New Age Islam
Mon Jun 16 2025, 08:04 AM

Urdu Section ( 7 Oct 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

How Nationalist Were the Indian Ulama? ہندوستانی علماء کتنے قوم پرست تھے؟

ارشد عالم، نیو ایج اسلام

 23 ستمبر 2022

 انہوں نے مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی علیحدگی پسندی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔

 اہم نکات:

1.      فضل حق خیرآبادی اور شاہ عبدالعزیز جیسے علماء انگریز مخالف نہیں تھے بلکہ ان کے ساتھ تعاون کرتے تھے اور ان کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھتے تھے۔

2.      جیسا کہ یہ سمجھا جاتا ہے، اس کے بر عکس قاسم نانوتوی اور رشید گنگوہی جیسے بانی دارالعلوم دیوبندیوں نے 1857 کی بغاوت میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

3.      1920 کی دہائی میں علما انگریز مخالف ہو گئے اور اسی لیے انہوں نے خلافت کانفرنس قائم کی۔

4.      انہوں نے کانگریس سے ہاتھ ملایا اور مسلم لیگ کی دو قومی پالیسی کے برخلاف ایک قومی پالیسی کی وکالت کی۔

5.      تاہم، وہ مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی علیحدگی کی وکالت کرتے رہے، جس نے بالآخر پاکستان کے تصور کو تقویت دی۔

 -----

 عصر حاضر کے ہندوستانی علماء کو دنیا کو یہ یاد دلانے کا بے حد شوق ہے کہ انہوں نے ملک کی آزادی کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ جمعیت علمائے ہند جیسی دیوبندی تنظیموں نے جنگ آزادی میں اپنے کردار کو اجاگر کرنے کے لیے کانفرنسیں بھی منعقد کی ہیں۔ خاص طور پر، وہ تحریک خلافت کے کردار کو اجاگر کرتے ہیں اور دنیا کو یہ باور کراتے ہیں کہ کس طرح ہم نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو کانگریس پارٹی کی مدد سے ایک ہی چھت کے نیچے جمع کیا۔ وہ یہ بتاتے ہیں، جو کہ بالکل حق ہے کہ ایک دیوبندی عالم حسین احمد مدنی نے مسلم لیگ کے تجویز کردہ دو قومی نظریہ کی مخالفت میں جامع قوم پرستی کی تشکیل کا فارمولا پیش کیا تھا۔

 بریلویوں کا کہنا ہے کہ ملک کے لیے ان کی قربانیاں اور بھی زیادہ ہیں۔ وہ 1857 کی پہلی جنگ آزادی میں علماء کے مرکزی کردار کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ خاص طور پر وہ فضل حق خیرآبادی کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ 1857 میں ان کی انگریز مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے ہی انہیں انڈمان میں سزائے عمر قید کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔ ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ شاہ عبدالعزیز نے ہی اپنے مشہور فتویٰ میں اعلان کیا تھا کہ ہندوستان دارالحرب بن گیا ہے، جس کی بنیاد پر اب یہ تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ انگریزوں کے خلاف مزاحمت کریں۔

لیکن کیا اس طرح کے دعووں کو زمینی حقائق کی تائید حاصل ہے یا تمام باتیں محض بیان بازیاں ہیں؟ آئیے سب سے پہلے شاہ عبدالعزیز کے اس فتویٰ پر آتے ہیں جس کا حوالہ اکثر پیش کیا جاتا ہیں۔ فتویٰ میں یقیناً یہ بات کہی گئی ہے کہ ہندوستان اب دارالاسلام نہیں رہا کیونکہ اب اس پر انگریزوں کی حکومت اور ان کا تسلط ہے۔ اس کے باوجود فتویٰ میں کہیں بھی عبدالعزیز نے نہیں کہا ہے کہ مسلمانوں کو اب انگریزوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لینا چاہیے یا کسی اور طریقے سے ان کہی مزاحمت کرنا چاہئے۔ درحقیقت فتویٰ کی حقیقت کو اس سوال کے پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے جس پر مذکورہ فتویٰ کی درخواست کی گئی تھی۔ سوال یہ تھا کہ اگر ہندوستان دارالحرب بن چکا ہے تو کیا اب مسلمانوں کو سود کھانے کی اجازت ہے؟ سوال کرنے والے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ مسلمان انگریزوں کے خلاف ہتھیار اٹھائیں یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ کیا وہ نئی سیاسی صورتحال سے مالی طور پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ عبدالعزیز نے کم از کم ایک دوسرے فتوے میں کہا تھا کہ اگر مسلمان دارالحرب میں رہ رہے ہوں تو ان کے لیے سود کھانے کی اجازت ہے۔ برطانوی حکومت کے خلاف ہونے کے بجائے، اس فتویٰ میں شاہ عبدالعزیز ایک عملی عالم کے طور پر نظر آتے ہیں، جو مسلمانوں کی بدلی ہوئی سیاسی حالت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ زندگی بھر انہوں نے انگریزوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھے، ان میں سے کچھ حضرات ان کے گھر بھی آتے اور مذہبی مسائل پر ان سے بحث کرتے۔ ان کے بعض فتاویٰ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر مسلمان نئے آقاؤں یعنی انگریزوں کے ماتحت کام کریں تو اس میں ان کے مذہب کا کوئی نقصان نہیں ہے۔

فضل حق خیرآبادی کو انڈمان میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ لیکن ان کی "1857 میں برطانوی مخالف سرگرمیوں" پر روشنی ڈالنے کے باوجود، یہ ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے کہ انہوں نے واقعی بغاوت میں حصہ لیا تھا۔ درحقیقت وہ اپنے والد کی طرح طویل عرصے تک ایسٹ انڈیا کمپنی کی عدلیہ میں خدمت پر مامور رہے۔ لکھنؤ میں چیف جوڈیشل آفیسر کی حیثیت سے انہوں نے یہ فتویٰ بھی دیا کہ مسلمانوں کو بغاوت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ اقلیت میں ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ 1857 کی بغاوت کے دوران دہلی چلے گئے تھے، لیکن جیسا کہ وہ خود اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے، وہ صرف مغل حکمران کو یہ بتانے کے لیے دہلی گئے تھے کہ بغاوت روک دی جائے۔ اس کے باوجود انہیں سزا سنائی گئی لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ غلط شناخت کا معاملہ ہو یا ہو سکتا ہے کہ وہ بھی ان بے گناہوں میں سے ایک رہے ہوں جو اس دوران برطانوی عتاب کا شکار بن رہے تھے۔ بہر حال، دستیاب شواہد سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ 1857 کی بغاوت میں انگریزوں کے خلاف سرگرم تھے۔ ان کی شہرت ان کی انگریز مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے سزا یافتہ ہونے اور انڈمان بھیجے جانے کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔

کشمیری دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے مؤرخ مشیر الحق نے حتمی طور پر ثابت کیا کہ مدرسہ دیوبند کے بانی قاسم نانوتوی اور رشید احمد گنگوہی نے 1857 کی بغاوت میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ رشید احمد کو چھ ماہ تک قید میں رکھا گیا لیکن بعد میں رہا کیا گیا کیونکہ برطانویوں کو ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ ان کے روحانی پیشوا امداد اللہ مکی، مکہ چلے گئے اور بالآخر وہیں سکونت پذیر ہو گئے کیونکہ انہیں 1857 کی بغاوت کے نتیجے میں انگریزوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے کا خدشہ تھا۔ تاہم، یہ بغاوت میں اصل میں ملوث ہونے کے بجائے، ایک خاص خیال کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ درحقیقت، ان کی 1857 سے پہلے کی زندگی کافی مبہم رہی ہے، اور اس بات کا کوئی ثبوت بھی نہیں ملتا کہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف سیاسی طور پر سرگرم تھے۔ اور حد تو یہ ہے کہ آرکائیوز میں دستیاب ریکارڈز میں ان میں سے کسی ایک کا بھی نام نہیں ملتا جو 1857 کی بغاوت میں سرگرم تھے۔

1920 کے عشرے میں خلافت تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی علماء شاید پہلی بار سیاسی عمل کا حصہ بنے۔ یہ وہ وقت تھا جب علماء ایک طبقے کے طور پر ابھرے، اور قوم مسلم کے رہنما ہونے کا ایک شعور پیدا کیا۔ مؤرخ گیل مینالٹ کا کہنا ہے کہ تحریک خلافت کے ذریعے، علمائے کرام طویل عرصے تک چلنے والے نیٹ ورکس بنانے میں کامیاب ہوئے، جسے وہ تحریک ختم ہونے کے بعد استعمال کر سکتے تھے۔ گاندھی کی بدولت علمائے کرام کو معاشرے میں ایک نیا اور منفرد جواز ملا، جو پہلے ان کے پاس نہیں تھا۔ گاندھی ہی کی بدولت ہندو انگریزوں کا بائیکاٹ کر رہے تھے، جبکہ مسلمانوں سے توقع تھی کہ وہ خلافت کی بحالی کے لیے مہم چلائیں گے۔

