سہیل انجم
20 اکتوبر،2021
اس کالم کی تحریک دو
کالموں سے ملی ہے۔ ایک کالم ہندوستانی ہے اور دوسرا پاکستان۔ ہندوستانی کالم نگار
شاہد لطیف ہیں جو روز نامہ انقلاب ممبئی کے ایڈیٹر ہیں۔ دوسرے کالم نگار حسن نثار
ہیں جو پاکستان کے معروف دانشور،صحابی اور قلمکار ہیں۔ دونوں میرے پسندیدہ رائٹر
ہیں۔ میں ان کے کالموں سے بہت کچھ سیکھتا اور اپنے اندرون کو روشن کرنے کی کوشش
کرتا ہوں۔۔ ایڈیٹر انقلاب (ممبئی)کاکالم
16اکتوبر کو روزنامہ انقلاب میں شائع ہوا جب کہ دوسراکالم 18 اکتوبر کو
روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہوا ہے۔ اول الذکرکا عنوان ہے’دل کی طرف حجاب تکلف
اٹھا کے دیکھ‘ ثانی الذکر کا عنوان ہے شائبان تحریک: کتابیں پڑھیں خرید کر
پڑھیں‘۔دونوں کالموں میں بہت زیادہ تو نہیں لیکن کسی حد تک مماثلت ضرور ہے۔ البتہ
دونوں کا درود رو مشترک ہے۔اول الذکر کالم میں بہت سی باتوں کے علاوہ سوشل میڈیا
پر وقت کے زیاں پر فکر مندی کا اظہار کیا گیا اورکہا گیا کہ ’جب تک انٹرنٹ اور
موبائل نہیں آیا تھا انسان کے پاس دو چار گھنٹے تو فراغت کے نکل ہی آتے تھے۔ تب وہ
غور وفکر بھی کرتا اوردوسروں کے بارے میں سوچتا بھی تھا۔ آج کے انسان نے خود کو ان
دو چار گھنٹوں سے بھی محروم کرلیا ہے، ثانی الذکر کالم کی یہ بات بڑی دردناک کہ
’کباب کلچر کتاب کلچر کو نکلتا جارہاہے‘۔ اب تو کتابوں کی تاریخی دکانوں میں بھی
ہوٹل کھل رہے ہیں۔ یہ درد صرف سرحد کے اس پار کا نہیں بلکہ اس پار کا بھی ہے۔ آپ
جامع مسجد کے اردو بازار کا دورہ کیجئے او رموجودہ حالات کاموازنہ تیس چالیس سال
قبل کے حالات سے کیجئے تکلیف دہ صورت حال کا اندازہ ہوجائے گا۔ ثانی الذکر کالم
میں ماہنامہ ’ادب لطیف‘ کے مدیر اعلیٰ حسین مجروح کی، کتابوں کو پڑھنے اور خرید کر
پڑھنے کی ترغیب دینے والی ’سائبان تحریک‘ کو خراج تحسین پیش کیاگیا اورکتابوں کی
اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ کالم میں ایک فرانسیسی فلسفی قلمکار اور مورخ کے اس
خوبصورت جملے کونقل کیا گیا ہے کہ ’آپ کو اس سچائی کا ادراک ہوناچاہئے کہ جب سے یہ
دنیا معرض وجود میں آئی ہے،وحشی نسلوں کو چھوڑ کر دنیا پر کتابوں نے ہی حکمرانی کی
ہے۔ بلاشبہ کتابوں کی حکمرانی سے کوئی بھی ذی شعور شخص انکار نہیں کرسکتا لیکن
سوشل میڈیا نے تعلیم یافتہ افراد کے بڑے طبقے کوبھی کتب بینی سے بڑی حد تک محروم
کردیا ہے۔ لہٰذا راقم الحروف نے سوچا کہ کیوں نہ ا س بار غیر سیاسی کالم لکھ کر
ترغیب کتب بینی کی تحریک کا حصہ بنا جائے۔ اس کے لئے میں فی الحال مولاناروم کی
مثنوی کا ایک باب نذر قارئین کرنا چاہتا ہوں۔ حسن نثار کے بقول مولانا روم کی
مثنوی نے اہل مغرب کو حیرت زدہ کردیا۔
مولانا روم ’حکایت حضرت
پیر چنگی‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک شخص
خوش الحان چنگ بجایا کرتا تھا۔ اس کی آواز پر مرد عورت بچے سبھی قربان تھے۔ اگر
کبھی مست ہوکر گاتا ہوا جنگل سے گزر جاتا تو چرند پرند اس کی آواز سننے کے لئے جمع
ہوجاتے۔ جب یہ بوڑھا اور پیری کے سبب آواز بھدی ہوگئی تو عشاق آواز بھی رفتہ رفتہ
کنارہ کش ہوگئے۔ اب جدھر سے گزرتا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نام و شہرت سب رخصت
ہوگئے اور ویرانہ گمنامی میں مثل بوم ٹکرانے لگا اور فاقے پر فاقے گزرنے لگے۔ خلق
کی اس خود فرضی کو سوچ کر ایک دن بہت مغموم ہوا اور دل میں کہنے لگا کہ اے خدا جب
میں خوش الحان تھاتو مخلوق مجھ پر پروانہ وار کرتی تھی۔ اب بڑھاپے سے آواز خراب
ہوگئی تو یہ ہوا پرست میرے سائے سے بھی گریزاں ہوگئے۔ ہائے ایسی بے وفا مخلوق سے
میں نے دل لگایا۔ آپ کی طرف رجوع ہوا ہوتا، اپنے شب و روز آپ ہی کی یادمیں گزارتا
اور آپ سے امیدیں رکھتا تو آج یہ دن نہ دیکھتا۔ پیرچنگی دل ہی دل میں نادم ہورہا
تھا اورآنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے کہ اچانک جذب غیبی نے اس کے دل کو اپنی طرف
کھینچ لیا۔ پیر چنگی نے آہ کھینچی اور خلق سے منہ موڑ کر مدینہ منورہ کے قبرستان
کی طرف روانہ ہوگیا اور ایک پرانی وشکستہ قبر کے غار میں جا بیٹھا۔اس نے رو رو کر
فریاد کی کہ اے اللہ آج میں تیرا مہمان ہوں۔ جب ساری مخلوق نے مجھے چھوڑ دیا تو اب
بجز تیری بارگاہ کے میرے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں۔ بجز تیرے کوئی میری اس آواز کا
خریدار نہیں۔ اے اللہ میں بڑی امید یں لے کر تیری بارگاہ میں حاضر ہواہوں۔اپنی
رحمت سے مجھے نہ ٹھکرانا۔
مولانا روم کہتے ہیں کہ
پیر چنگی آہ زاری میں مشغول تھا اور آنکھوں سے خون دل بہہ رہا تھا کہ خالق کائنات
کا دریائے رحمت جوش میں آگیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو الہام ہوا کہ اے عمر
میرا فلاں بندہ جو اپنی خوش آوازی کے سبب زندگی بھر مخلوق میں محبوب ومقبول رہا اب
بوجہ پیری خلقت نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ اس کا غم اس کی ہدایت اور میری طرف رجوع کا
سبب بن گیا ہے۔ اگر چہ زندگی بھر وہ نافرمان و غافل رہا لیکن میں اس کی آہ وزاری
کو قبول کرتا ہوں۔ کیونکہ میری بارگاہ کے علاوہ میرے بندوں کے لیے کوئی اورجائے
پناہ نہیں۔ اے عمر آپ بیت المال سے کچھ رقم لے کر قبرستان میں جائیے اور میرے بندہ
عاجز و مضطرکو میرا سلام پیش کیجئے۔ پھر یہ رقم پیش کرکے کہہ دیجئے کہ اللہ نے
تجھے اپنا مغرب بندہ بنا لیا ہے اور اپنے فضل کو تیرے لیے خاص کردیا ہے۔ اب تجھے
ملول خاطر ہونے اور مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے اس بندے
سے کہہ دیجئے کہ اللہ نے غیب سے ہمیشہ کے لئے تیری روزی کا اانتظام کردیاہے۔
مولانا روم کہتے ہیں کہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جس وقت ہاتف غیبی سے یہ آواز سنی تو بے چین ہو گئے۔فوراً
اٹھے اور بیت المال سے کچھ رقم لے کر قبرستان کی طرف چل دیئے۔ ہاں دیکھتے ہیں کہ
ایک شکستہ قبر کے غار میں ایک بڈھا چنگ لیے ہوئے سوگیا اور اس کا چہرہ اورداڑھی
آنسوؤں سے ترہیں۔ مولانا روم کے مطابق:
پیر چنگی کے بود خاص خدا
حُبدا اے سز پنہا حبدا
چنگ بجانے والا بڈھا کب
خاص اور مقبول ہوسکتا ہے۔ مبارک ہو راز پنہاں مبارک ہو۔ مولانا کہتے ہیں کہ خلیفہ
وقت نے اس بڈھے کو جگانا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ اس کے بیدار ہونے کا انتظار کرنے
لگے۔ لیکن اسی اثنا میں انہیں چھینک آگئی جس سے وہ کانپنے لگا کہ اس چنگ کی وجہ سے
مجھ پر نہ جانے کتنے درے پڑیں گے۔حضرت عمر نے جب دیکھا کہ وہ لرزہ براندام ہے تو
ارشاد فرمایا کہ خوف مت کرو میں رب کی طرف سے تمہارے لیے بہت بڑی خوش خبری لایا
ہوں۔ جب ان کی زبان سے پیر چنگی کو اللہ تعالیٰ کے الطاف وعنایات کاعلم ہوا تو اس
پر شکر و ندامت کا حال طاری ہوگیا۔ اس نے اپنی غفلت اور اللہ رحمت کا خیال کرکے
ایک چیخ ماری او رکہا کہ اے میرے آقائے بے نظیر اپنی نالائقی اور غفلت کے باوجود
آپ کی رحمت بے مثال کو دیکھ کر میں شرم سے پانی پانی ہورہا ہوں۔ جب وہ خوب روچکا
تو اس نے اپنے چنگ کو غصے سے زمین پر پٹک کرریزہ ریزہ کردیا اور اس کو مخاطب کرکے
کہا کہ تونے ہی مجھے اللہ کی محبت و رحمت سے محجوب رکھا تھا۔ تونے شاہراہ حق سے
میری رہزنی کی تھی۔ تونے ہی ستر سال تک میرا خون پیا۔ تیرے ہی سبب میں لہو و لعب
اور نافرمانی میں بوڑھا ہوگیا۔ تیرے ہی سبب میرا چہرہ اللہ کے سامنے سیاہ ہے۔ اسے
دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا اور آپ کی آنکھیں اشکبار
ہورہی تھیں۔ آپ نے فرمایا اے شخص تیری یہ گریہ وزاری تیری باطنی ہوشیاری کی دلیل
ہے۔ تیری جان اللہ کے قرب سے زندہ اور روشن ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں گناہ گار کے آنسوؤں
کی بڑی قیمت ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ سوشل میڈیا پراپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے
کتاب خوانی کو اپنا شوق بنائیے۔کیا پتہ کون سی کتاب آپ کے قلب و روح کی تازگی کا
سبب بن جائے۔
(بحوالہ: معارف مثنوی، شرح مثنوی مولانا روم اردو، مترجم مولانا
حکیم محمد اختر)
20 اکتوبر،2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism