موجود ہ مسلم سماج کو دیکھ کر نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں سادگی
نام کی کوئی چیز باقی رہی ہے۔
اخلاق کے لحاظ سے بھی تیزی
سے گرواٹ آرہی ہے۔ جب کہ بد خلقی ، ترش روئی اور بد سلوکی میں اضافہ ہورہا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ آج مسلم سماج پر کھل کر نقد و جرح کی جا رہی ہے اور اسے انتہائی
بداخلاق اورغیر مہذب بتایا جا رہا ہے۔مسلم معاشرے میں تعلیم وتربیت اور سنجیدگی
ومتانت کا بھی فقدان ہوتا جارہا ہے جب کہ معاشرتی زندگی کے یہ پہلو بہت اہم
ہیں۔مسلمانوں میں تعلیم کی کمی بجائے خود ایک بڑا مسئلہ ہے اور تعلیم کے بغیر کسی
بھی سماج میں سنجیدگی و متا نت کا خواب ادھوراہے ۔ صفائی ستھرائی کے تعلق سے مشہور
ہے کہ مسلمان انتہائی گندے رہتے ہیں ، ان کے محلے غلاظت سے پُر ہوتے ہیں، سڑکیں ،
نالیاں ،صاف نہیں ہوتیں ، گھروں میں بھی کوئی سلیقہ مندی نہیں پائی جاتی ۔کیا یہ
سچ نہیں ہے ؟ اس سے انکار حقیقت سے منہ موڑنے جیسا ہے کہ مسلمانوں کی زیادہ تر
بستیاں و علاقے گندگی سے آلودہ ہوتے ہیں ،حالانکہ ا سلام میں ناپاکی و گندگی کا
تصور تک نہیں ہے ۔’ پاکی‘ کو نصف ایمان کہاگیاہے۔
مسلم معاشرے کے تعلق سے
یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اس میں ہر فرد کو چاہے وہ غریب ہو یا امیر ، مفلس ہو یا
رئیس ، ایک سادہ زندگی بسر کر نے کی ترغیب دی جاتی ہے ، تاکہ معاشرے میں توازن
قائم رہے ، مساوات وبرابری نظرآئے اور اسراف کی تباہ کاریوں سے انفرادی واجتماعی
زندگی پاک وصاف رہے ۔ مثلاً شادی یا نکاح کو اس قدر سادگی و اختصارکے ساتھ انجام
دیا جا نا چاہیے کہ اس میں والدین کابرائے نام ہی خرچ ہو، لیکن مسلم معاشرے میں
شادی بیا ہ کے موقع پر اسلامی تعلیما ت کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور غیر
ضروری رسومات کو اپنا یا جا تا ہے۔ لڑکی کے نکاح کے لیے درجنوں قیمتی جوڑے، لاکھوں
روپوں کے سونے چاندی کے زیوارات اور لاکھوں کا جہیز بھی دیا جاتا ہے۔ محلہ والوں
کے کھانے کی دعوت اور سیکڑوں افراد پر مشتمل بارات کی خاطر و مدارت الگ کرنی پڑتی
ہے۔ اس طرح سے لڑکی کے نکاح میں ہزاروں یا لاکھوں روپے خرچ ہونا عام بات ہے۔ لڑکے
کی شادی میں بینڈ باجے کے ساتھ ایک لائو لشکر کی شکل میں بارات لے جائی جاتی ہے
اور اس موقع پرعجیب عجیب واہیات دیکھنے کوملتی ہیں۔ گویا کہ شریعت اسلامی میں نکاح
کو جس قدر آسان بنایاگیا تھا، مسلم معاشرے نے اسے اسی قدر دشوارتر اور مہنگا
بنادیاہے۔ ایک غریب و پسماندہ شخص کے لیے اپنے بچوں کا نکاح انتہائی مشکل ہوتا
جارہا ہے۔
علاوہ ازیں انسانی اقدار
اور فطرت کے تقاضوں کی بھی آج کے مسلم معاشرے میں کوئی پرواہ نہیں کی جارہی ہے۔
جھوٹ ، وعدہ خلافی، عہد شکنی، مکاری ،دھوکہ بازی اور بد عنوانی جیسی چیزوں کو مسلم
معاشرے میں خوب پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ لوگ کھلے
عام جھوٹ بولتے ہیں، مگر ان پر نقد نہیں کی جاتی ، عہد و وعدہ کر کے اسے توڑتے ہیں
مگر ان کے خلاف کوئی اثر نہیں لیا جاتا ، دھوکہ دیتے ہیں، لیکن یہ بھی کوئی عیب کی
بات شمار نہیں کی جاتی ۔ ذرا ذرا سی بات پر مارپیٹ اور قتل عام تک نوبت آجاتی ہے
مگر معاشرتی سطح پر ان کی سرزنش نہیں ہوتی ۔مسلم معاشرے میں ایک اور سنگین صورت
حال یہ جنم لے رہی ہے کہ مسلمان اب تیزی کے ساتھ احساس کمتری کے شکار ہورہے ہیں
اورشکوے شکایتیں کرتے نظر آتے ہیں،اپنی کمیوں کو ڈھونڈنے اور ان کی اصلاح کرنے کی
بجائے دوسروں سے توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ظاہر ہے کہ جو فرد یا معاشرہ خود اپنی
خامیوں کو دور کرنے کی کوشش نہ کرے ، دوسروں کے ذریعہ اس کی اصلاح کیسے ممکن
ہوسکتی ہے ،اسی طرح کامیابی وترقی کا خواب بھی اس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں
ہوسکتا جب تک کہ خود جدوجہد اور محنت وکوشش نہ کی جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان
معاشرتی زندگی کے تمام پہلوئوں پرتوجہ دیں ،جہاں اصلاح کی ضرورت ہو ، وہاں اصلاح
کریں ، اس طرح نہ صرف انھیں معاشرتی شعبے میں کامیابی ملے گی بلکہ زندگی کے دوسرے
شعبوں میں بھی وہ کامیابی کی طرف بڑھیں گے۔
16 دسمبر،2022، بشکریہ: انقلاب،نئی
دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism