کنیز فاطمہ ، نیو ایج
اسلام
25 اگست 2022
نکاح محض انسانی خواہشات
کی تکمیل کا ذریعہ نہیں بلکہ
من وجہ عبادت بھی ہے
· نکاح کو اسلام میں
بڑی اہمیت حاصل ہے خود حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح کیا اور
اپنے ماننے والوں کو اس کی تعلیم دی۔
· نکاح سے انسانی
اذہان و قلوب کا تزکیہ اور تقوی و طہارت
کا حصول ہوتا ہے ۔
· یہ ذہن نشین کرنا
انتہائی ضروری ہے کہ نکاح محض انسانی
خواہشات کی تکمیل و تسکین کا ذریعہ نہیں
ہے بلکہ اللہ تعالی نے نکاح کو عبادت کا درجہ دیا ۔
· جو لوگ نکاح کو
برا سمجھتے ہیں یا جو نکاح کو صرف جنسی خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں،
وہ دوسروں کی پاکیزہ ازدواجی زندگی کو بھی اسی نظریہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ یہ ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ انہیں ایسی فکر در اصل بے شمار برائیوں اور ناجائز طریقوں کی اتباع کرنے سے حاصل ہوئی ہے ۔
۔۔۔
لفظ نکاح باب نَکحَ
یَنْکِحُ سے مصدر ہے، جس کے معنی ‘‘جماع کرنا اور شادی کرنا’’ مستعمل ہے ۔
اِسْتَنْکَحَ (استفعال) ” شادی کرنا“۔ اٰنکَحَ (افعال) ” شادی کرانا“۔ تَنَاکَحَ
(تفاعل) ”ایک دوسرے سے شادی کرنا“۔ عربی اور اردو زبان میں نکاح کا لفظ رائج ہے
جبکہ اردو میں نکاح کے مترادف الفاظ شادی ، بیاہ بھی رائج ہیں۔ انگریزی زبان میں
اس کے لیے marriage کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
نکاح کو اسلام میں بڑی
اہمیت حاصل ہے خود حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح کیا اور اپنے
ماننے والوں کو اس کی تعلیم دی۔ نکاح انسان کو متعدد برائیوں سے بچاتا ہے ۔صحیحین
کی احادیث سے ثابت ہے کہ اعمال صالحہ کرنے سے ایمان کامل و مضبوط ہوتا ہے اور نکاح
اعمال صالحہ کا ذریعہ ہوتا ہے ، لہذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نکاح بھی ایمان کے
کامل و مضبوط ہونے کا ذریعہ ہے ۔
نکاح عفت و پاکیزگی کو برقرار رکھنے اور بری نگاہوں
سے محفوظ رکھنے میں معاون ہوتا ہے ۔ نکاح سے انسانی اذہان و قلوب کا تزکیہ اور تقوی و طہارت کا حصول ہوتا ہے ۔ نکاح کے واسطے سے مرد و عورت کے درمیان ایک ایسے
رشتہ کا جواز ملتا ہے جو ایک دوسرے کے لیے نہ صرف تسکین قلب اور فرحت و
انبساط کا باعث ہوتا ہے بلکہ دونوں کو ایک دوسرے
کے احساسات و جذبات کو قریب سے سمجھنے کا
موقع بھی ملتا ہے پھر وہ دونوں ایک دوسرے کے ہمراز ہو کر در پیش فکری ، ذہنی ، دنیاوی اور نفسیاتی مشکلات کو حل کرنے میں ایک دوسرے
کے معاون بھی بن جاتے ہیں۔
غرضیکہ نکاح اللہ رب
العزت کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے جس کی اہمیت و فضیلت کا ادراک کرنا ایک خوشگوار
اور کامیاب ازدواجی زندگی کے لیے نہایت ہی
ضروری ہے ۔
آج ہمارے معاشرے میں
نکاح کی فضیلت و اہمیت کا اندازہ بہت کم
لوگوں کو ہے ۔جب تک ہمارے معاشرے میں اس نعمت عظمی کے فوائد کا صحیح اندازہ نہ
