New Age Islam
Thu Apr 17 2025, 07:37 PM

Urdu Section ( 26 Oct 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Contacting With Other Nations: A Compulsion of the Modern Era دوسری قوموں سے رابطہ دور جدید کی مجبوری

 مفتی محمد اطہر شمسی

23 اکتوبر،2022

آپ فلاں کمیونٹی کا بائیکاٹ کیجیے ، وہ کمزور ہو جائیں گے، فلاں فرقہ سے تعلق ختم کر دیجئے ، وہ ختم ہو جائیں گے‘‘ اس طرح کے نعرے ہمیشہ خود اس طبقہ کے لیے مضر ہوتے ہیں ، جس کی جانب سے یہ نعرے لگائے جاتے ہیں ۔اکیسویں صدی گلوبلائزیشن کی صدی ہے ۔یہ دور ایک دوسرے کو سمجھنے ، باہم مربوط ہونے اور ایک دوسرے کو فائدہ پہنچانے و فائدہ اُٹھانے کا ہے۔اس دور میں جو قوم دوسروں کا بائیکاٹ کرنے کی قائل ہو وہ دنیا سے کٹ کر رہ جاتی ہے۔دوسری قوموں سے رابطہ موجودہ دور میں نہ صرف ضروری ہے بلکہ دور جدید کی مجبوری بھی ہے ۔سوال یہ نہیں ہے کہ یہاں آپ دوسروں سے اختلاط کریں یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے اگر آپ اختلاط نہ کریں تو زندہ بھی رہیں گے یا نہیں ۔گزشتہ دنوں ایک انگریزی روزنامہ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں بڑھتی انتہا پسندی کے اثرات امریکہ میں مقیم ہندوستانی مسلمانوں اور ہندوؤں کے تعلقات پر پڑ رہے ہیں ۔وہاں موجود ہندوستانی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔اس واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ دنیا ایک گلوبل ولیج بن کر رہ گئی ہے۔ یہاں دنیا کے کسی ایک حصہ میں پیشِ آنے والا واقعہ دنیا کے دوسرے حصوں کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا ۔ظاہر ہےکہ جہاں گلوبل اثرات کا حال یہ ہو کہ آپ کا ایک رویہ سات سمندر پار بسے ایک دوسرے ملک میں آپ کے مفادات اور ’کاز‘ پر اثر انداز ہوتا ہو ، وہاں یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ خود اپنے ہی ملک میں دوسرے طبقات کے ساتھ بائیکاٹ کی پالیسی اختیار کریں اور اس کے منفی نتائج آپ تک نہ پہنچ پائیں ؟

موجودہ دنیا میں تمام ترقیات مختلف قسم کے کلچرس کو دیکھنے ، برتنے اور سمجھنے کے نتیجہ میں وجود میں آتی ہیں۔الگ الگ قسم کے لوگوں، مختلف پس منظر رکھنے والے اہل علم و دانش، بزنس مین ، قائدین اور عوام و خواص سے ملنے جلنے کے نتیجہ میں انسان کا ذہنی ارتقاء ہوتا ہے ۔اسے اپنی ترقی کے لیے وہ ’آئیڈیاز‘ ملتے ہیں جن سے وہ اب تک محروم تھا ۔اسے اپنی قوم کی خوشحالی کی نئی نئی تدبیریں سوجھتی ہیں ۔سر سید احمد خاں نے قوم کو ایک نئی راہ دکھائی ۔ملت کو فیصلہ کن تباہی سے بچانے کے لیے ان کا ذہنی افق بے پناہ وسیع ہوا، اس میں بہت بڑا دخل اس بات کا تھا کہ سر سید احمد خاں اپنے بچپن سے ہی مختلف النوع کلچرس سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملتے جلتے اور ان سے سیکھتے رہے ۔اپنے بچپن میں اُنھوں نےشاہی دربار کا مغلیہ کلچر دیکھا۔اسی دوران شاہی دربار میں بنگالی کلچر سے تعلق رکھنے والے راجہ رام موہن رائے کو دیکھا ۔جو کہ مختلف زبانیں جاننے والے والے ایک روشن خیال مصلح تھے ۔آگے چل کر انھوں نے انگریزوں کو نہایت قریب سے دیکھا ۔یہاں تک کہ انگریزوں کے علمی ورثہ، فکری روایتوں اور ان  کے کلچر کو مزید قریب سے دیکھنے کے لیے اُنھوں نے انگلینڈ کا سفر کیا ۔سر سید احمد خاں کو حاصل ہوئے تجربات  نے ان کے ذہن رسا کو ایک ذہنی طوفان سے دوچار کر دیا۔اسی ذہنی طوفان کا نتیجہ بالآخر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور سرسید احمد خاں کے دیگر کارناموں کی صورت میں ظاہر ہوا ۔سوال یہ ہے کہ سرسید احمد خاں کو اگر یہ مختلف النوع تجربات حاصل نہ ہوئے ہوتے تو کیا محض قومی و ملی درد کے نتیجہ میں وہ ملت کو ایک نئی راہ دکھا سکتے تھے ؟ سر سید احمد خاں کو اگر یہ’ ایکسپوژر‘ نہ ملا ہوتا تو کیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی وجود میں آ سکتی تھی ؟

 جو لوگ ملت کی قیادت اور انسانیت کی رہنمائی کے لیے کچھ کر ڈالنے کا جذبہ اپنے سینہ میں رکھتے ہوں۔ نیز وہ لوگ جو اس دنیا میں کوئی بڑی حصوليابی اپنے نام کرنے کے خواہاں ہوں، ایسے تمام لوگوں کے لیےتاریخ کےاس عظیم واقعہ میں بڑا سبق ہے۔ایسے لوگوں پر فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ وہ مختلف الخیال لوگوں سے ملیں، الگ الگ تہذیب و ثقافت   کےپس منظر والے افراد اور اداروں کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ جو لوگ خود کو ایک خاص کمیونٹی تک محدود رکھتے ہیں، ایسے لوگ دور جدید میں انسانیت یا ملت کی قیادت تو چھوڑ دیجیے، اپنے ایک محدود سے حلقہ کی درست رہنمائی بھی نہیں کر سکتے ۔اپنی کمیونٹی تک محدود رہنے والے لوگ ملکی بساط کے حاشیوں پر ضرور جگہ پا سکتے ہیں، تاہم انسانیت کی قیادت کے عظیم منصب سے ہمیشہ دور رہیں گے۔ میں ایسے بہت سے قائدین ملت سے ذاتی طور پر واقف ہوں جن کو کبھی اپنے طبقہ سے باہر جھانکنے کا موقع نہیں ملتا ۔ظاہر ہے کہ محدود دائرہ کے حامل لوگ لا محدود دنیا میں خود اپنی ملت کو کہاں لے کر جائیں گے ،اس کا محض اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے ۔

ترقی کا سب سے بڑا سرچشمہ افکار و خیالات ہوتے ہیں ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھی ایک آئیڈیا ہی تو تھی جو سرسید احمد خاں کے ذہن کی پیداوار تھا ۔موجودہ زمانہ میں سیکولر ازم ،جمہوریت وغیرہ بالآخر آئیڈیاز ہی ہیں جنھوں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔بدلتی ٹکنالوجی دراصل نئے نئے آئیڈیاز کا نام ہےجس کے نتیجہ میں دنیا روزانہ خدا کی تازہ بتازہ رحمتوں کا تجربہ کر رہی ہے ۔دنیا کی ہر ایجاد اپنے آغاز میں آئیڈیا ہی ہوا کرتی ہے ۔تبلیغی جماعت ، جمعیت علماء ہند،  یہاں تک کہ آر ایس ایس اپنے آغاز میں آئیڈیاز ہی تو تھے جنھوں نے آج تمام دنیا کو متاثر کیا ہے۔ ہر مسلک ، فرقہ ، مذہب، طبقہ اور کلچر کے لوگوں سے ملتے رہنے اور انھیں سمجھنے کی کوششوں کا سب سے خوش گوار نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کو نئے آئیڈیاز ملتے رہتے ہیں اور ان کا ذہن تر و تازہ رہتا ہے ۔ایسے ہی لوگ اپنی قوم کے لئے بھی نئی نئی راہیں تلاش کرتے ہیں اور خود ذاتی طور پر ترقی، خوش حالی اور شہرت کے بام عروج کو بھی پہنچتے ہیں۔اس کے برعکس جو افراد یا اقوام اپنے دائرے میں سمٹ کر رہ جائیں ایسے لوگ نئے نئے آئیڈیاز سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ایسے افراد اور اقوام اپنے مستقبل کی تعمیر کے لیے نئے راستے تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ایسے لوگوں کا ذہن اس کمرہ کی مانند ہوتا ہے جس میں نہ کوئی کھڑکی ہو نہ دروازہ اور وہ تازہ ہوا و دھوپ سے محروم رہے ۔اپنے فرقہ میں سمٹ جانے والے لوگ فکر و خیال کی تازہ ہوا سے محروم رہتے ہیں ۔قوم کا ہر با شعور فرد جو ملت کے مسائل کو حل کرنے میں یا خود اپنی ذاتی ترقی میں دلچسپی رکھتا ہو ، اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے تعلقات میں تنوع اختیار کرے ۔ہر قسم کے لوگوں سے میل جول رکھے۔ ہرقسم کے مصنفین ، مفکرین اور فلسفیوں کو پڑھے اور ہر طرح کی کتابوں کا مطالعہ کرے ۔اپنی محدود دنیا سے باہر آئے اور ملک و قوم کو آگے لے جانے میں اپنا رول ادا کرے۔خاص طور پر قوم کی رہنمائی کرنے والے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ دینی مضامین پر دسترس رکھنے کے علاوہ بدلتی دنیا کا بھی گہرا شعور رکھیں ۔جو لوگ سیاسی میدان میں قوم کی رہنمائی کرنے کے خواہاں ہوں ،ان پر لازم ہے کہ وہ اقتصادیات کی گہری فہم حاصل کریں ۔دور جدید میں اقتصادیات کو سمجھے بغیر سیاست کی سمجھ حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ اب ہمیں اپنے میں سمٹے رہنے کی پالیسی کو چھوڑ کر ہر قسم کے تنوع کی طرف  بڑھنا ہوگا۔بائیکاٹ یاعلیحدگی پسندی کی پالیسی دراصل خود اپنے بائیکاٹ کی پالیسی ہے ۔

23اکتوبر،2022، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/nations-compulsion-modern-era/d/128270

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..