جب تک علمائے کرام قومی تحریک میں شامل ہوئے، انگریزوں کے بارے میں ان کا تصور بدل چکا تھا۔ وہ انگریزوں کی حکومت کو ایک بری بادشاہت سمجھنے لگے جس کے تحت مسلمان شریعت کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتے تھے۔ بلاشبہ، علمائے کرام نے قومی تحریک میں شمولیت اختیار کی، لیکن ہمیں یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کانگریس کی زیر قیادت مہمات میں حصہ لیتے اور جامع قوم پرستی کی وکالت کرتے وقت ان کا نقطہ نظر کیا تھا۔ جامع قوم پرستی کے معمار حسین احمد مدنی نے خود تسلیم کیا کہ مذہب قوم سے زیادہ اہم ہے جب انہوں نے یہ کہا کہ "اسلام کا پرچم لہرانا ان کی سیاسی سرگرمی کا حتمی مقصد ہے"۔ گویا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت صرف اس وقت تک ہے جب تک کہ انگریز ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ یعنی جب وہ چلے جائیں گے، اس کے بعد ہم پھر مذہبی بالادستی کے لیے ہندوؤں کے ساتھ رسہ کشی کریں گے۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ یہ بات قوم پرستی کیسے ہو گئی؟ اور اگر شریعت کا تحفظ یا قیام ہی حتمی مقصد تھا تو قیام پاکستان سے یہ مقصد بہت اچھی طرح سے حاصل ہو سکتا تھا۔ یہ درست ہے کہ قوم پرست علماء نے پاکستان کی مخالفت کی، لیکن ان کی مخالفت اس وقت کے بہت سے قدآور مسلمانوں کو قائل نہیں کر رہی تھی، بشمول علماء کے ایک طبقہ کے۔

ایسا بھی لگتا ہے کہ ایک قومی نظریہ کے حامیوں کو اس بات کی واضح سمجھ نہیں تھی کہ ایک ہی قوم سے تعلق رکھنے کے دعووں کے ساتھ مذہبی تنوع کو کیسے متوازن کیا جائے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان واضح مذہبی اختلافات تھے۔ اس پر قابو پانے کا ایک طریقہ یہ ہوتا کہ دونوں برادریوں کے دیگر، زیادہ سیکولر یا ثقافتی پہلوؤں پر توجہ دی جائے اور دونوں کے درمیان مشترکات کو سامنے رکھا جائے۔ تاہم، قوم پرست علماء نے جو حکمت عملی اختیار کی وہ ہمیں بالکل اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہا کہ ہندو اور مسلمان مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ یہ بھی دلیل دی کہ ان کا تعلق دو بالکل مختلف ثقافتی روایات سے ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے ان مسلمانوں پر بھی تنقید کی جنہوں نے گاندھی ٹوپی پہننا شروع کر دی تھی۔ جمعیت کے لیے یہ اپنی تہذیبی روایت سے ہٹ جانے کی مثال تھی۔ ان میں سے اکثر نے حامد/ترک ٹوپی پہننے پر اصرار کیا۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جمعیت نے گاندھی کی بنیادی تعلیم کی اسکیم کی مخالفت کی تھی۔ ان کا استدلال تھا کہ عدم تشدد جیسے نظریات غیر اسلامی ہیں اور اس لیے مسلمان طلبہ پر انہی زبردستی نہیں تھوپا جانا چاہیے۔

واحد شخص جس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان وسیع تر غیر مذہبی یکجہتی کو فروغ دینے کی کوشش کی وہ مولانا آزاد تھے۔ لیکن اس مولانا کو جمہور علماء نے تسلیم نہیں کیا۔ اپنی طرف سے، وہ مذہب کے معاملے میں اس قدر مغلوب تھے کہ وہ مسلمانوں کی زندگی کے ہر پہلو پر اس کی بالادستی دیکھنا چاہتے تھے۔ اور اسی بنیاد پر پاکستان کی نیو رکھی جا رہی تھے۔ لہٰذا، اگرچہ وہ قیام پاکستان کے مخالف تھے، لیکن حقیقت میں قوم پرست علماء کی نظریاتی الجھن نے مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی علیحدگی کو رواج بخش کر اس کی تخلیق میں تعاون کیا ہے۔

English Article: How Nationalist Were the Indian Ulama?

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/nationalist-indian-ulama/d/128124

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..