لگالیا جائے ، اس وقت تک صحیح معنوں میں ایک کامیاب اور خوشگوار ازدواجی زندگی کا
تصور ممکن نہیں ۔ ہمارا معاشرہ تعلیم و تعلم میں حاشیہ پر ہے اور ہماری اکثریت
نکاح کے حقیقی فوائد وثمرات کو شعور و
آگہی میں لانے سے قاصر ہے۔ ہمارا عمومی مزاج
نکاح کے تعلق سے یہ ذہن دیتا ہے کہ نکاح کا مطلب فقط یہ ہے کہ ایک عورت کا ایک مرد کے ساتھ عقد
ہو جائے ، چند لوگوں کو مدعو کرکے کھانا کھلا دیا جائے ، تحائف اور مبارکبادیاں لے
دیکر عورت کو اس کے سسرال کی طرف رخصت کر
دیا جائے ۔بس اتنی بات عوام میں عام ہے لیکن
اسلام نے نکاح کا ایک عظیم تصور پیش کیا ہے جس سے تقریبا ہر کس و ناکس غافل و لاشعور ہے ۔یہ
تصور یقینا عظیم ہے
کیونکہ نکاح دین و دنیا کی بے شمار
نعمتوں اور خاص طور پر تقرب الہی کے حصول کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صالح اور
مہذب معاشرہ کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا
کرتا ہے ۔
یہ ذہن نشین کرنا انتہائی
ضروری ہے کہ نکاح محض انسانی خواہشات کی
تکمیل و تسکین کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اللہ
تعالی نے نکاح کو عبادت کا درجہ دیا ۔اسلام سے قبل بھی اللہ تعالی نے تمام مذاہب میں نکاح کو حلال قرار دیا ۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی
نکاح کے لیے اپنے بندوں کو ترغیب دی ۔قرآن و سنت میں کئی مواقع پر نکاح کے فضائل
و فوائد بیان ہوئے ہیں جن میں بعض کا تذکرہ یہاں کر رہے ہیں۔
نکاح سنت انبیا ہے
نکاح انبیاء کرام کی بھی
سنت ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : ”وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا
رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً“ (اے محمد
صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے آپ سے پہلے یقینا رسول بھیجے اورانہیں بیویوں اور اولاد
سے بھی نوازا۔(الرعد: ۳۸)
قرآن مجید کی اس
آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام
بھی صاحبِ اہل وعیال رہے ہیں۔
حضرت ابو ایوب رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: چار چیزیں انبیاء کرام (علیہم السلام) کی سنت میں سے
ہیں: (۱) حیاء
، (۲) خوشبو
لگانا، (۳) مسواک
کرنا اور (۴) نکاح‘‘۔ (ترمذی، ج:۱،ص:۲۰۶)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا جیساکہ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: ”النکاح من
سنّتی“ نکاح کرنا میری سنت ہے۔(بخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح)
ایک دوسری حدیث میں نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو نصف ایمان بھی قرار دیا ہے: ’’ِاذَا تَزَوَّجَ
الْعَبْدُ اِسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ فَلْیَتَّقِ فِیْ النِّصْفِ الْبَاقِیْ“
یعنی جو کوئی نکاح کرتاہے تو وہ آدھا
ایمان مکمل کرلیتاہے اور باقی آدھے دین میں اللہ سے ڈرتا رہے۔(مشکوٰة المصابیح
کتاب النکاح)
نکاح سے ایک انسان کو
قلبی سکون و اطمینان بلکہ ہر طرح کا سکون
میسر ہوتا ہے ۔ اس حقیقت کی نشاندہی خود قرآن مجید نے بہت پیارے انداز میں کیا ہے ۔اللہ تعالی کا
ارشاد ہے : ”ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا
زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا“ یعنی
‘‘وہی اللہ ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اسی کی جنس سے اس
کا جوڑا بنادیا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے’’(اعراف:۱۸۹)
اس آیت سے اس بات کی طرف
اشارہ ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے عورت کو
مرد کے لیے ایک انمول تحفہ اور باعث سکون
بنایا ہے ، لہذا جو مرد اللہ تعالی کے اس تحفہ کی قدر و منزلت کا خیال رکھتا ہے وہ
کامیاب اور پرسکون زندگی گزارتا ہے اور
اللہ تعالی کا شکر گزار بندہ بن جاتا ہے ۔ اس انمول تحفہ کو حاصل کرنے کا ذریعہ نکاح
ہے ، لہذا جو شخص نکاح سے منھ موڑنے کی کوشش کرے تو اسے برے نتائج کا سامنا کرنا
پڑ سکتا ہے اور پھر اس کے سارے نظام کے درہم برہم ہونے کا امکان ہو
سکتا ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کا ارشاد ہے: ’’من أحب فطرتی فلیستن
بسنتی ومن سنتی النکاح ‘‘
ترجمہ:…’’جو میری فطرت سے
محبت رکھتا ہے، وہ میری سنت پر عمل کرے اور میری سنت میں سے نکاح بھی ہے‘‘۔۔(مجمع
الزوائد،ج:۴،
ص: ۳۲۷ )
حضرت ابن مسعود رضی اللہ
عنہ کا ارشاد ہے:’’اگر میری زندگی کے صرف دس روز رہ جائیں، تب بھی میں شادی کرلینا
پسند کروں گا، تاکہ غیر شادی شدہ حالت میں خدا کو منہ نہ دکھاؤں‘‘۔(تحفۃ العروس)
حضرت ابن عباس رضی اللہ
عنہما فرماتے ہیں:’’نکاح کرلو، کیونکہ ازدواجی زندگی کا ایک دن غیر شادی شدہ زندگی
کے اتنے اتنے برسوں کی عبادت سے بہتر ہوتا ہے‘‘۔ (تحفۃ العروس)
حضرت آدم علیہ السلام کے
زمانے سے لیکر آج تک ہر دور میں نکاح کی
اہمیت کو لوگ تسلیم کرتے آئے ہیں۔ تاریخ
کے اوراق شاہد ہیں کہ نکاح سے مستثنیٰ کبھی کوئی قوم، مذہب اور ملت نہیں رہے
ہیں۔ہر مذہب وملت میں نکاح یا ان کے مقررہ مراسم اور رواجات کے بغیر، مرد و عورت
کے درمیان تعلقات کو برے اخلاق سے تعبیر
کیا گیا ہے ، یعنی بغیر شادی کے مرد و عورت کے درمیان تعلقات کو برا سمجھا جاتا
رہا ہے ۔ اگرچہ ہر مذہب وملت میں نکاح کے طور طریقے اور رسم و رواج الگ الگ رہے
ہیں مگر شادی کی اہمیت پر سب متفق رہے ہیں۔
مگر عصر حاضر میں چند
لوگوں نے شادی کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔کچھ تو ایسے بھی ہیں جو
رہبانیت کا شکار ہوکر شادی بیاہ کو روحانی اور اخلاقی ترقی میں رکاوٹ کا ذریعہ
مانتے ہیں ۔کچھ تو ایسے ہیں جو سنیاس لینے یعنی شادی نہ کرنے کو زندگی کا اعلی
ترین مقصد مانتے ہیں ۔ لیکن در حقیقت یہ نظریات و افکار فطرت انسانی کے خلاف ہونے
کے ساتھ ساتھ نظام قدرت کے بھی خلاف ہیں۔اس بات کا ثبوت ہر کس و ناکس کے ذہن میں
مرتب ہو سکتا ہے کہ جو لوگ شادی کرنے کو غلط فعل مانتے ہیں اور یہ دلیل دیتے ہیں کہ عورت سے ہمیشہ کے لیے دور رہنا روحانی ترقی کے
لیے ناگزیر ہے ، وہی لوگ عموما انسانی خواہشات اور فطری جذبات سے مغلوب ہو کر
متعدد قسم کی جنسی خرابیوں ، اخلاقی برائیوں اور خلاف فطرت کاموں میں ملوث نظر آئے ہیں اور پھر انہیں برے نتائج
کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے ۔
موجودہ دور میں کچھ لوگ
ایسے ہیں ، خاص طور پر مغربی افکار و نظریات سے متاثر افراد ، جو شادی کی ضرورت و
اہمیت کو تسلیم نہیں کرتے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ مانتے ہیں کہ انسان ہر طرح کی آزادی کا حق رکھتا ہے اور اسے
اپنی فطری جذبات وخواہشات کو پورا کرنے کے لیے شادی کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں
بغیر شادی کے بھی اپنے فطری جذبات کو جیسا
چاہے ویسا پورا کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
بعض تو ایسے ہیں جو شادی
بیاہ کا تصور رکھتے بھی ہیں تو ان کا مقصد صرف جنسی خواہشات کو پورا کرنا، موج
مستی کرنا اور ایک مقررہ وقت تک ایک دوسرے
کو استعمال کرکے ایک دوسرے سے جدا ہونا ہے ۔ ایسے لوگوں نے شادی بیاہ کو کھیل تماشہ
بنا کر رکھ دیا ہے۔بعض لوگوں نے گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کا ایسا کلچر بنا دیا
ہے کہ ایک طویل عمر تک انہیں غیر ازدواجی زندگی گزارنے میں کوئی دقت و پریشانی
نہیں ہوتی ۔ لیکن ان سب باتوں کی وجہ سے
خاندان او راقارب کی آپسی محبت اورایک
دوسرے کے تئیں عزت و منزلت ختم ہوتی جا
رہی ہیں۔والدین اور بچوں کے درمیان بھی تعلق ختم ہوتا جا رہا ہے ۔اس سنگین صورت
حال سے مغرب میں رہنے بسنے والے غیور اور سنجیدہ لوگ بھی پریشان ہیں اور ہر ممکن
کوشش کر رہے ہیں کہ کس طرح وہ اپنے سماج کو ان برائیوں سے محفوظ کریں۔
یہاں ایک نقطہ کی وضاحت
کرنا مقصود ہے کہ جو لوگ نکاح کو برا سمجھتے ہیں یا جو نکاح کو صرف جنسی خواہشات
کو پورا کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، وہ دوسروں کی پاکیزہ ازدواجی زندگی کو بھی اسی
نظریہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ یہ ادراک کرنے سے
قاصر ہیں کہ انہیں ایسی فکر در اصل بے شمار برائیوں اور ناجائز طریقوں کی اتباع کرنے سے حاصل ہوئی ہے ۔موجودہ برائیوں کو
دیکھنے ، سننے اور ان میں ملوث رہنے کی وجہ سے ان کا ذہن اتنا مریض ہو چکا ہے کہ
دوسروں کی پاکیزہ ازدواجی زندگی کو بھی مرض ماننے
سے نہیں شرماتے اور حتی کہ انبیائے کرام کی ازدواجی زندگی پر بھی طعن و
تشنیع کرتے نظر آتے ہیں ۔انہیں کیا معلوم
کہ ازدواجی زندگی صرف جنسی خواہشات
کی تکمیل کے لیے ہی نہیں ہوتی بلکہ بسا
اوقات نیک مقاصد کے لیے بھی گزاری جاتی ہے ۔جب تک ایسے لوگ نکاح کی پاکیزگی اور
اہمیت و ضرورت کو نہیں سمجھیں گے ، ان سے ایسی فکروں کا صدور کوئی تعجب کی بات
نہیں ۔
۔۔۔
کنیز فاطمہ نیو ایج اسلام
کی مستقل کالم نگار اور عالمہ و فاضلہ ہیں۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism